"HRC" (space) message & send to 7575

کپتان کی تقدیر میں کیا لکھا ہے

کپتان کی تقدیر میں کیا لکھا ہے‘ اللہ جانے۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ آدمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ بے لچک آدمی اور بھی زیادہ۔ 
پروفیسر احمد رفیق اختر سے عمران خان کی ملاقات کو چار پانچ برس بیت چکے تھے۔ ایک دن ٹیلی فون پر میں نے ان سے کہا: اس آدمی کو میں آپ کے پاس لے آیا تھا مگر کچھ بن نہ پڑا۔ اسی آسودہ آواز میں جو اضطراب اور ہیجان سے ہمیشہ پاک ہوتی ہے‘ انہوں نے کہا: یہ ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ انس اور الفت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کے دروازے تک لے جائیں۔ 
بہت بعد میں ایک بار‘ استفسار کیا: لوگ آپ کے پاس کس لیے آتے ہیں۔ کہا: نوے فیصد کارِ دنیا کے لیے۔ ایک بھلا سا دیہاتی آدمی پاس بیٹھا تھا۔ بے ساختہ اس نے کہا: میں بھی اسی لیے آتا ہوں۔ اپنے دکھوں کی گٹھڑیاں اٹھائے لوگ‘ درویشوں کے پاس جاتے ہیں۔ بیٹی کو طلاق ہونے والی ہے۔ کاروبار تباہ ہوگیا۔ ملازمت خطرے میں ہے۔ ڈپریشن نے آ لیا ہے۔ اگر واقعی عارف ہو تو وہ انہیں بتاتا ہے کہ خرابی کا سبب کیا ہے۔ اندازِ فکر میں خامی کہاں ہے۔ وہ انہیں دعائیں تعلیم کرتا اور مثبت اندازِ فکر اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ بتاتا ہے کہ زندگی رنج پالنے میں نہیں‘ خیالات کے جنگل اگانے میں نہیں‘ شکرگزاری میں ہوتی ہے۔ عملی اندازِ کار اپنا لینے میں۔ یاد رہے کہ دعا وہ ہوتی ہے جو رحمۃ للعالمینؐ کے ہونٹوں سے ادا ہو کر بابرکت ہو گئی ہو یا قرآن کریم میں رقم ہو۔ کسی جلیل القدر پیغمبر نے جب پروردگار کو پکارا ہو۔ تاریکیوں میں یونسؑ نے صدا دی۔ ''لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین‘‘۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو پاک ہے اور میں ظالموں میں سے ایک ہوں۔
عارف جانتا ہے کہ انسان کیا ہے‘ زندگی کیا ہے‘ کائنات کیا ہے‘ اس کا خالق کون ہے اور اس کے قوانین کیا ہیں۔ پوچھا گیا تو درویش نے کہا ''تصوف شریعت کی نیت ہے‘‘۔ کشف المحجوب میں لکھا ہے: جو تصوف پابندِ شریعت نہیں‘ وہ زندیق تو پیدا کر سکتا ہے‘ صدیق نہیں۔ 
عارف سے کپتان نے دوری اختیار کرلی۔ آغاز تب ہوا جب دہشت گردی کے بارے میں عمران خان نے ایک عجیب مؤقف اختیار کرلیا۔ پشاور میں اس نے طالبان کا دفتر کھولنے کی تجویز پیش کی۔ صدمہ پہنچا اور میں اسے ان کے پاس لے گیا۔ لیڈر کو انہوں نے بتایا کہ ان لوگوں کے خیالات کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ یہ خود فریب‘ اقتدار کی آرزو کے مارے ہوئے‘ وحشی لوگ ہیں۔ بے گناہوں کو قتل کرنے والے۔ جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ وعدہ کیا کہ اس معاملے پر نظرِ ثانی کرے گا۔ یہ اس کی بس کی بات نہیں تھی۔ جیسا کہ کئی بار عرض کیا‘ وہ ایک بے لچک آدمی ہے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ برگزیدہ بھی۔ یہ بات وہ نہیں سمجھتا کہ جن لوگوں کو مقبولیت یا اختیار عطا ہوتا ہے‘ بجائے خود وہ غیر معمولی نہیں ہوتے۔ کسی کی کوئی ذاتی صلاحیت ہے اور نہ کارنامہ۔ جوکچھ ہے اللہ کی عطا ہے۔ اپنے ماں باپ‘ اساتذہ‘ ماحول اور مواقع کا انتخاب آدمی خود نہیں کرتا۔ ہر شخص کو کچھ صلاحیتیں‘ کچھ ہنر عطا کئے جاتے ہیں۔ انہی پہ وہ زندگی کرتا ہے۔ انہی پہ اس کے روزگار اور کامیابیوں کا انحصار ہوتا ہے۔ 
اپنی گاڑی میں نے واپس بھیج دی تھی۔ نواحِ اسلام آباد میں کپتان مجھے گھر چھوڑنے گیا۔ راستہ بھر‘ وہ یہ کہتا رہا:میرے اور تمہارے مؤقف میں کچھ زیادہ فرق نہیں‘ خواہ مخواہ تم ناراض ہو رہے ہو۔ رنج ایسا شدید تھا کہ بیشتر میں خاموش رہا۔ کسی طرح یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کس طرح اس آدمی کو سمجھایا جائے‘ اتنی بے شمار توقعات جس سے وابستہ ہیں۔ ایک موقع پر یہ بھی عرض کیا تھا کہ اپنی پارٹی کے لوگوں سے پوچھ لو یا خلقِ خدا سے۔ جواب یہ تھا: لیڈر کا کام یہ نہیں ہوتا۔ دوسروں کی نہیں‘ وہ اپنی رائے پر چلتا ہے۔ کون سی رائے؟ اگر کوئی شخص ادراک ہی نہ رکھتا ہو۔ اگر یہ شعور ہی نہ ہو کہ پیچیدہ معاملات میں دانا لوگوں سے مشورہ کیا جاتا ہے... اور اس میں کوئی استثنیٰ نہیں۔ کوئی محمد علی جناح ہو‘ ٹیپو سلطان‘ عمربن عبدالعزیزؒ یا فاروق اعظمؓ مشورہ سبھی پہ لازم ہے۔ قرآنِ کریم یہ کہتا ہے ''وامرھم شوریٰ بینھم‘‘ ان کے معاملات‘ باہم مشاورت سے انجام پاتے ہیں۔ اور یہ کہ ''جب تم الجھ جائو تو اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو‘‘ ۔
بیماری میں ایک ہوش مند آدمی بہترین معالج سے رجوع کرتا ہے۔ مکان تعمیر کرنا ہو تو موزوں ترین انجینئر اور آرکیٹکٹ سے۔ قوموں اور ملکوں پہ اثرانداز ہونے والے معاملات میں‘ کوئی لیڈر محض اپنی دانست اور مداحوں پہ انحصار کیسے کر سکتا ہے؟ کامیابی آدمی کو گمراہ کرتی ہے‘زیادہ کامیابی اور بھی زیادہ۔ حد سے زیادہ اعتماد خوش فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ خوشامدیوں کا گروہ اور بھی شدت کے ساتھ‘ جو ہر کامیاب آدمی کے گرد جمع ہو جاتے ہیں...اور عمران خان کی کامیابیاں تو غیرمعمولی ہیں۔ کرکٹ کا عالمی کپ‘ شوکت خانم ہسپتال‘ بریڈفورڈ یونیورسٹی‘ 2005ء کے زلزلے میں دس ہزار عارضی گھر اور ایک ارب درخت اگانے کا کارنامہ۔ 
صلاح الدین ایوبی کے ہم عصر‘ چالیس برس اس کے ساتھ بتانے والا سوانح نگار جن میں شامل ہے‘ اسے جینیئس قرار نہیں دیتے۔ اس کے انکسار‘ طالب علمانہ شعار اور مسلسل مشاورت کی تعریف ضرور کرتے ہیں۔ جنابِ علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا: لوگوں میں گھلنا ملنا تمام دانائی کا نصف ہے۔ یہ بات اس شخص نے کہی تھی‘ جس کی دانش خود اس کے ماحول کو چراغ تھی‘ آج بھی چراغ ہے۔ 
چٹاگانگ سے چترال تک قائداعظم کبھی اپنی کالی کار‘ کبھی ریل گاڑی اور جب ممکن ہوا تو جہاز میں گھومتے پھرتے۔ سیاسی کارکنوں‘ طلبا اور وکیلوں سے سوالات پوچھا کرتے۔ حسرت موہانی سمیت‘ معترضین کی لمبی لمبی تقریریں سنا کرتے۔ لاہور کے نوجوان لیاقت علی خاں سے بگڑے تو دہلی میں تین گھنٹے تک تنقید کا موقع انہیں دیا۔ انسانی عقل کبھی کامل نہیں ہوتی‘ زندگی سیکھتے رہنے سے صیقل اور ثمربار ہوتی ہے۔ 
روحانیت کے بارے میں عمران خان کا ادراک ادھورا اور خیالات نا پختہ ہیں۔ صوفیوں میں اس نے مولانا روم کا حوالہ دیا۔ مثنوی کا مصنف مقبول بہت ہے مگر ان کا شمار کبار صوفیا میں نہیں ہوتا۔ نہ تو کسی مرشد نے ان کی تربیت کی اور نہ انہوں نے کسی کی۔ یہ جنیدِ بغدادؒ‘ امام شاذلیؒ‘ علی بن عثمان ہجویریؒ اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہیں۔ بہت سے دوسرے بھی۔ عظیم صوفیا میں خواجہ مہرِ علی شاہؒ کو آخری کہا جاتا ہے۔ وہ لوگ جن سے زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھا جاتا ہے‘ جن سے رہنمائی طلب کی جاتی ہے۔ جن کے قول و فعل میں کامل ہم آہنگی تھی۔ قرآنِ کریم جن کے بارے میں کہتا ہے ''لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون‘‘ وہ خوف اور غم کا شکار نہیں ہوتے۔ علم کی دنیا میں رورعایت نہیں ہوتی‘ کوئی عارف کسی سوال کرنے والے کو کبھی غلط مشورہ نہیں دے سکتا۔
جہاں تک جتلانے کا تعلق ہے‘ کپتان کو جتلا دیا ہے کہ اس محترم خاتون سے اگر اس نے شادی کی‘ جس کا ذکر ہے تو بہت بڑی غلطی کرے گا۔ پچھتائے گا اور اپنی پچھلی غلطیوں سے کہیں زیادہ۔ خواہ وہ کتنی ہی مکرم و محترم ہوں‘ خاتون خود مغالطے کا شکار ہیں اور کپتان کو بھی انہوں نے مغالطے میں مبتلا کردیا ہے۔ روحانیت کسی کیفیت اور اندازِ فکر کا نہیں‘ اس شعور کا نام ہے‘ جو عمل میں ڈھل جائے اور ڈھلتا چلا جائے‘ حتیٰ کہ شخصیت کے تضادات کا خاتمہ کر دے۔ یہی آدمی استاد کے منصب پر فائز ہوتا اور دوسروں کو راہ دکھاتا ہے۔ فرمایا ''مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘ یہ ولولہ انگیز اور دل کو چھو لینے والی گفتگو کا نام نہیں۔ تصوف پہ شاید ڈھنگ کی ایک کتاب یہ ناچیز بھی لکھ سکے لیکن اگر وہ صوفی ہونے کا دعویٰ کرے تو یہ باطل ہوگا۔ یہ ایک طرزِ زندگی ہے۔ عارف کے الفاظ میں‘ اللہ کو ترجیحِ اوّل مان لینے کا۔
کپتان کی تقدیر میں کیا لکھا ہے‘ اللہ جانے۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ آدمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ بے لچک آدمی اور بھی زیادہ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں