سوال کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟

یہ پانچ چھ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اسلام آباد میں ایک جرمن پروفیسر سے خاصی تفصیلی نشست کا موقع ملا۔ گورے اگر جرمنی، فرانس، ہالینڈ وغیرہ کے ہوں‘ تو میرے جیسے لوگوں کے لئے آسانی رہتی ہے کہ ان کی انگریزی بھی عام طور پر گئی گزری ہی ہوتی ہے، یوں ہم لوگ زیادہ پُراعتماد ہو کر ان سے گفتگو فرماتے اور اپنی فصاحت کے جوہر کھل کر دکھاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب غالباً عسکریت پسندی کے حوالے سے کچھ تحقیق فرما رہے تھے‘ اسی سلسلے میں ایک صحافی دوست کے کہنے پر ہم سے بھی ملاقات ہو گئی۔ عسکریت پسندی اور طالبانائزیشن کے حوالے سے جو گفتگو ہوئی، وہ آج کا موضوع نہیں۔ ویسے بھی میں نے دیکھا ہے کہ خواہ یورپی ماہر ہوں یا امریکی، پاکستان، افغانستان میں عسکریت پسندی کے ایشوز کے حوالے سے ان کی معلومات نہ صرف خام ہوتی ہیں، بلکہ تجزیے کی مکمل عمارت ہی غلط مفروضوں کی بنیاد پر استوار ہوتی ہیں۔ ان کی تصحیح کرنا یا ان کو قائل کرنا ممکن نہیں ہوتا؛ البتہ گفتگو سے مغرب کی انٹیلی جینشیا کے مائنڈسیٹ کو سمجھنے میں ضرور مدد ملتی ہے۔
جرمن پروفیسر سے گفتگو کے آخر میں ان سے سوال پوچھا کہ آپ لوگوں نے ہولوکاسٹ کے انکار کو جرم کیوں قرار دے رکھا ہے؟ دس سے زیادہ یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کو چیلنج یا اس سے انکار کرنے والا جیل کی ہوا کھا سکتا ہے، جبکہ دوسرے مغربی ممالک میں بھی اسے سخت ناپسندیدہ امر سمجھا جاتا اور اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ مغربی دنیا اپنی اخلاقی اقدار میں آزادیء رائے اور آزادیء اظہار کو بڑی اہمیت دیتی ہے، یہ سب کچھ ہولوکاسٹ کے معاملے میں کیوں پس پشت چلا جاتا ہے؟ جرمن پروفیسر کا جواب مجھے آج بھی اچھی 
طرح یاد ہے، بلکہ اس نے پہلی بار اس ہولوکاسٹ والے ایشو کو درست تناظر میں سمجھنے میں مدد کی۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد پروفیسر نے کہا، ''پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ میں یہودی نہیں بلکہ عیسائی ہوں۔ میرے ایک انکل نازیوں کے حامی بھی رہے تھے۔ اس کے باوجود ہماری رائے ہولوکاسٹ کے بارے میں بڑی واضح ہے کہ یہ یورپی تاریخ کا سیاہ باب تھا، ایسی تکلیف دہ یادیں، جن سے اب آگے بڑھ جانا ہی بہتر ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہولوکاسٹ میں مرنے والوں کی جتنی تعداد بتائی جاتی ہو، اتنی ہلاکتیں نہ ہوئی ہوں، مگر بہرحال آشووٹز میں نازی قیدی کیمپ تھے، گیس چیمبرز کے ہونے میں بھی کوئی شک نہیں اور لاکھوں لوگ تو مرے ہی تھے۔ ہولوکاسٹ کے حوالے سے یورپی معاشرہ اس لئے حساس ہے کہ وہ اب دوبارہ سے ان پرانے جھگڑوں میں الجھنا چاہتے ہیں‘ نہ ہی انہیں ری اوپن کرکے نیا فتنہ جگانے کے خواہش مند ہیں۔ ریاستوں اور حکومتوں کو بعض اوقات چند ایک معاملات میں مجبوراً سخت اور بے لچک موقف اپنانا پڑتا ہے۔ اس کا مقصد معاشرے کو تقسیم ہونے سے بچانا، مختلف طبقات کے مابین کشیدگی اور نفرت کو پھیلنے سے روکنا‘ اور طے شدہ ایشوز کو کریدنے کے بجائے آگے کی طرف بڑھنا ہے۔ پھر آپ لوگ یاد رکھیں کہ جو لوگ ہولوکاسٹ کو چیلنج کرنا چاہتے یا اپنی دانست میں تاریخ کو ری وزٹ کرنا چاہتے ہیں، دراصل ان میں سے بیشتر کا نازی نظریات کے لئے نرم گوشہ ہے‘ اور ان کی یہ تمام علمی کاوش دراصل بدنیتی پر مبنی ہے۔ وہ ہولوکاسٹ پر سوال اٹھا کر دراصل نازیوں کے لئے گنجائش پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ہولوکاسٹ کو چیلنج کرنے پر پابندی کا قانون بنا کر ہم نے اس فتنے کا دروازہ بند کر دیا، جس نے یورپ کو تقسیم کر دیا تھا۔ ویسے بھی قوموں اور ممالک کو اپنے آج کے مسائل اور مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے۔ اپنے خشک زخموں کو بار بار چھیڑنے اور ان پر جمے کھرنڈ کو اتارنے سے دوبارہ خون رسنے لگے گا اور مسائل بڑھیں گے‘‘۔
جرمن پروفیسر کی گفتگو کو میں نے اپنے انداز میں تحریر کر دیا ہے؛ البتہ نکات اور دلائل سب وہی ہیں۔ اس وقت ہم ہولوکاسٹ کے حوالے سے تحفظات رکھتے تھے‘ اور توہین آمیز کارٹونوں پر بحث میں اہل یورپ کو یہی طعنہ دیا کرتے تھے۔ بعد میں رفتہ رفتہ جب اس نکتہ پر غور کیا تو اس کی افادیت کا قائل ہو گیا۔ پاکستان میں پچھلے چند برسوں کے دوران سوال اٹھانے کا ایک نیا دلچسپ مگر فتنہ انگیز ٹرینڈ شروع ہوا ہے، اس پس منظر میں یورپی سکالر کی بات میں مزید وزن محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک حلقے کی جانب سے متواتر‘ آئین میں طے شدہ ایشوز کو دوبارہ سے چھیڑنے اور اس حوالے سے سوالات اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی قوم نے جن ایشوز پر عشروں کے بحث مباحثے اور تلخیوں کے بعد جا کر اتفاق رائے کیا‘ اور قوم کی عظیم اکثریت کے مینڈیٹ سے آئینی ترامیم کی گئیں، اب دانستہ ان حساس ایشوز کو چھیڑ کر دوبارہ سے قوم میں اضطراب پیدا کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک قرارداد مقاصد کو ہدف بنایا جا رہا تھا۔ ایسا کرنے والے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ساٹھ پینسٹھ سالہ پرانی اس قرارداد کو مذہبی دہشت گردی کا سبب قرار دیتے۔ یہ بات حالانکہ بالکل غلط تھی۔ پاکستان میں مذہبی دہشت گردی پھیلنے کی اپنی وجوہ ہیں، قرارداد مقاصد کا اس میں ایک فیصد بھی حصہ نہیں۔ اس کی مخالفت صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے اللہ اور اس کے احکامات پاکستانی ریاست میں نافذ کرنے کا عہد کیا گیا۔ خدا اور خدائی ضابطوں، قوانین کا نام لینا بدقسمتی سے ہمارے سیکولر حلقے کو سخت ناپسندہے۔ ان کے نزدیک خدا کو صرف گھروں تک محدود رکھا جائے اور عملی زندگی میں اس کی کوئی جھلک دکھائی نہ دے۔ سیکولر ریاست کا مطالبہ اسی لئے کیا جاتا ہے کہ خدا کے نام پر بنائی گئی ریاست کو اندھا، گونگا، بہرہ اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے عائد ذمہ داریوں کے احساس سے بے نیاز ہی کر دیا جائے۔ 
پچھلے کچھ دنوں سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم پر بھی سوال اٹھایا جانے لگا ہے۔ ایک ٹی وی اداکار نے اپنے پروگرام میں یہ سوال اٹھایا کہ کیا ریاست کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے؟ اس پر خاصا شور اٹھا، سوشل میڈیا پر تو اس سوال نے ایک طوفان برپا کر دیا۔ دراصل لوگوں کو شبہ ہوا کہ یہ سب کچھ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔ ویسے بھی یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ رمضان نشریات میں جب روزے کے فضائل، فیوض و برکات پر بات ہو رہی ہو، وہاں پر یہ بحث چھیڑی جائے۔ آج کل یہ نیا طریقہ شروع ہوا ہے کہ ٹی وی اداکار رمضان نشریات کے اینکر بن کر اپنی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ چلو یہ بھی ہو گیا، مگر کم از کم ان اداکاروں کو کچھ ہوم ورک کر کے، ریسرچ کے ساتھ پروگرام کرنے چاہئیں۔ پھر یہ سمجھنا چاہیے کہ کون سے موضوعات حساس ہیں اور ان پر بلا سوچے سمجھے کلام کرنا معاشرے کو مضطرب، مشتعل کر سکتا ہے۔ پاکستانی قوم نے کئی عشروں کے بحث مباحثے، تحریکوں کے بعد ستر کے عشرے میں مکمل اتفاق رائے اور یکسوئی کے ساتھ اس معاملہ کو نمٹا دیا تھا۔ پارلیمنٹ کی تین ہفتے تک کارروائی ہوئی، جس کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم منظور ہوئی۔ یہ ایشو سیٹل ہو گیا۔ اس وقت کے اخبارات کی لیڈ بھی یہی تھی کہ قادیانی مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ عملی طور پر سماج کی پوزیشن یہی ہے۔ لوگ اس آئینی ترمیم کے حوالے سے یکسو اور بالکل واضح ہیں۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات اٹھانے کو علمی رنگ دیا گیا ہے۔ یار لوگ بڑے طمطراق سے کہتے ہیں کہ سوال تو اٹھائے جائیں گے، ان کے جواب دینے پڑیں گے۔ بھائی ہم جانتے ہیں کہ سوال پوچھنے کی کیا علمی حیثیت ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں۔ کچھ معاملات البتہ جذباتی اور حساس نوعیت کے ہوتے ہیں، ان پر علمی بحث ہونے چاہیے اور وہ بھی علمی فورمز میں۔ ہر بات، ہر بحث ٹی وی یا کسی پبلک فورم پر نہیں ہو سکتی۔ ہونی بھی نہیں چاہیے۔ اس طرح تو سر پھٹول کا ایسا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو معاشرے کا بنیادی فیبرک ہی ہلا کر رکھ دے گا۔ ختم نبوتﷺ کا تعلق پاکستانی قوم کے عقیدے اور ایمان سے ہے۔ اس حوالے سے کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ جو بحثیں ساٹھ، ستر کے عشرے میں ختم ہو گئیں، انہیں دوبارہ اوپن کرنے سے کچھ نہیں مل پائے گا۔ ہم سے پہلے والوں نے اس موقف کا علمی دفاع کیا، اب ضرورت پڑی تو ہماری نسل یہ ذمہ داری نبھائے گی، اس ترمیم کو ختم کرنے کا خواب مگر کبھی انشااللہ پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ ہر ایک کو سمجھ لینا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں