گھرکو ترجیح دینے کا ایثار

یہ اٹھارہ انیس سال پہلے کی بات ہے، میں ان دنوں لاہور کے ایک جریدے میں کام کر رہا تھا۔ ڈاک سے آئے مضامین اور کہانیاںدیکھنا میری ذمہ داری تھی۔ہم نے لکھنے والوں کوان کے تخلیقی تجربے کے حوالے سے شیئر کرنے کی دعو ت دی، قارئین سے بھی درخواست کی کہ وہ بھی اپنا فیڈ بیک بھیجیں۔ بہت سے مضامین آئے ،کسی نے شاعری کے حوالے سے اپنی ابتدائی تجربات شیئرکیے، کسی نے بتایا کہ کہانیاںلکھتے ہوئے ان پرکیا بیتی ۔ فیصل آباد سے ایک لڑکی کا لکھا خط مجھے آج تک یاد ہے۔ اس نے بڑی صاف گوئی سے اعتراف کیا کہ وہ آج تک کوئی بھی نظم یا افسانہ نہ لکھ سکی۔ کوششیں بے پناہ کیں، قلم اورکاغذ لے کر صبح سویرے گھرکی چھت پر چلی جاتی کہ سہانا منظر دیکھ کر شاید اس کی سوئی ہوئی تخلیقی صلاحیتیں جاگ اٹھیں، گھنٹوں کوشش کرتی رہی مگرایک لفظ نہیں لکھاگیا۔کہانی لکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بھی یہی حال ہوا۔ مختلف ڈائجسٹ پڑھے تاکہ پتہ چلے کہ کہانی کیسے لکھی جاتی ہے، تمام کوششیں ناکام رہیں۔ علی الصبح اٹھنے سے رات گئے تک جاگنے کے سب تجربے کرلیے لیکن لکھنے میں کامیاب نہ ہوپائی۔ایک دن محسوس ہوا کہ اگرچہ وہ لکھ نہیں پائی مگر گھرکے کاموں میں ایک تخلیقی حسن آگیاہے۔ اس نے دلچسپ انداز میں بتایا کہ پیازکاٹنے سے آلوگوشت بنانے، سلاد سجانے سے کیک بیک کرنے اورروٹی پکانے سے صفائی ستھرائی تک گھرکے ہرکام کو ایک تخلیقی خوبصورتی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور اس میں حسن موجود ہے،شرط یہ ہے کہ دیکھنے والی نظر ہو۔اس خاتون نے اپنے خط کے آخر میں ایک سوال اٹھا یا کہ آخرگھر میں کام کرنے والی عورتوں کو ناکارہ اور نالائق کیوں تصورکیا جاتا ہے؟ان کے کیے کاموں کو وہ اہمیت کیوں نہیں ملتی جو ملازمت کرنے والی عورت کے حصے میں آتی ہے؟آخرگھر میں رہنے والی اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی خواتین کے بارے میں یہ تاثر کیوں مستحکم ہوگیا ہے کہ ان کا ٹیلنٹ ضائع ہوگیا اور صرف وہی عورتیں ہی معاشرے اورملک کے لیے کنٹری بیوٹ کر رہی ہیں، ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ ڈال رہی ہیں جو مختلف قسم کے دفاتر میں کام کرتی ہیں۔ 
پرانا قصہ ہے، وہ خط تو خاصا طویل تھا جس میں بہت سے دلائل دیے گئے تھے، مجھے چند باتیں ہی یاد رہ گئی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان باتوں کا میرے پاس اس وقت کوئی جواب تھا نہ ہی اٹھارہ برس بعدکوئی جواب ہے ، صرف یہی کہاجاسکتا ہے کہ یہ تاثر پیدا کرنے والی بھی خواتین اوران کی تنظیمیں ہی ہیں۔گھروں میں رہنے والی کروڑوں عورتوں کو ناکارہ وجود ثابت کرنے اوربے توقیرکرنے میں بھی بعض این جی اوز اور خواتین کے لیے کام کرنے والی بعض نام نہاد تنظیموں کا ہاتھ ہے۔ 
پچھلے چند دنوں سے ایک بار پھر وہی بحث چل نکلی ہے۔ اس بار مشہورکرکٹر شاہد آفریدی کا ایک ٹی وی انٹرویو وجہ بنا ہے۔ تین چاردنوں سے فیس بک اور سوشل میڈیا کی دوسری ویب سائٹس پردھواں دھار مباحثے چل رہے ہیں۔ جہاں کچھ لوگ شاہد آفریدی کے لتے لے رہے ہیں، وہاں ''لالہ‘‘کا دفاع کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ماجرا کچھ یوں ہے کہ ایک ٹی وی انٹرویو میںشاہد آفریدی سے اینکر نے سوال پوچھا کہ چند دن پہلے یہ خبر سنی کہ پشاور میں انڈر19 ویمن کرکٹرز کے ٹرائل ہو رہے ہیں، وہ کس حد تک خواتین کی کرکٹ کے حق میں ہیں؟کیاان کی ٹیمیں ہونی چاہئیں، کیا آپ کادل چاہتا ہے کہ ہماری خواتین سپورٹس میں آگے آئیں؟ آفریدی لائیٹ موڈ میں تھے، یہ سوال سن کر یکدم سیریس ہوگئے ۔ انہوں نے صاف گوئی سے جواب دیا:'' یار بات یہ ہے کہ ہماری خواتین کے ہاتھ میںمزا (ذائقہ )بہت ہے۔ وہ کھانا بہت اچھا پکاتی ہیں‘‘۔ اینکر یہ کھلا ڈلا جواب سن کر بھونچکا رہ گیا، وہ غالباً آفریدی سے ایسے سٹریٹ فارورڈ جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔اس نے منمناتے ہوئے اپنا سوال واضح کرنے کی کوشش کی کہ میں چاہ رہا تھا...۔ شاہد آفریدی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اورکہا کہ آپ کو جواب مل گیا ہے ناں کہ ہماری خواتین کھانے زیادہ مزے کے بناتی ہیں۔ اس کے بعداینکر کے پاس موضوع بدلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ 
یہ انٹرویو کئی ماہ قبل کیاگیا تھا،آن ائیر ہوا مگر نظرانداز ہوگیا۔ اب کسی نے اس کا کلپ دوبارہ دیکھا تو اسے فیس بک پرڈال دیا جہاں اس نے ہلچل مچا دی۔ یہ فوٹیج سامنے آتے ہی دو انگریزی اخبارات کی ویب سائیٹس پر دھڑا دھڑکئی بلاگ پوسٹ ہوئے کہ شاہد آفریدی نے خواتین کی توہین کر دی ہے۔ اس نے بڑی زیادتی کی اور خالص مردانہ سوچ کا مظاہرہ کیا... وغیرہ وغیرہ ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاہد آفریدی کو ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑاجس میں انہوں نے یہ جتانے کی کوشش کی کہ خواتین کرکٹ ٹیم کے لیے سپانسر ڈھونڈنے میں انہوں نے مددکی، وہ ہمیشہ ویمن ٹیم کے مددگار رہے۔ اس وضاحت کے باوجود معاملہ ختم نہیںہوا، ہمارے لبرل حلقوں کی اس بیان سے تشفی نہیں ہورہی، ان کی خواہش ہے کہ قومی آل رائونڈرکی ناک سے لکیریں نکلوائی جائیں۔ 
سچی بات ہے، مجھے آفریدی سے خاصی ہمدردی محسوس ہوئی۔بخوبی اندازہ ہے کہ آفریدی نے بڑے طاقتور حلقے کو ناراض کیا ہے۔کوئی مانے نہ مانے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں کچھ متھ اور بیریئر ایسے کھڑے کر دیے گئے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا، انہیں چیلنج کرنے کاحق کسی کو حاصل نہیں۔ان متھ،کلیشوں اور نظریات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں آگے آنا چاہیے ؛ ملک تبھی ترقی کر سکتا ہے جب باون فیصد آبادی گھر سے باہر نکل کرمردوں کا ہاتھ بٹائے گی۔ یہ اور اسی طرح کے دیگر بیانات صدر،وزیراعظم ، وزرائے اعلیٰ اوردوسرے اعلیٰ حکام وقتاً فوقتاً جاری کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اگر ہر عورت گھر سے باہر نکل کر ملازمتوں کی کٹھنائیوں میں پڑجائے تو نئی نسل کی تربیت وپرورش کون کرے گا؟نسل انسانی کی تخلیق اور پھر اسے پروان چڑھانے کا عظیم کام جوصرف ایک ماں ہی انجام دے سکتی ہے، وہ کیسے ہوگا؟ کیا بے بی سنٹرزکی ایک پوری فصل تیارکرنی پڑے گی جو ملازم پیشہ خواتین کے ننھے بچوںکی دیکھ بھال کر سکے؟ سوال مگر یہ ہے کہ کیا ایک بے بی سنٹر یا آیا ایک بچے کواس کی اپنی ماں جیسا پیار دے سکتی ہے؟سوال تو یہ بھی ہے کہ جو عورت اپنے بچوں اورگھر کی خاطرازخود اپنی مرضی اور پسند سے اپنا کیریئر اورملازمت چھوڑکرگھر بیٹھ گئی،اسے ملازمت پیشہ عورتوں سے
کمترکیوں کہا اور سمجھا جائے؟ گھر رہنا اور بیٹھنا کیا طعنہ اورمہنہ ہے؟یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں ذاتی طور پر خواتین کی ملازمت کاقطعاً مخالف نہیں۔ میری دو بہنیںٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ رہیں اور خاصا عرصہ ملازمت کرنے کے بعد انہوں نے اپنی مرضی سے نوکری چھوڑی۔ میری بچی طالب علم ہے، اللہ نے چاہا تو اسے اعلیٰ ترین تعلیم کے حصول کے لیے تمام ترکوششیں کروں گا، اگرو ہ بطور پروفیشنل کام کرنا چاہے تو یہ اس کی اپنی مرضی پرمنحصر ہوگا ؛ تاہم میں گھروں میں رہنے والی خواتین کو ملازم پیشہ خواتین سے کسی طور بھی کم اہم تصور نہیں کرتا۔ درحقیقت جو عورت اپنا پروفیشن اورملازمت صرف اپنی اولاد اورگھر کی خاطر تج کر اپنی تمام تر صلاحیتیں اس کی اچھی پرورش کے لیے وقف کر دے ، اس کی عزت میرے دل میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ میرا بس چلے تو ایسی ایثار پیشہ خواتین کو سرکاری سطح پر اعزاز سے نوازنے کی سفارش کروں۔ اپنے مالی مفادات، انا اور آزادی کو ازخود ترک کرنا آسان نہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک کے کئی شعبوں میں خواتین کی بہت ضرورت ہے، وہاں نہ صرف انہیںملازمتیں دی جائیںبلکہ ان کے اوقات کار نرم کئے جائیں، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتیں دی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جو خاتون گھر میں رہنا پسند کرے ، اسے بھی اتنی ہی عزت اور توقیر دی جائے ۔ نئی نسل کی تربیت اور اپنے گھر کو جنت بنائے رکھنے کا ٹاسک پورا کرنادفترمیں آٹھ گھنٹے کی ملازمت سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی کو اتنا حق بھی دیں کہ وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہارکر سکے۔ شاہد آفریدی ایک کرکٹر ہے،کوئی سماجی علوم کا ماہر نہیں،اس نے جو سوچا وہ مناسب الفاظ کا جامہ پہنائے بغیرکہہ ڈالا۔ اس کا جرم اتنا بڑانہیں کہ سب اس کے پیچھے پڑ جائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں