"IMC" (space) message & send to 7575

خطرناک کھیل

مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت صرف ڈیڑھ دو ماہ کا کھیل ہے۔مزید فرماتے ہیں اگر تحریک انصاف کی صوبے میں اس عرصہ سے زائد حکومت رہی تو شاید خیبر پختون خوا پاکستان کا حصہ ہی نہ رہے۔ انہوں نے کہا : طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں حکومت کو جو بھی تعاون درکار ہوگا‘ فراہم کریں گے۔مولانا کا یہ بیان ان خطرناک عزائم کی نشان دہی کرتاہے جو وہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو گرانے کے لیے رکھتے ہیں۔ایسا لگتاہے کہ وہ تخت یا تختہ والے موڈ میں داخل ہوگئے ہیں۔اکرم خان درانی کو نون لیگ کی حکومت میں وفاقی وزیر بنوانے کے بعد مولانا تحریک انصاف کے ساتھ دودو ہاتھ کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ نوا زشریف مولانا کو گلے لگانے میں تردد کا مظاہرہ کرتے رہے۔نون لیگ کے اندرونی حلقے میں یہ بحث رہی ہے کہ مولانا‘ پرویز مشرف کے قریبی اتحاد ی اورآزاد عدلیہ کی بحالی کے مخالف رہے ‘ مشرف کے مارشل لاء اور غیر قانونی اقدامات کوسترھویں ترمیم کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اب انہیں وفاقی حکومت کا حصہ بنانے کے بعد رائے عامہ کا کیسے سامنے کیا جاسکے گا؟ جیسا کہ ہمیشہ سیاسی چوپالوں میںہوتا آیا ہے‘ موقع پرستی کی سیاست غالب آئی اور اصولی موقف قربان ہوگئے۔سیاسی مفاد کے پرچارک زمینی حقائق کے نام پر جیت گئے۔ آئیڈیا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کی جارحانہ سیاست کا توڑ کرنے کے لیے انہیں مولانافضل الرحمن کے ساتھ ٹکرا دیا جائے۔وہ یہ خدمت فی سبیل اللہ ادا کرنے کے لیے بضد ہیں۔نون لیگ کی پشت پناہی مل جائے تو مزا دوآتشہ ہوجائے ۔ مولانا کی ’زنبیل ‘ میں فتویٰ کا ہتھیار بھی ہے ۔وہ بوقت ضرورت اپنے مخالفین کو یہودی ایجنٹ یا قادیانی قراردیتے رہتے ہیں۔نون لیگ خوش ہے کہ اس نے پشتون کو پشتون سے ٹکراکر تحریک انصاف کی پنجاب میں پیش قدمی کا سدباب کردیا ۔کراچی میں ایم کیوایم کو سہارا دیا جارہاہے تاکہ وہاں متبادل سیاسی قوت کے طور پرپی ٹی آئی کا ظہور روکا جاسکے۔دوسری جانب سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی ناکامیوں اور داخلی تضادات کو نمایاں کرکے اسے عوام کی نظر میں گرایا جارہاہے۔ تحریک انصاف کو ایک بے مقصد جنگ میںالجھایا جارہاہے تاکہ اس میں نون لیگ کے ساتھ محاذآرائی کی سکت باقی نہ رہے ۔عمران خان نے جس طرح ان کی سیاست کو بے نقاب کیا اس کی حالیہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیںملتی۔مولانا ہر حکومت کا حصہ رہے۔مفادات سمیٹے۔ ساتھیوں اور بھائیوں کے لیے اچھی وزارتیں اور اعلیٰ سرکاری مناصب کے لیے سودے بازی کی۔مشکل کی ہر گھڑی میں حکومت کی مدد کرتے۔ پیپلزپارٹی کے اتحادی تھے۔صدر آصف علی زرداری کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔اس کے باوجود ’رج‘ کر اپوزیشن بھی کرتے رہے۔ صنم اور خدا دونوں کو خوش رکھنے میں مولانا کو یدطولیٰ حاصل ہے۔ عمران خان نے جوش جذبات میں اورکچھ خیبر پختون خوا کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مولانا کے ساتھ زیادتی کی۔دونوں نے ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالا۔ مبصرین کی رائے تھی کہ انتخابات کے بعد سب کچھ رفت گزشت ہوجائے گا لیکن تلخی مزید بڑھ گئی۔اب خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔مولانا اور ان کے حامیوں پر کوئی عتاب نازل نہیں ہوا۔پرویز خٹک ایک صلح جوشخصیت ہیں وہ انتقام کی لہر میں بہنے والے نہیں۔لیکن جس طرف حالات جارہے ہیں وہ اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین تصادم یقینی ہے۔تحریک انصاف کی قیادت نوجوانوں اور زیادہ تر ناتجربہ کارافراد پر مشتمل ہے جو سیاست کی حرکیات کا گہرا فہم نہیں رکھتی ۔مولانا فضل الرحمن، نون لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی انہیں پشاور کی قومی اسمبلی کی نشست پر مشترکہ کوششوں سے شکست دے چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سہ جماعتی اتحاد بنا کر اگلے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو رگڑا لگایا جاسکتاہے۔اظہار تشکر کے لیے حاجی غلام احمد بلور مولانا کی رہائش گاہ پر حاضر ہوئے۔ مولانا طالبان سے بھی زیادہ خوش نہیں ۔ان کا خیال تھا کہ وہ انتخابات میں جمعیت کی مدد کریں گے لیکن انہوں نے ایسی سیاسی فضا پیدا کردی جس میں لوگ مولانا کے بجائے عمران خان کی طرف مائل ہوگئے۔عمران خان کی جانب سے ڈرون حملوں اور قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کی مخالفت نے انہیں خیبر پختون خوا کے عام ووٹروں میں مقبولیت عطا کی ۔اب مولانا طالبان کے ساتھ مذاکرات یا فیصلہ کن فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہیں۔ قوم کو نوید دیتے ہیں کہ حکومت اور فوج طالبان کے حوالے سے متفقہ حکمت عملی بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔بین السطورطالبان کو بتارہے ہیں کہ اب اپنی خیر بنائو۔ حکمران تحریک انصاف کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ پشتون ووٹرز جلد تبدیلی چاہتاہے۔حالیہ برسوں میں مالاکنڈ ڈویژن اور قبائلی علاقوں سے ہونے والی نقل مکانی نے شہریوں کے سماجی رویئے تبدیل کیے ہیں۔ لاکھوں پشتون نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے لیے آبائی علاقوں سے نکلنا پڑا۔وہ دنیا کی نئی حقیقتوں سے متعارف ہوئے۔سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے انقلاب نے بھی انہیں قدامت پرست مذہبی پیشوائوں کی جکڑبندیوں سے بڑی حد تک آزاد کیا ہے۔ وہ دیکھ چکے ہیں کہ اکرم خان درانی کی سربراہی میں قائم متحدہ مجلس عمل کی حکومت خیبر پختون خوا میں کوئی جوہر ی تبدیلی لانے میں ناکام رہی تھی۔ بے پناہ وسائل اور افراد ی قوت کے باوجود صوبے کواچھی حکومت فراہم نہ مل سکی۔متحدہ مجلس عمل کی کارکردگی ناقابل رشک تھی جس کے باعث لوگوں نے عوامی نیشنل پارٹی اور پھر تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔صوبے پر ہیجان کی سی کیفیت طاری رہی۔ تحریک انصاف کو مولانا فضل الرحمن کے پھیلائے گئے جال میں پھنسنے کے بجائے لوگوں کی خدمت اور شفاف حکومت کی فراہمی کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔کے پی کے میں پائے جانے والے سیاسی اور سماجی رجحانات پر دستیاب سروے بتاتے ہیں کہ صوبے کے نوجوان تعلیم،روزگار اور وسائل تک رسائی کو اپنی اولین ترجیح قراردیتے ہیں۔ شیری رحمن کے ادارے جناح انسٹی ٹیوٹ نے چند دن قبل ’پاکستانی نوجوان اور سیاست ‘ کے عنوان سے نوجوانوں کے رجحانات پر ایک فکر انگیز رپورٹ شائع کی‘ جس میں کہا گیا کہ نوجوانوں کی اکثریت سیاسی قیادت پر اعتماد نہیں کرتی۔ وہ سیاستدانوں اور سیاسی اداروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔یاد رہے کہ برٹش کونسل نے انتخابات سے پہلے نوجوانوں کے رجحانات پر ایک سروے کیا تھا جس میں محض تیس فیصد افراد نے جمہوری نظام اور اداروں پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔اس کے باوجود گزشتہ عام انتخابات میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالا۔اگر تحریک انصاف ان نوجوانوں کی امیدوں پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہوتی اور نون لیگ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے تو خدشہ ہے کہ پوری ایک نسل سیاسی نظام سے بیزار ہوکر غیر جمہوری قوتوں کے ہتھے چڑھ جائے گی۔ یہ طرزسیاست ملکی تعمیر وترقی کے طویل المیعاد منصوبوں کو سبوتاژ کردے گا اور ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں