امریکہ کی پہلی افغان جنگ

افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے دن جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں، اس خطے میںنائن الیون کے بعد جاری کھیل کے حوالے سے مختلف امریکی مصنفین کی کتابیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ امریکہ میں ایک اچھا رواج ہے کہ مختلف اہم عہدوں پر فائز اکثرافسران خواہ ان کا تعلق فوج سے ہو، پنٹا گون یا سی آئی اے سے... وہ اپنے تجربات ، مشاہدات اورآنکھوں دیکھے واقعات پر مبنی کتاب لکھتے ہیں۔ تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لئے گواہی بھی ہوتی ہے اور ایک طرح سے ان کا نقطہ نظر بھی سامنے آتا ہے۔ ان میں سے بہت متنازع شخصیات کے کہے یا لکھے کو حرف بہ حرف قبول نہیں کیا جاتا اور میڈیا میں تنقیدی اورتجزیاتی مضامین شائع ہوتے ہیں، جس میں یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ جو بات پیش کی جا رہی ہے، وہ کس حد تک حقیقت پر مبنی ہوسکتی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ اس وقت حکومت یا اس حکومتی پالیسی کا حصہ کیوں بنے رہے، یہ بات اس وقت کیوں نہیں کہی؟ یہی وجہ ہے کہ بیشتر سابق وزرائے خارجہ، وزرائے دفاع اورخفیہ اداروں کے ایجنٹ کتابیں تحریر کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے ان کتابوں کی کلیئرنس ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ بعض حساس معلومات شائع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہو، اس کے باوجود کچھ نہ کچھ تو سامنے آ ہی جاتا ہے۔ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے اخبارنویسوں اور لکھنے والوں کوبند دروازوں کے پیچھے ہونے والے کھیل کی جھلک مل جاتی ہے۔ ان کتابوں اور ان سے ظاہر ہونے والی معلومات کا آزادانہ تجزیہ البتہ ہمارے ہاں بھی ہونا چاہیے۔ کوئی مصنف مقدس نہیں ہوتا، اس کی کچھ باتیں درست تو بعض غلط اورکسی خاص ایجنڈے کے تحت لکھی جاسکتی ہیں۔
افغانستان میں امریکہ افواج ایک طرح کی شکست فاش سے دوچار ہوئی ہیں۔ بعض لوگ امریکی شکست کی اصطلاح پر نارا ض ہوجاتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ شائدیہ جملہ شدت پسندوں کے بیانیہ کو سپورٹ کر رہا ہے یا پھراس بات سے ہمارے ہاں رومانویت آمیز عسکریت پسندی میں اضافہ ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور افغانستان سے شکست کا گہراگھائو لگوا کرواپس جا رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ امریکی افواج کے ساتھ ویت نام جیسا سلوک نہیں ہوا، ان کے چند ہزار فوجی یہاں مقیم رہیں گے۔ اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کوئی سپرپاور کسی ملک پر ایک ایجنڈے کے تحت حملہ کرے اور کئی سال وہاں رہنے، اچھا خاصا جانی نقصان اور بے پناہ مالی نقصان اٹھانے کے باوجود وہ ایجنڈا پورا نہ ہوسکے تو عسکری زبان میں اسے شکست ہی کہتے ہیں۔ امریکہ کے مشہور وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے ایک بار کہا تھا ،''ریگولر آرمی اگر گوریلا گروپ یا تنظیم کو شکست نہ دے سکے تو یہ ریگولر آرمی کی شکست ہے۔ ‘‘یہ مشہور عسکری اصول کی طرف اشارہ تھا، فوج کی جیت کے لئے ضروری ہے کہ دشمن تنظیم کا مکمل صفایا کیا جائے ،جبکہ گوریلا تنظیم کیلئے اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہی اس کی فتح تصور ہوگی۔ امریکہ افغانستان میں القاعدہ کے مکمل صفایا اور طالبان کے خاتمے کا ایجنڈا لے کر آیا۔ تیرہ برس گزر جانے کے بعد پتہ چلا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی القاعدہ قائم ہے، اس کا نیٹ ورک جڑا ہوا ہے، القاعدہ نے مستقبل کے لئے کئی نئے محاذ کھول رکھے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کو شکست دینے میں امریکی افواج مکمل طور پرناکام ہوئی ہیں، اپنے ہاتھوں جن افغان طالبان لیڈروں کو دہشت گرد کہا، ان کے سروں کی قیمت مقررکی، اب خود ہی ان کے خلاف الزامات واپس لئے، دہشت گردی کا لیبل پھاڑ ڈالا اور اب انہی طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں،طالبان کے لئے مستقبل کے افغان سیٹ اپ میں جگہ بنائی جا رہی ہے۔ اس سے بڑی ناکامی اور شکست کیا ہوگی؟
امریکہ کی اس شکست کو سامنے رکھتے ہوئے وہاں کے بعض ماہرین اور تجزیہ کاروں نے مختلف حیلے بہانوں سے اس ناکام ایڈونچر کے مختلف حصے بنا کر ا نہیں گلوریفائی کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں سی آئی اے کے سابق ایجنٹ رابرٹ گرنئیر کی کتاب 88 days to Kandhar شائع ہوئی ہے۔ گرنئیر نائن الیون کے وقت پاکستان میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف تھے۔اس کتاب میں نائن الیون سے افغانستان کی طالبان حکومت کے خاتمے تک اٹھاسی دنوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ رابرٹ گرنئیر نے اسے امریکہ کی پہلی افغان جنگ قرار دیا ،جوبقول ان کے امریکہ نے جیت لی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جسے پہلی جنگ کہا گیا، وہ حقیقت میںاس طرح ہوئی ہی نہیں،ابتدائی مزاحمت کے بعد افغان طالبان ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت شہری آبادی میں تحلیل (Melt)ہوگئے، ان کے اہم رہنمااپنے قبائل میں غائب ہوگئے، طالبان جنگجوعام آدمی بن گئے۔
اس دلچسپ کتاب کے بعض ابواب اٹلانٹک میگزین اور بعض دوسری ویب سائٹس نے شائع کئے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سابق سی آئی اے چیف نے بڑے دلچسپ انداز میں کتاب تحریر کی ہے۔ رابرٹ گرنئیر کو واشنگٹن سے ٹاسک ملا کہ کسی طرح اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے نمایاں افراد کو گرفتار کرا دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے اس نے طالبان سے رابطہ کیا۔ رابطوں کی تفصیل بھی دلچسپ ہے،ملا عمر کی جانب سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے کا ٹکا سا جواب، مگر سب سے مزے دار حصہ طالبان کے ایک نامور کمانڈر ملا عثمانی سے ملاقات کی تفصیل ہے۔ ملا عثمانی کو ملا عمر کے بعد سب سے اہم کمانڈروں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ رابرٹ گرنئیر نے سوچا کہ ملا عثمانی کوملا عمر کے خلاف بغاوت کے لئے رضامند کیا جائے، اپنی ملاقات میں اس نے اس حوالے سے ایک پورا روڈ میپ تیار کیا کہ کس طرح اس نے ملا عمر کو حفاظتی تحویل میں لے کر ریڈیو شریعت پر اعلان کرانا ہے، پھر اسامہ بن لادن اور القاعدہ
لیڈروں کو امریکہ کے حوالے کرنے کے ساتھ عربوں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کرنا ہے ... وغیرہ وغیرہ۔ ملاعثمانی نے خاصی بحث کی ،پھر رضامند ہوگیا۔ گرنئیر نے مالی مدد یعنی رشوت کی بھی پیش کش کی،مگر ملا عثمانی نے وہ قبول نہیں کی۔ آخر میںملا عثمانی نے بڑے مزے سے کہا کہ تم بے فکر رہو، میں یہ سب تفصیل جا کر ملا عمر کو بیان کروں گا۔ رابرٹ گرنئیرجو اپنی طرف سے ملاعثمانی کو بغاوت کے لئے تیار کر چکا تھا، وہ یہ فقرہ سن کر کرسی سے گرتے گرتے بچا۔ خیر یہ سب کوششیں ناکام رہیں اور امریکیوں نے افغانستان پر ہلہ بول دیا۔ حامد کرزئی کو تلاش کرنے کاسہرا بھی گرنئیر کے سر جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ جب کرزئی کو افغانستان لانچ کیا گیا تو اس نے ڈیز ل سے چلنے والا ایک جنریٹر مانگا تاکہ جب اسے طالبان سے پسپا ہو کر بھاگنا پڑے توموبائل چارج کر کے مدد مانگ سکے۔ یہ فرمائش سن کر سی آئی اے ایجنٹوں کو دھچکا لگا۔ رابرٹ گرنئیر جسے نائن الیون کے چھ سال بعد دوبارہ اس خطے میں اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی، اس نے اس کتاب میں ان امریکی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی، جن کے باعث بقول اس کے جیتی ہوئی افغان جنگ ہار دی گئی۔ وہ پاکستانی خفیہ ادارے کے سربراہ جنرل کیانی کا ذکر بھی کرتا ہے، جو بقول اس کے امریکی دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستانی مفادات کا خیال رکھنے کے لئے کوشاں رہے۔ امریکہ افغانستان میں اپنا آخری رائونڈ کھیل رہا ہے، ممکن ہے آنے والے دنوں میں کوئی ''محرم راز‘‘ان دنوں کی غلطیوں کی تفصیل بھی بیان کرے۔ ہمارے لئے مگر زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے مفادات مقدم رکھتے ہوئے ان غلطیوں سے گریز کریںجن کا ارتکاب ماضی میں کیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں