The Party is Over?

ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اب پھر ہونے جا رہا ہے۔ قرآئن و آثار بتا رہے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم نوازشریف کیلئے ''پارٹی اِز اوور‘‘ کی آواز لگ چکی ہے۔ سکرپٹ میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو جولائی اور اگست میں آخری رسومات ہوں گی۔
آج سے پورے 40 سال پہلے 1977ء کے موسم گرما میں یہی مہینے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کا سیاسی میچ زوروں پر تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو سمجھتے تھے کہ ان کے خلاف تحریک کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے۔ اس وقت کی آئی بی نے انہیں اطلاع دی کہ ایک امریکی سفارتکار نے ٹیلی فون پر حکومت کے خاتمے کے حوالے سے کوڈ ورڈ میں یہ کہا ہے کہ ''The Party is Over‘‘۔ بھٹو سمجھتے تھے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کے تحفظات ہیں۔ ہنری کیسنجر اور ذوالفقار علی بھٹو کا اس حوالے سے گورنر ہائوس لاہور میں تاریخی مباحثہ ہو چکا تھا۔ اس لئے زیڈ اے بھٹو نے جواباً کہا کہ The Party is not Over۔ مگر پارٹی اوور ہوگئی اور 5 جولائی 1977ء کو بھٹو حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ چند سال پہلے واشنگٹن ڈی سی میں اپنے بزرگ دوست ڈاکٹر منظور اعجاز کی وساطت سے بھٹو صاحب کے ناپسندیدہ امریکی سفارتکار ہاورڈشیفر (Howard Shaffer) اور ان کی جنوبی ایشیا ایکسپرٹ بیگم ٹریشا شیفر سے ملاقات ہوئی تو ہاورڈ شیفر نے کئی دہائیاں پہلے کی تاریخ کے ورق الٹتے ہوئے انکشاف کیا کہ '' دراصل یہ ٹیلی فون کال کراچی کے امریکی قونصل جنرل رابرٹ مورنے کی تھی اور کہا تھا کہ ''The Party is Over‘‘۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ امریکی حکومت قومی اتحاد کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تحفظات تھے مگر ہنری کیسنجر اور جارج بش (سینئر) دونوں بھٹو کے مداح تھے‘‘ ہاورڈ شیفر نے عمران خان سے اپنی ایک ملاقات کی کہانی بھی سنائی اور کہا کہ ''عمران اڑھائی گھنٹے تک ہمہ تن گوش ہو کر ان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پاپولزم کی کہانی سنتے رہے تھے۔ ہو سکتا ہے اس کہانی سے وہ کچھ سیکھنا چاہتے ہوں‘‘۔
آج سے 21 سال پہلے کے موسم خزاں کا ذکر ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر آنسو بہا رہی تھیں اور پکار پکار کر کہہ رہی تھیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور سازش کوئی اور نہیں ان کے اپنے ہی ''فاروق بھائی‘‘ کر رہے تھے۔ پھر وقت نے یہ بھی دیکھا کہ 5 نومبر 1996ء کو فاروق بھائی نے اپنی بہن بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر ڈالی ۔ ستمبر تا نومبر ہر روز کہا جاتا تھا'' پارٹی اِز اوور‘‘ مگر اس وقت بہت سے جیالے یہ ماننے کو تیار نہ تھے مگر ہونی ہو کر رہی...اب بھی وہی صورتحال ہے متوالے سمجھتے ہیں کہ ان کے لیڈر جس طرح ماضی میں بچ جاتے رہے ہیں اس بار بھی کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر بظاہر اس وقت پاناما سکینڈل سے باعزت سرخ روئی کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔کوئی خفیہ راستہ یا ڈیل ہو تو ہو وگرنہ پارٹی از اوور...
یورپ میں جولائی کا مہینہ شہزادیوں کی پیدائش سے منسوب ہے مگر تضادستان میں جولائی تا اکتوبر سیاسی تبدیلیوں کے لئے مشہور ہے۔ جنرل ایوب خان نے 7 اکتوبر1958ء کو مارشل لاء لگایا جبکہ جنرل ضیاء الحق کا 5 جولائی 1977ء کو نافذ ہوا اور جنرل مشرف کا مارشل لاء ایمرجنسی پلس کے نام سے 12 اکتوبر 1999ء کو لگایا گیا تھا۔ اب بھی جولائی کے بعد سے تبدیلیوں کی ہوا چلے گی دیکھنا یہ ہوگا کہ پارٹی اِز اوور کے بعد کیا کیا ہوگا؟ کیا الیکشن پہلے ہوگا یا احتساب؟ ''پارٹی اِز اوور‘‘ کے بعد ٹرمپ کارڈ عمران خان کے پاس ہوگا‘ کئی سیاسی رہنما کوشش کریں گے کہ پہلے احتساب ہو پھر الیکشن۔ عمران خان کے لئے مگر ضروری ہے کہ وہ ابھی سے واضح مؤقف اپنائیں کہ آئین کے مطابق ہر صورت میں 90 روز کے اندر الیکشن ہونے چاہئیں۔ ایک بھی دن کی تاخیر کو ماننے سے انکار کرنا چاہئے اگر ایک دفعہ اس آئینی
پابندی پر مصلحت سے کام لیا گیا تو پھر نظریہ ضرورت کے تحت انتخابات معلوم نہیں کب تک ملتوی کئے جاتے رہیں گے۔ عمران خان کے پالیسی گروپ کو چاہئے کہ اس حوالے سے فوراً ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرکے انتخابات اور احتساب کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا واضح طور پر اعلان کرے۔
بظاہر متوالے اور حکومت دلائل دے رہے ہیں کہ بیرونی اور اندرونی حالات تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے‘ مجھے بھی خوف ہے اگر تبدیلی آئی تو اس سے نیا بحران پیدا ہوگا اور اس بحران کا حل کسی کو معلوم نہیں ہوگا؟ قومیں اگر ایسی غیر متوقع صورتحال کا شکار ہو جائیں تو انہیں مایوسی اپنا شکار بنا لیتی ہے‘ میری ذاتی خواہش ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ ایسا کوئی بحران پیدا نہ ہو۔ وزیراعظم کی نااہلی کے ذریعے تبدیلی کا یہ طریقہ بحران پیدا کرے گا‘ تبدیلی صرف الیکشن سے ہی آنی چاہئے مگر خواہشیں خبر نہیں ہوتیں۔ مجھے 40 سال پہلے بھی تبدیلی کا یہ انداز پسند نہیں تھا اور اب بھی پسند نہیں۔ مگر دنیا ہماری پسند ناپسند سے تھوڑی چلتی ہے۔
آج سے دو دہائیاں پہلے کا واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا 4 نومبر 1996ء کی سہ پہر گورنر ہائوس لاہور میں جناب آصف زرداری نے ملاقات کے لئے بلایا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما منیر احمد خان اور سینئر صحافی انجم رشید ساتھ تھے۔ گورنر ہائوس کی پہلی منزل کے برآمدے میں الگ لے گئے اور اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا ''Party is Over ‘‘تو کہنے لگے لغاری بلوچ ہے وہ اسمبلی نہیں توڑے گا‘ پہلے وہ تھوڑا ناراض تھا مگر اب نہیں۔ ارشاد حقانی بھی ناراض تھے مگر میں آج جا کر انہیں منا آیا ہوں‘ اب معاملات ٹھیک ہو چکے ہیں۔ میں نے کہا جناب جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ اور عرض کیا کہ سب صحافیوں کو علم ہے کہ کل آپ کی حکومت ختم ہو جائے گی‘ ساتھ ہی میں نے عرض کیا کہ شاید میں پاکستان میں واحد آدمی ہوں گا جو یہ یقین نہ کرتا ہو‘ آپ کرپٹ ہیں وگرنہ ملک بھر میں یہ تاثر ہے کہ آپ کی حکومت بہت کرپٹ ہے۔ زرداری صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا تاثر کچھ نہیں ہوتا۔ سچ تاثر سے کہیں تیز سفر کرتا ہے۔ میں نے پھر عرض کیا کہ سیاست میں کسی کو حقیقت سے غرض نہیں ہوتی‘ تاثر ہی سب کچھ ہوتا ہے‘ خیر ملاقات ختم ہوئی اور صحافیانہ اطلاعات کے عین مطابق اگلے ہی روز محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اور اسمبلیاں ختم کردی گئیں اور زرداری صاحب گورنر ہائوس لاہور سے گرفتار کر لیے گئے۔ بعدازاں کوٹ لکھپت جیل میں جب بھی ان سے ملاقات کرنے جاتا وہ دور سے ہی پنجابی میں آواز لگاتے تیری پرسیشناں (تاثر) سانوں لے گیاں (یعنی تیرے تاثر نے ہمیں مار دیا) یہ کہانی سنانے کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی دیوار پر صاف لکھا نظر آ رہا ہے کہ Party is Over ۔
ایک جمہوریت پسند کی حیثیت سے اور ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر میری خواہش ہے کہ ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی جاری رہے۔ 90 دن کے اندر الیکشن ہوں اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت حکمران بن جائے‘ مگر دوسری طرف احتساب کے ایجنڈے کے ساتھ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے، نئے الیکشن کمیشن کے قیام ، الیکشن اصلاحات اور صدارتی نظام کے نفاذ کی باتیں ہو رہی ہیں‘ اگر واقعی ایسا ہوا تو پاکستان ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے گا۔ آئین کے اندر نگران حکومت کے دور میں آئینی ترامیم اور اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ آنے والے دنوں میں مزید کانٹے بو دے گا۔ 
آخر میں اگر Party is over والی صورتحال کوبین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے‘ صدر ٹرمپ کی پاکستان پالیسی کا مقابلہ کیسے ہو گا ؟ یہ آنے والے دنوں کا سب سے بڑا سوال ہو گا...

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں