"KMK" (space) message & send to 7575

تم کھڑے تھے

مریم نواز شریف نے‘ یعنی مریم صفدر نے کہا ہے کہ ہم میاں نواز شریف کو سابقہ مصری صدر محمد مرسی نہیں بننے دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ انہیں یہ بیان دینے سے پہلے میاں محمد نواز شریف سے تصدیق کر لینی چاہیے تھی کہ کیا وہ محمد مرسی بننے کے لئے تیار بھی ہیں؟ محمد مرسی اب صرف مرحوم محمد مرسی نہیں‘ وہ اب استقامت کا استعارہ ہیں۔ ایسی استقامت ‘عام حکمران نہیں دکھاتے‘ ایسی جرأت رندانہ‘ بہادری‘ دلیری اور ثابت قدمی نظریاتی لوگ دکھایا کرتے ہیں۔ نظریے سے مراد خدانخواستہ وہ نظریہ نہیں جو شاہ جی‘ میاں نواز شریف کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف کا نظریہ پیسے بنانا تھا۔ نظریے سے مراد کوئی اعلیٰ و ارفع حیات ہے‘ جس کیلئے لوگ قربانی دیتے ہیں۔ جان و مال کی اور آل اولاد تک کی۔ ایسے لوگ نہ پیچھے ہٹتے ہیں‘ نہ معافی مانگتے ہیں ‘نہ کہرام مچاتے ہیں اور نہ ہی رحم کی اپیلیںکرتے ہیں‘ نہ سودے بازی کرتے ہیں اور نہ ہی جھکتے ہیں۔ نہ بیماریوں کی بنیاد پر ضمانتوں پر رہائیاں مانگتے ہیں‘ نہ وہ جیلوں میں ائیر کنڈیشنڈ مانگتے ہیں اور نہ مشقتی طلب کرتے ہیں‘ نہ جیل میں اے اور بی کلاس کے چکر میں پڑتے ہیں اور نہ ڈاکٹروں سے ملک سے باہر علاج کے سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہیں اور دس دس سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے سودے کر کے سو صندوقوں اور مالشیوں سمیت دوسرے ملک میں جا کر محلات میں قیام کرتے ہیں۔ نظریاتی لوگ تو اور ہی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔
حالانکہ نظریاتی لوگ کوئی دوسری دنیا کے لوگ نہیں ہوتے‘ مگر درحقیقت وہ کسی اور ہی دنیا کے لوگ ہوتے ہیں۔ محمد مرسی جیسے‘ سید قطب جیسے‘ حسن البناء جیسے‘ مہدی عاکف جیسے‘ پروفیسر غلام اعظم جیسے‘ عبدالقادر ملا جیسے‘ مطیع الرحمان نظامی جیسے‘ محمد قمر الزمان جیسے اور میر قاسم علی جیسے؛ یہ سب لوگ وہ ہیں‘ جو اپنی جان بچانے کیلئے اپنی جھولی پھیلا سکتے تھے‘ رحم کی اپیلیں کر سکتے تھے‘ اپنے نظریات کو تیاگ دینے کے عوض جان بخشی کروا سکتے تھے اور جان بچانے کیلئے جلاوطنی قبول کر سکتے تھے‘ مگر کسی نے ایسا نہ کیا۔ محمد مرسی کے آئیڈیل کون تھے؟حسن البنائ‘ سید قطب اور مہدی عاکف۔ حسن البنا کو مذاکرات کیلئے بلا کر بارہ فروری 1949ء میں گولی مار کر شہید کر دیا۔ فوج نے اپنی نگرانی میں ان کی لاش ان کے گھر پہنچائی۔ حکم تھا کہ لاش دو گھنٹے میں دفن کر دی جائے۔ غمزدہ بوڑھے باپ نے میت کو خود غسل دیا کہ اور کوئی شخص اس کام کیلئے میسر ہی نہ تھا۔ شہید کے والد‘ پھوپھی‘ بہن اور چھوٹے بیٹے نے جنازہ قریبی قبرستان تک پہنچایا۔ باپ نے اپنے شہید بیٹے کی میت کو اپنی بہن اور بیٹی کی مدد سے قبر میں اتارا۔ اس کے بعد خواتین گھر چلی گئیں اور باپ نے اپنے کم سن پوتے کے ساتھ قبر پر مٹی ڈالی اور یوں اس شہید کی تدفین مکمل ہوئی۔
29 اگست 1966ء کو سید قطب کو قاہرہ جیل میں پھانسی کی سزا ہوئی اور اخوان المسلمون کے ساتویں مرشد عام محمد مہدی عاکف کا جیل میں نواسی برس میں کینسر سے انتقال ہوا تو اس کے جنازے کے ساتھ بھی یہی ہوا اور محمد عاکف مہدی کے پہلو میں مدفون محمد مرسی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ محمد مرسی کا جنازہ جیل کی مسجد میں پڑھایا گیا۔ شرکا کون تھے؟بیٹے‘دو بھائی محمد مرسی کا وکیل عبدالمنعم۔ تدفین میں صرف محمد مرسی کا صاحبزادہ اسامہ تھا۔ گھر کی خواتین کو محمد مرسی کے آخری دیدار تک سے محروم رکھا گیا۔ چھ سالہ قید کے دوران گھر والوں سے صرف چار یا پانچ بار ملاقات کی اجازت ملی۔ اہلیہ نے مجازی خدا کی وفات کے بعد بھی حکومت سے آخری دیدار کیلئے کوئی اپیل نہ کی کہ ان کے ثابت قدم شوہر بعداز وفات شرمندہ نہ ہوں۔ قید کے دوران محمد مرسی کی شوگر بارہا حد سے زیادہ نیچے گر گئی اور وہ متعدد بار بے ہوش تک ہوئے‘ مگر نہ انہوں نے طبی بنیادوں پر کوئی رعایت طلب کی اور نہ ہی ان کے ورثا نے حکومت وقت سے کوئی رحم طلب کیا۔ نہ اس مردِمومن نے جیل میں بہتر کلاس کا مطالبہ کیا اور نہ ہی عدالت میں سائونڈ پروف پنجرے میں حاضری پر احتجاج کیا۔ نہ اس کے گھر والوں نے اس کی بیماری کا چرچا کیا اور نہ ہی ڈاکٹروں کی رپورٹیں عدالت میں پیش کیں۔ کسی کو مرسی بنایا نہیں جاتا‘ مرسی بنے بنائے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ کسی کو مرسی بنا سکے؟ مرسی صرف جیل میں جانے والے حکمرانوں کا نام نہیں‘ بلکہ قید و بند میں ثابت قدم رہنے کا‘ تکلیف میں صبر کرنے کا اور جبر کے سامنے سر نہ جھکانے کا نام ہے۔ اب محمد مرسی ایک استعارہ ہے۔کچھ عرصہ گزرا طارق حبیب نے ایک نظم محمد قاسم علی کے لئے لکھی تھی۔ یہ نظم لکھی تو میر قاسم علی کیلئے تھی‘ لیکن یہ اکیلے میر قاسم علی کیلئے نہیںتھی ‘ہر اس بہادر اور ثابت قدم شخص کیلئے تھی‘ جو اپنے نظریات پر کھڑا رہا اور جان کو نظریے پر قربان کر دیا۔ ان کی نظم '' تم کھڑے تھے‘‘آج محمد مرسی کے نام:
لہو میں بھیگے تمام موسم/گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے/وفا کے رستے کا ہر مسافر/گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے/سحر کا سورج گواہی دے گا/کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے/نکلنے والے یہ سوچتے تھے/کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے تو تم کھڑے تھے/تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں جلے چراغوں کی روشنی نے/نئی منازل ہمیں دکھائیں/تمہارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے ولولوں کو نمود بخشی/تمہارے بھائی‘ تمہارے بیٹے‘ تمہاری بہنیں‘ تمہاری مائیں/تمہاری مٹی کا ذرہ ذرہ گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے/ہماری دھرتی کے جسم سے جب ہوس کے مارے سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے/تو تم کھڑے تھے/تمہاری ہمت‘ تمہاری عظمت اور استقامت تو وہ ہمالیہ ہے/جس کی چوٹی تک پہنچنا/نہ پہلے بس میں رہا کسی کے‘ نہ آنے والے دنوں میں ہوگا/سو ‘آنے والی تمام نسلیں گواہی دیں گی/کہ تم کھڑے تھے...!/لہو میں بھیگے تمام موسم/گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے/وفا کے رستے کا ہر مسافر/گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے!
محمد مرسی کو جیل میں کوئی سہولت حاصل نہیں تھی ‘جو قاہرہ جیل میں قید عام لوگوں کو حاصل تھیں‘ جبکہ ادھر پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کو ہر وہ سہولت حاصل ہے‘ جس کا پاکستان کی جیل میں قید عام شخص تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہاں صرف یہ ہے کہ وہ قید میں ہیں۔ میری دعا ہے کہ خداوند کریم میاں نواز شریف کو صحت اور تندرستی عطا کرے اور انہیں محمد مرسی جیسا صاحب استقامت نہ ہونے کے باوجود محمد مرسی جیسی آزمائش میں نہ ڈالے‘ لیکن؛ اگر وہ محمد مرسی جیسی استقامت کا عشر عشیر بھی رکھتے تو وہ دسمبر 2000ء میں اپنی پارٹی کے کسی بھی رہنما کو اعتماد میں لیے بغیر جنرل پرویز مشرف سے جان بخشی کی ڈیل کر کے دس سال کے لئے سعودی عرب نہ چلے جاتے اور وہاں جا کر بھی چار دن بھی نفع کمائے بغیر نہ رہ سکے اور وہاں جا کر سٹیل مل لگا لی۔ یہاں کارکن حیران ہکے بکے تھے اور لیڈر وہاں کاروبار کر رہے تھے‘ اسی عرصے میں میرے ملتان والے جاوید ہاشمی ‘ایوان میں مسلم لیگ ن کی قیادت بھی کر رہے تھے اور قیدوبند بھی بھگت رہے تھے۔ ایک بار میں نے جاوید ہاشمی صاحب سے پوچھا کہ میاں صاحب نے جانے سے پہلے اعتماد میں لیا تھا یا کوئی اشارہ کیا تھا کہ ان کی پرویز مشرف سے ڈیل کی کوئی بات چیت چل رہی ہے تو جاوید ہاشمی نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش ہو گئے۔ ان کی اس خاموشی میں سارے جواب چھپے ہوئے تھے۔ 
مریم صفدر کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان مصر نہیں ‘لیکن وہ یہ بھی یہ بات جان لیں کہ میاں محمد نواز شریف بھی محمد مرسی نہیں ہیں‘ بلکہ محمد مرسی کے پاسنگ برابر بھی نہیں ہیں‘بلکہ کہاں محمد مرسی اور کہاں میاں نواز شریف۔ موازنے کے ایک ڈھال موجود ہے‘ مگر فی الحال اسے رہنے ہی دیں تو اچھا ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں