وزیر خارجہ کہاں ہیں؟

اس ہفتے دو باتیں ایسی ہوئی ہیں جو ایک وزیر خارجہ کے دائرہ کار و اختیار میں آتی ہیں۔ اول‘ بھارت کے ساتھ ''آموں کی سفارت‘‘ کا معاملہ اور دوئم‘ امریکی صدر اوباما کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کو اس سال کے آخر میں واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی گئی ہے۔ اگر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ آخر ہیں کہاں؟ وہ ہمیں کہاں مل سکیں گے؟ تو جواباً عرض ہے کہ پی ایم ہاؤس جا کر دیکھیے! وہاں سب سے بڑی میز کی صدر کرسی پر جو صاحب براجمان ہیں، یعنی جن کے اشارے پر وہاں سب کچھ ہوتا ہے، وہی ہمارے وزیر خارجہ بھی ہیں۔ یہاں پھر سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کے دفاعی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی کی ترتیب و تشکیل کے لئے جو مہارت، اضافی توانائی اور وقت درکار ہے، آیا میاں نواز شریف اس کے حامل ہیں؟ اس کا جواب واضح طور پر نفی میں ہے!
آموں کی سفارت کی مثال ہی دیکھ لیجئے۔ بھارتی وزیر اعظم دنیا بھر میں گھومتے ہیں اور ہر جگہ ان کی آؤ بھگت یوں ہوتی ہے جیسے وہ کوئی راک سٹار ہوں۔ اسی لئے تو انہیں سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے تقاضے کی جرأت بھی ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم صاحب ہیں جو محض ذاتی حمایت اور معاونت کے حصول کے لئے اپنے گاڈ فادرز یعنی سعودیوں کے یہاں ہی جاتے رہتے ہیں۔ آخر ان کے اس احساسِ عدم تحفظ کا سبب کیا ہے؟ اس قدر تواتر سے وہ سعودی عرب کے دورے کرتے ہیں توکیا اس کی وجوہ جذباتی ہیں یا مالی؟ یا اس ارض مقدس پر وہ مزید فیکٹریاں تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟ یا پھر خالصتاً کوئی ذاتی وجہ ہے؟
میڈیا کے حلقوں میں تو کہا جا تا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب‘ جو وزیر خارجہ کا عہدہ بھی رکھتے ہیں، کا زیادہ تر وقت پاکستان کے لئے اہمیت رکھنے والے غیر ملکی رہنماؤں سے روابط استوار کرنے کی کاوشوں کی بجائے اپنے ذاتی کاموں کی انجام دہی میں گزرتا ہے۔ پچھلے دنوں میڈیا میں ان کی نواسی کے نکاح کا چرچا رہا۔ ان دونوں صنعتکاروں کے اہل خانہ دو الگ الگ چارٹرڈ طیاروں میں سعودی عرب پہنچے۔اس حوالے سے نعیم صدیقی نامی ایک صاحب نے ہمارے نام ای میل میں اپنے تفکرات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے: '' پاکستان میں پہلے ہی شادیوں پر بے جا نمودو نمائش، اسراف اور وسائل کے ضیاع کا رجحان پایا جاتا ہے اور اب یہ سارے کام ایک ایسے فرد کی وجہ سے ایک نئے درجے کو چھو گئے ہیں جوعوامی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ شادی کے لئے بیرون ملک جانا، دو چارٹرڈ طیاروں کا استعمال اور سعودی شاہی خاندان کے تعاون کے ساتھ مسجد نبوی میں نکاح! ایک ایسا شخص جو دعائیں اور عبادات بھی بیرون ملک جا کرکرنا پسند کرتا ہے، کیا کسی بھی لحاظ سے پاکستان کا وزیر اعظم ہو سکتا ہے؟ اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر ذاتی مصروفیات کی وجہ سے وزیر اعظم صاحب ملک کے خارجہ امور کے لئے وقت نہیں نکال پاتے توبہتر یہی ہوگا کہ وہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی صاحبان کے ذریعے گزارا چلانے کی بجائے ایک کل وقتی وزیر خارجہ کا تقررکر دیں۔ اول الذکر خارجہ امور کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے امور کے بھی مشیر ہیں جبکہ فاطمی صاحب خارجہ امور کے لئے وزیر اعظم کے خصوصی معاون ہیں۔ پچھلے دنوں ایک انگریزی روزنامے کے اداریے میں یہ تبصرہ کیا گیا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے میاں صاحب جبلتاً اپنے مشیروں اور معاونین کے ایک مختصر سے حلقے کے سوا کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتے۔ موجودہ وزارتوں کا عملہ کئی ایسے اہلکاروں پر مشتمل ہے جو وزیر اعظم کے وفادار ہیں۔ روسی شہر اوفا میں اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد جب میاں صاحب وطن واپس آئے تو انہیں کافی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا تھا ، کیونکہ اس ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں کشمیر کا ذکر کہیں نہیں تھا۔ چنانچہ مذکورہ مشترکہ اعلامیہ بھارتی مؤقف کا ہی موید سمجھا گیاہے۔ اگر تو ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہوتا تو یقیناً ان کی جانب سے میاں صاحب کو اس ضمن میں کچھ الگ مشورہ دیا جاتا۔ دوسری طرف صدر اوباما کی جانب سے امریکی دورے کی دعوت ملنے پر میاں صاحب اس قدر ہیجان میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ انہوں نے فی الفور اپنے خصوصی معاون طارق فاطمی کو امریکہ بھیج دیا ہے تاکہ وہ جا کر ان کے دورے کی تیاریاں کر لیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران فاطمی صاحب اوباما انتظامیہ کے سینئر اہلکاروں اور کانگرس کے اراکین سے ملے ہیں۔ فاطمی صاحب چونکہ کوئی عہدہ نہیں رکھتے، اس لئے ہمیں تو یقین نہیں کہ انہیں وہاں وہ پروٹو کول دیا جا ئے گا جو کہ عموماً کسی وزیر خارجہ کو دیا جاتا ہے۔ واشنگٹن والے کافی گھمنڈی ہیں اور فاطمی صاحب جیسے بیرونی مہمانوں کو وہ زیادہ گھاس نہیں ڈالتے۔ وزیر خارجہ کی حیثیت میں شاہ محمود قریشی نے جب اپنا عہدہ چھوڑا تھا تو زرداری صاحب اس پہ کافی سیخ پا ہوئے تھے؛ تاہم پھر بڑے آرام سے وہ حنا ربانی کھر جیسی ایک نوجوان اور ہوشیار خاتون کووزیر خارجہ کے طور پر سامنے لے آئے۔ چونتیس برس کی یہ خاتون ہاتھوں میں ڈیزائنر ہینڈ بیگ پکڑے، اونچی ایڑی کی ہیل پہنے اور آنکھوں پر گہرے رنگ کا چشمہ سجائے واضح طور پر یہ پیغام دیتی معلوم ہوتی تھیں کہ وزارت خارجہ کی تصویر میں کچھ رنگِ وجودِ زن بھی جھلکنا چاہئے! جب وہ نئی دہلی کے دورے پر گئیں تو بھارت بھر میں ان کی دھوم مچ گئی۔ بھارتیوں کی دلچسپی کی وجوہ کافی تھیں، ایک تو وہ وزیر خارجہ تھیں، پھر ایک ذہین اور خوش بیان خاتون تھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ تھیں۔ ان کی تازگی اور ان کا پُرکشش ہونا سونے پہ سہاگہ تھا! ہم کوئی صنفی تعصب نہیں برت رہے لیکن ذرا سوچیے کہ کیا طارق فاطمی اور سرتاج عزیز صاحبان اپنے بیرونی دوروں میں اس قسم کی دلچسپی اور توجہ کے محرک بن سکتے ہیں؟ کئی تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ وزرائے خارجہ حالات و واقعات کے تسلسل پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ ایسے عزم و ہمت یا شخصیاتی کرشمے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو پاکستانی خارجہ پالیسی کی الجھنوں اور سلوٹوں کو ہموار کردے۔ 
نوے کے عشرے میں جب ہم خارجہ امورکے حوالے سے مراسلہ نگاری کرتے تھے تو ہر ہفتے دوسرے اخباری نمائندوں کے ہمراہ دفتر خارجہ کے فرسٹ فلور پر کاغذ قلم ہاتھ میں تھامے ترجمان دفتر خارجہ کی بریفنگ کا انتظار کرتے تھے۔ کبھی کبھی انہیں ڈائس تک آنے میں تاخیر بھی ہو جاتی لیکن تاخیر کا سبب وہ کبھی نہیں بتاتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ موصوف ابھی ابھی آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کی یاترا سے واپس پہنچے ہیں۔ مطلب یہ کہ سلامتی سے متعلق نازک امور سے نمٹنا دفتر خارجہ کے سفید پوش دانشوروں کے حد اختیار سے باہر تھا ۔ اب یہ کام باقاعدہ طور پر ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہے۔ کیا امور خارجہ میں فوجی مداخلت ہی کی بدولت میاں صاحب کسی کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر مناسب نہیں سمجھتے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ذاتی امور کے بہانے بار بار سعودی حکمرانوں کی جانب دوڑتے ہیں۔ 
اگر تو میاں صاحب کو سلامتی امور سے متعلق جی ایچ کیو میں ایک بریفنگ دے دی گئی تو امریکیوں کو پاکستانی مفادات کے حوالے سے قائل کرنا ان کے لئے نہایت دشوار ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاتھ باندھ دیے جائیں۔ امریکہ والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ایک انگریزی روزنامے نے واشنگٹن سے ایک سفارت کار سے فون پر بات کی ہے، اور اسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے وزیر اعظم صاحب کو دورے کی دعوت اس لئے دی گئی ہے کہ ''میاں صاحب کی حکومت کو سہارا دیا جا سکے کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز حکومت اپنی بھارت پالیسی کے حوالے سے مسلسل فوجی دباؤکی شکار ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں