نئے ذائقے

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے، اپنے ایک دوست سے ملنے اس کے گھر گیا ۔ وہاں پر ایک عمر رسیدہ شخص بھی بیٹھے تھے۔ بڑے نفیس تھری پیس سوٹ میں ملبوس، ہاتھ میں پائپ پکڑا ہوا، جس کے تمباکو کی مہک کمرے میں پھیلی تھی۔دوست نے بتایا کہ وہ ان کے انکل ہیں، بیرون ملک مقیم ہیں اور آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔پتہ چلا کہ وہ ہائی لیول آئی ٹی پروفیشنل ہیں، سیلانی مزاج ہے، ملازمت کے سلسلے میں دنیا گھومتے رہے، یورپ، امریکہ ، آسٹریلیا اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں بھی رہ چکے ہیں۔آدمی شائستہ تھے، بڑی اپنائیت سے ملے اور گپ شپ شروع کر دی۔ کچھ دیر کے بعد میں نے برسبیل تذکرہ ان سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے سے باہر رہ رہے ہیں،دنیا گھوم رکھی ہے۔آپ اپنے تجربات کی روشنی میں نوجوانوں کو کیا خاص مشورہ دینا چاہئیں گے؟چند لمحوں تک وہ سوچتے رہے، پھر بولے ، ''پاکستانیوں کو تو بہت سے مشوروں کی ضرورت ہے،۔باہر کے معاشروں سے کئی باتیں سیکھنے والی ہیں۔ورک کلچر سے لے کر سوک سینس تک کتنی باتیں ہیں، جن کا ہمارے ہاں بالکل خیال نہیں رکھاجاتا۔ ایک بات پر میںالبتہ ضرور زور دوں گا کہ ہم پاکستانی نئے ذائقے ڈویلپ نہیں کرتے،برسوں سے ، عشروں سے چلتے آتے طور طریقوں کو زندگی بھر جاری رکھتے ہیں۔ کھانے پینے، اوڑھنے، سوچنے، دیکھنے، سننے کے حوالے سے کوئی نیا تجربہ نہیں کرنا چاہتے، کسی نئی چیز، نئی بات کو ٹرائی ہی نہیں کرتے۔‘‘
یہ بات سن کر میں تو حیران ہوا ہی، میرے دوست سے بھی نہ رہا گیا، اس نے اپنے انکل سے بات کی مزید وضاحت کے لئے درخواست کی۔ وہ صاحب کہنے لگے،اللہ نے ہمیں سونگھنے، چکھنے، دیکھنے اور سننے کی جو صلاحیتیں دی ہیں، انہیں مسلسل بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔جس طرح ایک بچہ ہر چیز کو اپنے ہاتھ سے چھوتا اور منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے چکھ کر اس کا اندازہ کر سکے۔ اس وقت اس کی چھونے اور چکھنے کی حسیات زیادہ تیز ہوتی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے سننے ، دیکھنے اور پھر سوچنے کی صلاحیت بھی بہتر کرتا جاتا ہے، یوں اس کے پاس ہتھیار یا ٹولز بڑھ جاتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم بڑے ہو کر اپنے ان ہتھیاروں کو تیز کرنا بھول جاتے ہیں۔ جس حد تک صلاحیت یا استعداد پیدا ہوچکی ہوتی ہے، اسے بڑھانے اور بہتر کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔ ضروری نہیں کہ ہر چیز کا تجربہ کیا جائے، بہت سی مضر اور نقصان دہ چیزیں اور عادتیں ہیں، ان سے بچنا چاہیے ،مگر اپنے ذائقوں کو ہر حال میں بہتر کیا جائے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ذائقے صرف زبان کے نہیں، بلکہ کان ، آنکھ اور دماغ کو بھی نئے ذائقوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اپنی سماعتوں کو دنیا کی خوبصورت ترین آوازوں، سروں اور زبانوں سے لطف اندوز ہونے دیں۔ روزانہ کی روٹین سے ہٹ کر اپنی آنکھوں کو بھی نئے مناظر دیکھنے کا موقعہ دیں۔ حسین فطری مقامات، سرسراتی ہوائیں تلے کھلے دلکش پھول، سرسبزگرائونڈز میں کچھ وقت گزاریں،اپنے اردگرد موجود چیزوں، پرندوں ، پودوں کو دیکھیں۔ سب سے بڑھ کر فلم اور ڈرامہ کے میڈیم سے فائدہ اٹھائیں۔شاہکار فلمیں دیکھیں۔ ایک بڑی فلم انسان کو اندر سے چند انچ بلند کر دیتی ہے، اس کے سوچنے، غور کرنے اور دنیا کو دیکھنے کا انداز ہی بدل جاتا ہے۔ اسی طرح معیاری ڈرامے دیکھیں، دنیا کے اعلیٰ ترین ڈراموں کو مختلف زبانوں میں سٹیج پر پیش کیا گیا ہے، ان کی ویڈیو فلمز نیٹ پر اور دکانوں پر دستیاب ہیں۔ انہیں دیکھیں ، سیکھیں، شیکسپئیر کے کسی بھی ڈرامے پرفلمائے ہوئے سٹیج ڈرامے کو دیکھ لیں، آدمی کو پتہ چل جاتا ہے کہ سٹیج اداکاری ہوتی کیا ہے اور دنیا بھر کے ایکٹر سٹیج کو ٹی وی اور فلم سے زیادہ مشکل میڈیم کیوں قرار دیتے ہیں۔ ‘‘
اس بات کو کئی برس گزر گئے ، مکالمہ خاصا طویل تھا، میں نے لب لباب ہی پیش کیا، وہ بھی اپنے الفاظ میں، مگر سچ تو یہ ہے کہ مجھے ان صاحب کی باتوں نے خاصا متاثر کیا۔دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی شخصیت پر محنت کرتے ہیں، ڈریسنگ، سٹائلنگ، دیدہ زیب ملبوسات، جوتے، گھڑیاں، موبائل ... غرض اپنی حیثیت اور استعداد کے مطابق کوئی کمی نہیں اٹھا رکھتے۔ اپنے اندر کی شخصیت کو پالش کرنے، اسے چمکانے اور بلند کرنے کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ شائد روزمرہ کی تیزرفتار زندگی ہمیں یہ موقعہ ہی نہیں دیتی کہ کہیں چند لمحوں کے لئے رک کر یہ سوچیں کہ ہم دن رات اپنے بیوی ، بچوں کے لئے کما رہے ہیں، محنت کر کے مالی آسودگی کا سبب پیدا کر رہے ہیں، مگر اس سب میں ہماری اپنی ذات کہاں گئی؟ اس کے لئے ہم نے کتنا وقت نکالا، کس قدر کوشش کی؟ جواب اکثر وبیشتر نفی میں ملتا ہے ...مگر چونکہ ہم یہ سوال اپنے آپ سے پوچھتے ہی نہیں توامتحان میں اس ممکنہ ناکامی کا ہمیں علم ہی نہیں ہوپاتا۔ 
چند دن پہلے ایک دوست ملنے آئے ۔ وہ ایک اچھے ویب ڈویلپر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو بلاگر بھی ہیں، سوشل میڈیا پر بلاگ لکھتے ہیں اور اچھا بھلا ان کا حلقہ ہے۔ باتوں میں کہنے لگے کہ شروع میں تو بلاگ لکھنے ہی کو سب سمجھتے تھے، اب خاصا عرصہ ہوگیا، دوست بھی سراہتے ہیں، مگر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے رک سا گیا ہوں، آگے بڑھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے،مگر اندازہ نہیں ہو رہا کہ کیا کروں؟ میں نے انہیں وہی بات بتائی اور کہا کہ جس طرح ہم نئے کھانوں کا ذائقہ ڈویلپ کرتے ہیں، چائنیز پہلی بار کھانے پڑیں تو عجیب لگتے ہیں، کافی پی جائے تو بہت سوں کو زیادہ لطف نہیں آتا، دو چار مرتبہ پی لینے کے بعد وہی لوگ مزے لینے کے لئے دوستوں کے ساتھ کافی پینے جایا کرتے ہیں۔ زبان کے ذائقوں کی طرح اپنے سماعتوں کے ذائقے بھی بہتر کریں، انٹرنیٹ پر دنیا جہاں کے بہترین گیت اور نغمے موجود ہیں، بیتھوون کی سمفنیوں سے ام کلثوم کے سدا بہار گیتوں تک ایک انوکھی دنیا موجود ہے، جس کے دروازے ہر ایک کے لئے وا ہیں، کوئی جانے والا تو بنے۔ اسی طرح بڑے ناول پڑھو، ان پر بنی فلمیں دیکھو، آپ کو بسا اوقات ایک ہی دن میں ایک برس کے فکری ارتقا کا احساس ہوگا۔ سنجیدہ فکری موضوعات پر لاجواب کتابیں موجود ہیں، اردو میں بے شمار تراجم بھی ہوچکے۔ انہیں پڑھنے ،ان پر غور کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ سوچنے کاانداز ہی بدل جائے گا۔ فکشن کے مطالعے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی زندگی کی مختلف پرتوں، سطحوں اور اس کے ہزارہا شیڈز کو دیکھنے ، سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ میں نے مثال دی کہ ترک ادیب اورحان پاموک کا ناول مائی نیم از ریڈ پڑھ کر دیکھ لیجئے، یہ ناول اپنے سحر سے شائد زندگی بھر آپ کو آزاد نہ کرے۔ اس کا اردو ترجمہ'' سرخ میرا نام ‘‘چھپ چکا ہے، گارشیا مارکیز کے دو ناول تنہائی کے سو سال اور وبا کے دنوں میں محبت پڑھنا ایک شاندار تجربے سے کم نہیں۔ حوزے ساراگوما کا ناول اندھے لوگ پڑھنے کے بعد آدمی ایک نئے زاویے سے اپنے گردوپیش کو دیکھنے لگتا ہے۔ ایسے شاہکار ناولوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے، شاندار فلموں کی کئی طویل فہرستیں بن سکتی ہیں۔ کسی دن گھنٹہ دو گھنٹے نیٹ پر بیٹھ کر یہ کام کر لیا جائے اور پھر اپنی زندگی میںبتدریج رنگ بھرے جائیں۔ نئے، دل آویز اور حسین رنگ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں