دل عشق میں بے پایاں!

مارٹن نیمولر کی ایک مشہور نظم ہے جس میں ذکر ہے کہ کیسے ''وہ‘‘ پہلے دوسروں کے تعاقب میںآتے رہے اور ہم نے خاموشی اختیار کئے رکھی، نتیجہ یہ ہوا کہ جب ''وہ‘‘ ہمارے تعاقب میں آن پہنچے تو ہمارے لئے کوئی بولنے والا بچا ہی نہیں تھا۔ یہ نظم ہم آج باچا خان یونیورسٹی کے شہدا کے نام کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص ایسا تھا کہ جو اگر زندہ ہوتا توکبھی خاموش نہ رہتا۔آج گو وہ ہم میں موجود نہیں لیکن اپنی شاعری میں وہ اب بھی زندہ ہیں۔ باچا خان کے بیٹے غنی خان ایک انسان دوست شاعر، مصور، مجسمہ سازاور ادیب تھے۔ ان کی شاعری پختون معاشرے میں رائج ملائیت، تنگ نظری، تشدد، جاگیردارانہ نظام اور عمومی سیاست سے ان کی بغاوت کی بھرپورعکاسی کرتی ہے۔انہوں نے شاعری پشتو میں کی تھی لیکن اسے انگریزی کے قالب میں سابق بیوروکریٹ امتیاز صاحبزادہ صاحب نے ڈھالا ہے اور The Pilgrim of Beautyکے نام سے شاندانہ ہمایوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔اسلام آباد میں ایک صبح ہماری صاحبزادہ صاحب سے ملاقات ہوئی۔وہ صبح بڑی حسین تھی کیونکہ کہر چھٹنے کے بعد شہر کا حسن واضح اور نکھرا نظر آرہا تھا۔ صاحبزادہ صاحب نے ہمیں غنی خان کی محبت کی داستان سنائی۔ آغاز انہوں نے شملہ سے کیا جہاں بقول امتیاز صاحبزادہ غنی خان نے ایک نہایت خوبصورت لڑکی گھڑسواری کرتے دیکھی اور فی الفور اس کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔وہ ایک معزز پارسی خاندان کی لڑکی تھی۔غنی خان نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس لڑکی کا دل جیت کر رہیں گے۔ ایسا انہوں نے کر کے دکھایا اور دونوں نے پھر شادی کر لی۔عمر کا اثر ان پریم پنچھیوں کی محبت پر بھی شاید پڑا تبھی تو غنی خان اپنی نظم '' تمہیں کچھ یاد ہے؟‘‘ میں پوچھتے ہیں کہ 
مہرباں آنکھوں والی...پریوں جیسی ...اے میری شہزادی!...تمہیں کیا وہ زمانہ ...یا پھر اس کی کوئی ساعت... یاد بھی ہے؟...یا وہ سب کچھ...طاقِ نسیاں پہ دھر دیا ہے؟...جب حسن تھا، شباب تھا...بہار تھی اور پیار تھا...اور ہم تم...شدتِ جذب سے... سرشار تھے!
غنی خان کے لئے روشن ایک نہایت پیار کرنے والی بیوی ثابت ہوئی تھیں‘ لیکن1987ء میں وہ انہیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ روشن کی موت نے انہیں بہت ہی غمگین اور اکیلا کر دیا تھا۔ امتیاز صاحبزادہ ایک سی ایس پی آفیسر رہے ہیں اورکابینہ سیکرٹری کے عہدے تک وہ پہنچے تھے۔ دوسری طرف غنی خان نشے اور افیون کے عادی تھے۔ ان دونوں کے درمیان اس دیرینہ دوستی کی داستان کافی منفرد ہے۔ صاحبزادہ صاحب بتاتے ہیں کہ غنی خان کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات اپنی کم سنی کے زمانے میں ہوئی تھی۔ وہ بھورے رنگ کی کھدر کی شلوار قمیص میں ملبوس تھے اور صاحبزادہ صاحب کے ایک پڑوسی کے گھر مہمان کے طور پر آئے تھے۔ ان کی شاندار شخصیت نے صاحبزادہ صاحب کو مسحور کر دیا تھا۔ اس کے بعد غنی خان سے ان کی اگلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ چارسدہ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ سرخپوشوں کے لیڈر غفار خان حکومت کے لئے ناپسندیدہ افراد میں شامل تھے‘ لیکن اس کے باوجود صاحبزادہ صاحب نتائج سے بے پروا ہو کر ان کے بیٹے سے باقاعدہ ملنے کے لئے گئے۔ غنی خان کی بیگم روشن نے بھی ان کا کافی خوشدلی سے استقبال کیا تھا۔ غنی خان اور امتیاز صاحبزادہ کے درمیان یہ پہلی ملاقات ایک طویل مخلصانہ رفاقت کی بنیاد بن گئی۔ صاحبزادہ صاحب کہتے ہیں کہ غنی خان عمر میں ان سے بیس برس بڑے تھے‘ اس کے باوجود وہ ان کا کافی احترام کرتے تھے اور انہوں نے کبھی بھی صاحبزادہ صاحب کی موجودگی میں افیون یا شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ افیون کا استعمال انہوں نے گردے کے آپریشن کے بعد ناقابلِ برداشت درد سے نمٹنے کے لئے شروع کیا تھا اور بعد میں جب انہیں جوڑوں کی تکلیف شروع ہوئی تو اس سے نمٹنے کے لئے انہوں نے الکوحل کا سہارا لے لیا۔ غنی خان اور روشن ایک دوسرے سے بہت محبت کیا کرتے تھے لیکن کسی بھی دوسرے جوڑے کی مانند ان کا رشتہ بھی کئی ایک نشیب و فراز سے گزرتا رہا، خاص طور پر اس وقت جب غنی خان نشے میں چُور ہوا کرتے تھے؛ تاہم تکلیف کی ہر حالت میں راحت پانے کے لئے غنی خان روشن کو ہی پکارا کرتے۔
اس دنیا ...اور اس میں مضمر...تمام درد و رنج و آلام سے...میں تھک چکا ہوں... مجھے اس زمانے... کی نگاہِ ستم سے ...بہت دُور ...اپنی پناہوں میں...تم چھپا لو
فریدون‘ غنی خان اور روشن کا اکلوتا بیٹا تھا لیکن قدرت نے وہ بھی ان سے چھین لیا۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کا غم اگرچہ انہیں بہت تھا لیکن اپنی بہو نگین کی موجودگی انہیں دلگیر نہیں ہونے دیتے تھی۔
میں ناتواں ...عمر رسیدہ سہی...پہ خوش نصیب ہوں...کہ میرے اشکوں بھرے گھروندے ...میں اب بھی مسکان...یوں ...پنپ رہی ہے...کہ جیسے... اک دہکتے دوزخ میں...کوئی حور دمک رہی ہو...یا ...ظلمتوں کے سمندروں میں...نور کی...کرنیں جھلک رہی ہوں!
روایت شکنی غنی خان کی رگ رگ میں تھی۔ وہ زندگی اپنی مرضی سے جینا چاہتے تھے اور ان کی مرضی کی زندگی ان کے والد اور باقی دونوں بھائیوں یعنی ولی خان اور علی خان کی زندگیوں سے کافی مختلف تھی۔ ان کی آزاد روی کی بدولت اپنے والد کے ساتھ کبھی بھی نہیں بن پائی تھی۔ ان کے والد یعنی باچا خان نہایت نظم و ضبط کے قائل اور بہت ہی اصول پسند انسان تھے۔ ان کے اصولوں کی پاسداری غنی خان جیسی آزاد فطرت رکھنے والے شخص کے لئے ممکن نہیں تھی۔ باچا خان چاہتے تھے کہ جس تحریک کی ابتدا انہوں نے کی ہے‘ تو ان کے بیٹے کی حیثیت میں غنی خان بھی اس سے وابستہ رہیں‘ لیکن غنی خان کی ایسی کوئی خواہش نہیں تھی۔ باچا خان نے غنی خان سے صاف یہ کہہ دیا تھا کہ ان کا کاغذوں پہ یوں رنگ بکھیرنا یا پھر مٹی کو سانچوں میں ڈھالنا ہندوستان کو آزادی نہیں دلوا سکے گا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ غنی خان اصولوں اور قوانین کی حدود و قیود سے بے پروا ہو کر صرف اپنی پسند اور اپنی سوچ کے مطابق زندگی گزار رہے تھے۔ اپنے والد سے وراثت میں انہیں جو زمینیں ملی تھیں ان کی بھی انہیں کوئی پروا نہیں تھی۔ ان کا یہ غیر ذمہ وارانہ رویہ ان کے والد کے لئے نہایت تکلیف دہ تھا۔ باچا خان نے ان کے اسی غیر ذمہ دارانہ رویّے سے نالاں ہو کر ان سے ایک بار پوچھا بھی تھا کہ آخر وہ اپنے باقی دونوں بھائیوں کی طرح ہوشیار اور ذمہ دار کیوں نہیں ہو جاتے؟ جواباً غنی خان نے باچا خان کو کہا کہ بابا! غلطی تو آپ کی ہے، آپ نے خود میرا نام غنی رکھا ہے! یعنی بے پروا، بے نیاز! امتیاز صاحبزادہ بتاتے ہیں کہ غنی خان کو اپنے والد سے یہ شکوہ تھا کہ انہوں نے پختونوں کو منظم تو بے شک کر دیا تھا لیکن زمیندار اور کاشتکار، تاجر اور کاریگر، آجر اور اجیر کے درمیان سماجی فرق ختم کرنے کے لئے وہ انہیں سماجی طور پر متحرک نہیں کر پائے۔ صاحبزادہ صاحب کہتے ہیں کہ غنی خان سمجھتے تھے کہ باچا خان نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کوئی اقتصادی پروگرام نہیں دیا کیونکہ وہ ریاستی سوشلزم پہ یقین نہیں رکھتے تھے۔ باچا خان سے یہ کہنے کی جرأت کہ انہیں پختونوں کو اختیار دلانے کی کبھی کوئی پروا تھی ہی نہیں‘ صرف ان کا بڑا بیٹا ہی کر سکتا تھا۔ غنی خان ایک بامقصد باغی تھے۔ ان کی شاعری انسان دوستی اور حق کی جستجو سے پُر نظر آتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ اپنے لوگوں کو تعلیم یافتہ اور روشن خیال دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی قوم ایک فکر اور حسِ انصاف کی مالک ہو تاکہ قدرت سے ہم آہنگ ہو کر اپنا مستقبل اپنے لئے خود بنا سکے۔ اوائل عمری میں غنی خان کلکتہ کے قریب ٹیگور کے قائم کردہ شانتی نکیتن کے آرٹ سکول میں بھی زیر تعلیم رہے۔ وہاں وہ مصوری اور مجسمہ سازی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس زمانے میں اندرا گاندھی بھی وہیں پڑھا کرتی تھیں۔ باچا خان کو غنی خان کا وہاں پڑھنا منظور نہیں تھا لہٰذا انہوں نے اپنے بیٹے کو وہاں سے واپس بلوا لیا حالانکہ ان کے دیرینہ دوستوںکا اصرار تھا کہ غنی خان کو وہیں رہنے دیا جائے۔ غنی خان کہتے تھے کہ شانتی نکیتن میں ہی انہوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو دریافت کر کے اس کی عظمت کا ادراک حاصل کیا تھا اور وہیں پہ انہیں ایشیائی فلسفے اور ادب کی یکجائی اور پرفارمنگ آرٹ اور ویژول آرٹ کو سمجھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں پختونوں کو یرغمال بنا کے رکھنے والے ملّائوں کی منافقت پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔
یہ ایک ایسے شخص کی لازوال داستان ہے جو ہر دور میں زندہ رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں