"MABC" (space) message & send to 7575

ممبئی حملے:جواب حاضر ہے !

انگریزی اخبار کو اپنے انٹرویو میںنواز شریف نے پاکستان کی سالمیت پریہ کہہ کر پھر حملہ کیا ہے کہ ممبئی حملوں کے پیچھے پاکستان میں متحرک کالعدم تنظیموں کا ہاتھ تھا۔نواز شریف صاحب اب ذرا سچ سننے کی ہمت بھی رکھئے جو اپنی تحقیقی رپورٹ کی صورت میںممبئی حملوں کے بارے میں آپ کے انگریزی اخبار کو دیئے جانیوالے انٹر ویو کے مقابلے میں سامنے لا رہا ہوں(یہ میری اس کتاب کا حصہ ہے جو ممبئی حملوں پر دس برس قبل لکھے گئے میرے مضامین اور تحقیق پر مشتمل ہو گی جو ماہ رمضان کے بعد ''اجمل قصاب اور 26/11 کے نام سے مارکیٹ میں آ رہی ہے) نواز شریف کو کو یاد ہو گا کہ 26/11/2008 کے ممبئی حملوں کی اجمل قصاب کے خلاف ممبئی کرائمز برانچ کی تیار کر دہ فرد جرم 11,280صفحات پر مشتمل تھی جسے25-2-2009 کو ممبئی کرائمز برانچ نے عدالت میں پیش کی تھا۔26/11 پر بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیوں اور ماہر وکلاء کے پینل نے جو چارج شیٹ عدالت میں پیش کی تھی اس کا پوسٹ مارٹم کچھ اس طرح کیا ہے امید ہے کہ نواز شریف اینڈ گروپ اسے پڑھنے کی کوشش کرے گا۔ 
1:۔ جج مدن تہلیانی نے 1522 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلہ میں اجمل قصاب کی شیوا جی ٹر مینس پر26/11 کی تصویر بنانے والے ممبئی مرر کے فوٹو گرافر ڈی سوزا کی بے انتہا تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈی سوزا کی بنائی ہوئی اس تصویر کی مدد سے بھارت کو مجرم تک پہنچنے میں آسانی ہوئی۔۔ ممبئی مرر کے فوٹو گرافر ڈی سوزا کی اجمل قصاب کی اتاری گئی یہ تصویر ہی اگر استغاثہ کی جان ہے تو سب سے پہلے موقعہ واردات پر اس تصویر کے اصلی یا نقلی ہونے کی بات کر لی جائے کیونکہ اجمل قصاب کی یہی وہ تصویر ہے جو26/11 کی رات اور اگلے دن دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائی رہی۔ A) ( ۔شیوا جی اسٹیشن پر تعینات فوڈ سٹاف مینیجر ششی کمار سنگھ نے اپنی گواہی پر مبنی پولیس کو چشم دید بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح حملہ آور جب شیوا جی اسٹیشن پہنچے تو وہ زور زور سے چلا رہے تھے لیکن ان کی کوئی بات سمجھ میں اس لئے نہیں آ رہی تھی کہ انہوں نے اپنے چہروں پر سیاہ رنگ کے نقاب چڑھائے ہوئے تھے ۔۔۔(B)۔ ٹائمز آف انڈیا پونا نے اپنی 29 نومبر کی اشاعت میں صفحہ5 پر اجمل قصاب کی ایک تصویر شائع کی تھی جو بالکل سامنے تیس سے چالیس فٹ سے اتاری ہوئی تھی اس تصویر کو پورے بھارت کے اخبارات نےkill کر دیا ۔۔شائد اس لئے کہ اس تصویر کو دیکھنے کے بعد لوگ سوچنے لگے تھے کہ دہشت گردوں نے اتنے قریب سے تصویر اتارنے والے کو زندہ کیسے جانے دیا؟۔ اب اگرممبئی مرر کے ڈی سوزا کی تصویر بارے استغاثہ کی کہانی کو سچ مان لیا جائے تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ مراٹھی اخبار مہاراشٹر ٹائمز نے ممبئی حملہ کے اگلی صبح27 نومبر کی اشاعت میں لکھا تھا کہ یہ تصویر ہمارے فوٹو گرافر سری رام ورنیکا نے اتاری ہے لیکن یہی تصویر 27 نومبر کو ہی دوسرے مراٹھی اخبار لکمت ممبئی جو مہارشٹر ٹائمز کا حریف اخبار ہے اس میں کیسے شائع ہو گئی؟۔ ((C عدالت اور ممبئی کرائمز برانچ کی ڈی سوزا کی کھینچی ہوئی تصویر کو ہی مکمل گواہی مانتے ہوئے اجمل قصاب کو سزا موت دی جاتی ہے لیکن جج مدن تہلیانی کی عدالت یا بھارتی حکومت دنیا بھر کی رائے عامہ کو کیسے مطمئن کرے گی ؟ ''Tujha ithe kay ahey?:2 مراٹھی کے یہ الفاظ جس کا مطلب ہے''تم یہاں کام کرتے ہو‘‘ نہیں میں یہاں اپنی بیمار بیوی کے لئے آیا ہوں ‘‘ یہ ہے ٹھیٹھ مراٹھی زبان کی وہ گفتگو جو دو حملہ آوروں اور L CAMA HOSPITA کے جنریٹر آپریٹر چندر کانت تیکھے کے درمیان ہوئی۔ چندر کانت نے یہ بیان پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ دو حملہ آوروں نے مجھ سے مراٹھی زبان میںیہ سوالات کئے۔ چندر کانت کے اس بیان کی تصدیق ممبئی حملہ کی بریفنگ کے لئے مقرر حکومتی ترجمان بھارت کی سول سروس کے سینئر افسر بھوشن گجرانی نے 28/11 کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے بھی کی تھی اور اس گفتگو کا ریکارڈ دنیا بھر کے میڈیا کے پاس موجود ہے ۔ کرائمز برانچ کی جانب سے عدالت میں پیش گئی فرد جرم کے مطابقCAMA HOSPITAL میں موجود انہی دو حملہ آوروں اجمل قصاب او ر ابو اسماعیل نے ہی ایڈیشنل کمشنر پولیس اشوک کامتے اور انسداد دہشت گردی فورس کے چیف ہیمنت کر کرے کو قتل کیا تھا۔۔۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجمل قصاب کو مراٹھی زبان پر عبور کیسے تھا؟۔ ممبئی کرائمز برانچ کی طرف سے اجمل قصاب کے اعترافی بیان پر مبنی استغاثہ جسے مشہور امریکی ہفت روزہ ٹائمز نے اپنے10 مارچ 2009کے شمارے میں''ON THE TRAIL OF TERROR''کے عنوان سے شائع کیا تھا کہیں بھی اجمل قصاب کے مراٹھی زبان سیکھنے کا ذکر تک نہیں ہے۔پھر اس کا جواب کون دے گا کہ کرکرے اور اشوک کے علا وہ شیواجی اسٹیشن پر56 افراد کو قتل کرنے والے مراٹھی زبان پر عبور رکھنے والے یہ دو مبینہ حملہ آور کون تھے؟۔ 3:۔26/11 کے بمبئی حملے سے8دن پہلے 18/11کو امریکی سی آئی اے نے بھارتی حکومت اور را کو خبردار کیا تھا کہ ایک نامعلوم کشتی میں سوار کچھ لوگ بھارتی سمندری حدود میں دیکھے جارہے ہیں امریکی سی آئی اے کی طرف سے یہ اطلاع ملتے ہی بھارتی راء نے فوری طور پراگلے ہی دن19/11 کو بھارت کی انٹیلی جنس بیورو کو اس کی اطلاع کر دی اور آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر پربھاکر الوک نے بھارتی سمندری حدود میں موجود اس کشتی کی تمام تفصیلات 20نومبر کو پرنسپل ڈائریکٹر نیول انٹیلی جنس کے ذریعے بھارتی بحریہ اور کوسٹ گارڈ کو بھجوا دی لیکن حیران کن طور پر بمبئی پولیس اور مہاراشٹر کی صوبائی حکومت کو اس سے مکمل بے خبر رکھا گیا۔پرنسپل ڈائریکٹر نیول انٹیلی جنس نے بمبئی کی سمندری حدود کی نگران بھارتی بحریہ کی ویسٹرن کمانڈ کو بھی یہ اہم ترین اطلاع نہ دی اور اجمل قصاب کے مقدمہ میں ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے کی اس اہم ترین اور انتہائی خطرناک رپورٹ کو بھارتی بحریہ کے علاوہ ممبئی پولیس اور مہاراشٹر حکومت سے کیوں چھپایا گیا؟۔کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ اس طرح مشکوک کشتی کی یہ خفیہ اطلاع ممبئی دہشت گردی فورس کے چیف ہیمنت کرکرے تک بھی پہنچ جاتی ۔ 4۔ بھارت کی انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے بمبئی کی طرف بڑھتی نامعلوم مشکوک کشتی کی اطلاع ملنے پر21نومبر کو بھارتی کوسٹ گارڈنے سمندری حدود کی چھان بین کی لیکن انہیں کہیں بھی امریکی سی آئی اے کی اطلاع پر مبنی مشکوک کشتی کی جھلک تک نظر نہ آئی۔ بھارتی کوسٹ گارڈ نے جائنٹ ڈائریکٹر آئی بی پربھاکر الوک کو لکھا کہ ہمیں کوئی کشتی نظر نہیں آئی اس سلسلے میں ہمیں مزید معلومات مہیا کی جائیں تاکہ ہم اس تک پہنچ سکیں لیکن آئی بی نے کوسٹ گارڈ کے اس خط کو ہی گول کر دیا۔5۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ21نومبر کو راء نے کیبنٹ سیکرٹریٹ کی وساطت سے بھارتی آئی بی کو ایک انتہائی خفیہ نوٹ بھیجا جس میں35مشکوک موبائل سم کارڈز کی ایک فہرست منسلک کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان موبائل نمبرز کو مسلسل مانیٹر کیا جائے لیکن بھارت کی انٹیلی جنس بیورو نے راء اور کیبنٹ سیکرٹریٹ کی اس انتہائی خفیہ رپورٹ کو مکمل نظر انداز کر دیا ۔۔جبکہ آئی بی عام مخبروں کی اطلاع پر بھی ہزاروں موبائل اور فون مانیٹر کرنے میں بدنام ہے 6۔ آئی بی جو ممبئی میں ہونے والے معمولی واقعات کی بھی رپورٹنگ کرتی ہے اسے 26/11 تک یہ کیوں معلوم نہ ہو سکا کہ ممبئی پولیس کی طرف سے پچھلے چالیس دنوں سے ممبئی ساحل کے ساتھ ساتھ پٹرولنگ کرنے والی پولیس کو واپس بلا لیاگیا ہے اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آئی بی کو علم تھا تو پھر ایک اور اہم ترین سوال کہ امریکی سی آئی اے کی اس اطلاع کے بعد مزید نفری کے ساتھ چوبیس گھنٹے الرٹ ساحلی پٹرولنگ دوبارہ شروع کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ کیا اقوام متحدہ ، یورپی یونین اورOIC معلوم کریں گے کہ مشکوک کشتی کی نگرانی کرنے کیلئے ممبئی کی ساحلی نگرانی کرنیوالی پولیس فورس کی واپسی کا حکم کس نے کب اور کیوں دیا؟۔ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں