ذیابیطس یا سیاست؟

ابھی ابھی ڈاکٹر احسن اختر ناز مرحوم کی رسم قل خوانی سے واپس آیا ہوں۔ایک روز قبل جنازے میں رفقائے کار‘ دوستوں‘ شاگردوں اور مداحوں کی کثیر تعداد میں شرکت سے مرحوم کی ہر دلعزیزی کا راز کھلا۔ ایک درویش منش اور بے وسیلہ استاد کی اس درجہ مقبولیت حسن اخلاق کا نتیجہ ہو سکتی ہے‘ حسن عمل ؟یا پھر بیک وقت دونوں کا۔
جب اقتدار و اختیار کے نشے میں چُور بادشاہ وقت نے حضرت امام احمد بن حنبلؒ کو سخت سست کہا‘ مردود قرار دیا اور اپنی برتری کا ڈھنڈورا پیٹا تو مظلوم مگر دلیرفقیہ نے جواب دیا'' آپ کتنے مقبول ہیں اور میں کس قدر مردود؟ یہ فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے ‘‘امام احمد حنبلؒ کا جنازہ اٹھا تو پورا شہر سوگوار‘ ماتم کناں اور شریکِ جنازہ تھا حالانکہ عرصہ دراز سے وہ سپرد زنداں تھے اور انہیں سزا و تعزیر کے ہر مرحلے سے گزارا گیا۔ ناز صاحب ذیابیطس کے مریض تھے اور کھانے پینے میں احتیاط کم کرتے مگر انہیں یونیورسٹی کی سیاست نے بھی مار ڈالا۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں جوڑ توڑ اور دھڑے بندی کا مقابلہ تحریک انصاف بھی شائد نہ کر سکے جو اس حوالے سے بدنام ہے اور عمران خان کو وقتاً فوقتاً مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ شعبہ صحافت و ابلاغیات نے سیاستدان تو صرف دو پیدا کیے؛ سابق وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی اور برادر محترم لیاقت بلوچ مگر جوڑ توڑ‘ سیاست اور سازش کی جس گرم بازاری کا مشاہدہ کئی عشروں سے یہاں کے واقفان حال اور رمز شناس کرتے چلے آ رہے ہیں‘ وہ شعبہ سیاست اور کسی سیاسی جماعت میں بھی باید و شاید۔
قصور اس شعبے اور پنجاب یونیورسٹی کا بھی نہیں‘ پاکستان میں کسی اور کام میں ہو نہ ہو یہاں کے شہر و دیہات میں شہریوں کو سیاست میں دلچسپی بہت ہے۔ہر چائے خانہ‘ چوپال اور چوک‘ ہر مجلس اور ہر اجتماع میں سیاست پر بحث ہوتی ہے حتیٰ کہ تعزیتی اور تفریحی تقریبات میں بھی۔ الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز نے یہ مرض مزید بڑھا دیا ہے۔ سیاست سے اس دلچسپی کا ہمارے جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ اقتدار کے پجاریوں اور ووٹ کے خریداروں میں سے ہر ایک نے ہمیشہ بھر پورفائدہ اٹھایا۔ ان موقع پرستوں نے ان پڑھ اور پڑھے لکھے دونوں طرح کے عوام کو یقین دلایا کہ اُن سے زیادہ باشعور‘ قومی معاملات سے باخبر اور سیاسی اسرار و رموز سے واقف مخلوق اس کُرّہ ارض پر موجود ہی نہیں۔ بس اُسے اچھی قیادت کی ضرورت ہے جو میں فراہم کر سکتا ہوں۔ میری قیادت میں یہ ریاست جنت کا ٹکڑا بن سکتی ہے اور عوام کے سارے دلدّر راتوں رات دور ہو سکتے ہیں۔ یوں خوش فہم عوام اور چالاک حکمران اشرافیہ نے مل کر ملک کی وہ درگت بنائی کہ ع
پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
کہتے ہیں کہ ایک شخص بازار میں کھڑا صدا لگا رہا تھا !گدھا لے لو‘ پانچ سو روپے میں گدھا۔ گدھا انتہائی کمزور اور لاغر تھا۔ اتفاقاً بازار سے بادشاہ کا گزر ہوا۔ اُس نے اپنے وزیر کو صدا لگانے والے شخص کی طرف بھیجا کہ گدھے کی قیمت اور خوبیاں پوچھ کر آئے۔ گدھے کا مالک ہوشیار شخص تھا۔ بادشاہ کو سامنے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں! اُس نے کہا‘ عامیوں کے لیے پانچ سو روپے مگر بادشاہ سلامت کے لیے پانچ ہزار روپے۔ بادشاہ حیران ہوا کہ آخر اس گدھے میں ایسی کون سی خوبی ہے جس کی قیمت میں پانچ ہزار روپے ادا کر وں ! وہ کہنے لگا ‘گدھے کی خاصیّت یہ ہے کہ اس پر بیٹھنے والے کو یہاں سے مکّہ مکّرمہ اور مدینہ منورہ صاف نظر آتا ہے۔
بادشاہ نے کہا‘ ٹھیک اگر مجھے یہاں سے مکّہ مدینہ کی زیارت ہو گئی تو میں پانچ نہیں دس ہزار روپے معاوضہ دوں گا لیکن اگر یہ جھوٹ ہوا تو تمہارا سر قلم کر دوں گا کہ تم دھوکے باز اور جھوٹے ہو‘ ساتھ ہی وزیر سے کہا کہ وہ گدھے پر بیٹھ کر بتائے کہ کیا نظر آتا ہے؟ وزیر گدھے پر سوار ہونے لگا تو گدھے والے نے کہا ‘جناب گدھے پر بیٹھ کر مکّہ‘ مدینہ صرف پاکباز اور باکردار شخص کو نظر آتا ہے‘ کسی فریبی‘گناہگار اور لالچی کو ہرگز نہیں ۔ وزیر بولا‘ فکر نہ کرو میں ہرگز فریبی‘ گناہ گار اور لالچی نہیں۔ ہٹو پیچھے اور مجھے گدھے کی سواری کرنے دو۔ وزیر گدھے پر بیٹھ تو گیا مگر اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ سوچنے لگا کہ اگر میں نے کہہ دیا کہ مجھے نظر نہیں آ رہا تو بدنامی بہت ہو گی ‘گدھے والا کہے گا کہ یہ فریبی‘ گناہ گار شخص ہے ‘مبادا بادشاہ کی رائے بھی میرے بارے میں تبدیل ہو جائے۔ چنانچہ بولا‘ واہ واہ سبحان اللہ۔ کیا دلفریب اور ایمان افروز نظارہ ہے۔
بادشاہ کا تجسّس بڑھ گیا ۔ بادشاہ کی موجودگی کا سن کر لوگ کافی تعداد میں اکٹھے ہو چکے تھے چنانچہ وزیر کو اتار کر بادشاہ گدھے پر سوار ہونے کو بے تاب ہو گیا۔ گدھے والے کاتیر نشانے پر لگ چکا تھا۔ اُس نے وزیر کو تو آہستگی سے کہا تھا مگر بادشاہ سے بآواز بلند مخاطب ہوا ! عالیجاہ گدھے پر بیٹھ کر مکّہ مدینہ صرف نیک‘ خدا ترس اور عوام دوست شخص کو ہی نظر آتا ہے ‘کسی ظالم اور عیّاش کو نہیں‘دھیان سے سواری فرمائیے۔ بادشاہ کو بھی گدھے پر بیٹھ کرصرف اپنا وزیر نظر آیا یا اردگرد کھڑی رعایا اور مکاّر مالک‘ مگر وہ یہ بات کہہ کر عوام کے سامنے نکّو بننا نہیں چاہتا تھا چنانچہ وہ بھی مرحبا پکار اُٹھا‘ آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور بولا کیا بات ہے۔ جاہل وزیر تجھے صرف مکّہ‘ مدینہ نظر آیا مجھے تو عرش معلّیٰ بھی دکھائی دے رہا ہے۔
یہی حال ہمارا ہے‘ صرف اپنے آپ کو ''باشعور عوام‘‘ ثابت کرنے اور اپنا سیاسی‘ سماجی‘ معاشی‘ اقتصادی اور مذہبی استحصال کرنے والے لیڈروں کی بات کی لاج رکھنے کی خاطر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں تاکہ باشعور عوام کا ٹائیٹل چھن نہ جائے۔ ان کی ہاں میں ہاںجنہوں نے کم و بیش پچھلے چالیس پچاس سال سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے‘ جن کے لیے پاکستان محض ایک چراگاہ ہے یا پھر حکمرانی کے لیے موزوں ریاست‘ ان ڈرامہ بازوں کی باتیں سن کر یوں لگتا ہے کہ یہی قوم کے حقیقی ہمدرد اور خیر خواہ ہیں ‘ان کا بس چلے تو یہ پاکستان کو صفِ اوّل کی اقتصادی‘ معاشی‘ دفاعی اور رفاہی ریاست بنا کر دم لیں مگر جب ان کے عرصہ اقتدار اور کارگزاری کا جائزہ لینے بیٹھیں تو آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ دو دو ‘ تین تین بار رکن پارلیمنٹ‘ وزیر‘ وزیر اعلیٰ‘ گورنر‘ وزیر اعظم بننے والوں کو پورے ملک تو کیا بڑے بڑے شہروں میں بھی اشرف المخلوقات ووٹروں کو پینے کا صاف پانی‘ دو وقت کی روکھی سوکھی‘ بجلی‘ گیس‘ چھت‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار کی سہولتیں فراہم کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ غریب کاذہین و خوبرو بچہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا ہے یا کسی وڈیرے کے ڈیرے پر چلّم بھرتا اور چوری ڈکیتی‘ رہزنی کا فن سیکھتا ہے جبکہ اُمرا کے کودن بچے محض دولت کے زور پر اندرون و بیرون ملک عیش کرتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے تعلیمی اداروں سے فیضیاب جوہر قابل دنیا بھر میں خدمات انجام دیتے تھے اور پاکستان کو شاباش ملتی۔امریکہ کے شکاگو میں واقع سیر(SEAR) ٹاور کی ڈیزائننگ ایک پاکستانی نژاد ماہر تعمیرات فضل الرحمن خان نے کی جو مشرقی پاکستان کی ایک یونیورسٹی سے پڑھ کر پچاس کے عشرے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گیا اور منفرد مقام پایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کراچی اور ڈاکٹر عبدالسلام لاہور کے تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں۔ فضل الرحمن کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے وطن واپسی کی دعوت دی مگر انہوں نے اپنی پاکستانی شناخت کھونے سے انکار کر دیا اوراپنے لواحقین کو وصیت کی کہ ان کی میّت بھی بنگلہ دیش نہ جانے پائے مگر پاکستان نے کبھی زندگی میں ان کی خبر لی نہ 1982ء میں وفات کے بعد کبھی یاد کیا۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں مگن وڈیروں‘ جرنیلوں‘ مولویوں‘ اساتذہ اور بیورو کریٹس کو کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے جوہر قابل کو وطن واپس لا کر ان کی صلاحیتوں سے پاک سرزمین کو مستفید کر سکیں۔جہاں بے حسّی اور سنگدلی کا یہ عالم ہو وہاںبے چارے احسن اختر ناز سے بستر علالت پر کون پوچھتا کہ میاں! شوگر کے مرض نے تمہیں بے حال کر رکھا ہے یاسبب کچھ اور ہے؟۔ بہرحال ڈاکٹراحسن اختر ناز اپنی عاجزی‘ ملنساری‘ خوش خلقی ‘بذلہ سنجی اور نیک نفسی کے ساتھ اپنے اللہ کے حضور پیش ہو گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔اپنے اپنے نامہ ٔاعمال کے ساتھ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں