"ISC" (space) message & send to 7575

جنوری کی ’’گرمی‘‘

پاکستان کی سیاسی صورتحال روز بروز تبدیل ہو رہی ہے۔ بلوچستان کی سیاست دیکھ کر سینیٹ انتخابات کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پنجاب حکومت طاہرالقادری کے نشانے پر ہے... جبکہ سندھ حکومت بھی ''آئی جی سندھ کو کیوں نہیں نکالا؟‘‘ کیلئے سرگرم عمل ہے۔ گزشتہ دنوں عبدالمجید دستی کو آئی جی بنانے کیلئے سندھ کابینہ کا استعمال کیا گیا... ایک بار پھر کشمکش بڑھ سکتی ہے اور مستقبل قریب میں سندھ حکومت بھی توہین سپریم کورٹ کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔
علم سیاست کے ماہرِ نجوم شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ ''ملک میں نواز شریف کی حکومت رہے گی یا فوج اور عدلیہ رہے گی... 2018ء نواز شریف اور اس کی باقیات کے خاتمے کا سال ہے‘‘۔ ملکی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو لگتا ہے سارا زور مارچ تک کیلئے لگایا جا رہا ہے... مسلم لیگ ن سینیٹ انتخابات سے نظریں ہی نہیں ہٹا رہی جبکہ جو حال بلوچستان حکومت کا ہوا ہے یہی کچھ مرکز میں بھی ہو سکتا ہے۔ باغی لیگی ارکان اب بھی کئی لوگوں سے رابطے میں ہیں... وہ صرف تیل اور اس کی دھار دیکھ رہے ہیں... ہوا کا رخ تبدیل ہوتے ہی وہ بھی بدل سکتے ہیں۔
''پنجاب حکومت کیلئے ماڈل ٹائون ہی کافی ہے‘‘... یہ وہ سلوگن ہے جسے ڈاکٹر طاہرالقادری احتجاجی تحریک کا نعرہ بنا رہے ہیں۔ نواز شریف کی سعودی عرب سے ڈیل کی خبروں کی وجہ سے احتجاجی تحریک پہلے ایک ہفتے کیلئے مؤخر ہوئی۔ بلوچستان کا سیاسی بحران دوسرا ہفتہ بھی لے گیا۔ اب احتجاجی تحریک 17 جنوری سے شروع ہو گی... جس کا مرکز اور محور پنجاب ہی ہو گا... دیکھنا یہ ہے کہ ''ڈی چوک دھرنے‘‘ کی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کا ''لاہور دھرنا‘‘حکومت گرانے میں کتنا مددگار ثابت ہوتا ہے... یا پھر شہباز شریف اپنی ''دفاعی پالیسی‘‘ کی وجہ سے اس صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ''نیّا‘‘ پار لگا لیں گے۔
بلوچستان کے سیاسی بحران نے تین صوبوں کو بھی چوکنا کر دیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بلوچستان میں جو کچھ ہوا‘ کیا وہ سندھ میں نہیں ہو رہا۔ ثناء اللہ زہری پر کرپشن کے جتنے الزامات لگے ہیں‘ اس سے زیادہ تو سندھ میں پی پی رہنما مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں... ایک ٹی وی اینکر تو اپنے پروگرام میں روزانہ بتاتے تھے کہ کس طرح بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک سربراہ روزانہ دو کروڑ روپے ''نذرانہ‘‘ کس کو جمع کرا رہے ہیں اور پھر کس طرح وہ کینیڈا ''فرار‘‘ ہو گئے... کے ڈی اے کے سربراہ کو باعزت ریٹائرمنٹ بھی نصیب نہ ہوئی... پونے چھ ارب روپے کی کرپشن کا ایک مقدمہ زیر سماعت ہے... لیکن سندھ میں بلوچستان جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی... نہ یہاں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے اپنے وزیر اعلیٰ سے شکوہ کیا اور نہ ہی کرپشن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں ہوئیں۔ زیادہ حیرانی اس بات کی ہے کہ سندھ کی اپوزیشن جماعتیں ایم کیو ایم‘ فنکشنل لیگ‘ تحریک انصاف اور اے این پی بھی ''غلط‘‘ اور ''صحیح‘‘ کی تفریق سمجھانے میں ناکام رہیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی بلوچستان بحران کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کوئٹہ کے بجائے دالبدین چلے گئے... جس سے نواب ثناء اللہ زہری اور باغی لیگی ارکان کو بھی اندازہ ہو گیا کہ معاملہ کیا ہے... اس طرح وزیر اعظم عباسی صاحب اپنی ہی جماعت کے وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ نہ لے سکے اور یہ کام نواز شریف کو کرنا پڑا۔ بلوچستان میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی جو کام کیا وہ قابل تحسین ہے... جمہوری روایات اور آئینی طریقے سے ایک وزیر اعلیٰ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیااور جمہوری انداز میں ہی ایک نیا وزیراعلیٰ منتخب کرلیا گیا... یہی جمہوریت کا حسن ہے اور اگر پاناما کے ہنگامے میں نواز شریف مستعفی ہو جاتے تو یہی حسن نہ صرف نظر آتا بلکہ وہ نااہلی سے بھی بچ جاتے اور کبھی کسی سے یہ نہیں کہتے کہ ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘۔ ہماری روایت رہی ہے کہ جب تک پانی سر سے اوپر نہ چلا جائے اس وقت تک بچائو کی کوئی ترکیب ڈھونڈنا بھی ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
سندھ کی سیاست جنوری کی طرح ٹھنڈی ہے لیکن کراچی کی سیاست جون جیسی گرم ہوتی جا رہی ہے... حال ہی میں آل پاکستان مسلم لیگ نے لیاقت آباد میں ایک جلسہ منعقد کیا‘ جس سے سابق صدر پرویز مشرف نے ویڈیو خطاب کیا... شرکاء کی تعداد ایک بار پھر موضوع بحث رہی لیکن کراچی کے لیاقت آباد فلائی اوور کو یہ اعزاز حاصل ہو گیا ہے کہ اس نے تین جلسوں کی میزبانی کی۔ ماضی میں جلسے میدانوں میں ہوتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آ سکیں لیکن آج کل فلائی اوورز کو ''ہائیڈ پارک‘‘ کا درجہ دے دیا گیا ہے... مستقبل میں کوئی نہ کوئی جماعت کسی نہ کسی فلائی اوور پر جلسہ کرتی نظر آئے گی۔ کراچی کے ''ووٹ بینک‘‘ پر ''بڑے بڑوں‘‘ کی نظریں ہیں‘ لیکن اب تک ہونے والے تینوں جلسے ایک ہی ''ووٹ بینک‘‘ کی تقسیم کے تین الگ الگ مناظر تھے۔ اہالیانِ کراچی ان تین چھوٹے جلسوں کی جگہ ایک بڑا جلسہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ فاروق ستار دعویٰ کرتے ہیں کہ آئندہ وزیر اعلیٰ ہمارا ہو گا لیکن وہ ابھی تک میئر کراچی کی کارکردگی سے کراچی والوں کو مطمئن نہیں کر سکے ہیں۔ اُدھر آصف زرداری نے تو یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ آئندہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ہی ہوں گے۔ پیپلز پارٹی سندھ کی انتخابی سیاست میں جتنی کامیاب نظر آئی ہے‘ پنجاب میں نتائج اس کے بالکل برعکس ہیں... جس کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف اور عمران خان ہیں... تجزیہ کار یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر سندھ میں ایم کیو ایم تھوڑی سی بھی اپوزیشن کر لیتی تو آصف زرداری ایسا اعلان نہ کر پاتے۔ آئندہ الیکشن کے منظرنامے میں شہری علاقوں کے علاوہ کہیں صورتحال تبدیل ہوتی نظر نہیں آ رہی... کراچی‘ حیدرآباد اور اندرون سندھ سے دیہی ووٹ مصطفی کمال کی طرف تو جا سکتے ہیں لیکن ایم کیو ایم کی جانب ان کا آنا ممکن نظر نہیں آتا... ایسی صورتحال میں دونوں جماعتوں کا اتحاد ہی پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ میں بڑا ''جھٹکا‘‘ دے سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے بانی ارکان میں سے ایک اور رابطہ کمیٹی کے سابق رکن سلیم شہزاد نے گزشتہ دنوں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات کر کے کراچی کی سیاست میں کھلبلی مچا دی ہے... کراچی کے سیاسی حلقے حیران ہیں کہ ایک ماہ قبل ہی انہوں نے اپنی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا‘ اور اپنی جماعت کے منشور کے حوالے سے بتایا کہ ہم صرف کراچی کے لیے کھڑے ہوں گے‘ کراچی کی عوام کے مسائل حل کرنا ہماری ذمہ داری ہو گی۔ انہوں نے آئندہ الیکشن میں تمام حلقوں سے اپنے امیدوار سامنے لانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ سلیم شہزاد 25 سال بعد وطن واپس آتے ہی کراچی ایئر پورٹ سے گرفتار کر لئے گئے تھے... واقفانِ حال جانتے ہیں کہ سلیم شہزاد اورنگی ٹائون میں جلسہ کیوںکرنا چاہتے تھے... بعض حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سلیم شہزاد ڈاکٹر عمران فاروق کے ادھورے مشن کو پورا کرنا چاہتے ہیں... ان کی وجۂ شہادت بھی یہی بتائی جاتی ہے... لیکن اس کیلئے شاید سلیم شہزاد اپنی پارٹی بنانے سے زیادہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم کا استعمال کر کے ''بہاری ووٹ بینک‘‘ توڑ سکتے ہیں... یہ بات فاروق ستار اور مصطفی کمال کیلئے ایک ''الرٹ‘‘ ہے اور انہیں ابھی سے یہ سوچنا چاہئے کہ تحریک انصاف کو کراچی میں اس سے زیادہ بھرپور انٹری کہیں اور سے نہیں مل سکتی۔ ماضی میں مصطفی کمال سے عمران خان کی ملاقات بھی اہمیت کی حامل رہی ہے‘ پی ایس پی اور پی ٹی آئی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ایم کیو ایم پاکستان کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں