Published on:21 January, 2019

سانحہ ساہیوال: حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس، سی ٹی ڈی پر سوالیہ نشان

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سانحہ ساہیوال نے جہاں ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی وہاں دہشت گردی کے خلاف سرگرم سی ٹی ڈی اور پولیس کے کردار کے آگے بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا اور ابھی تک ان سوالات پر نہ حکومت اور نہ ادارے عوام کو مطمئن کر سکے ہیں۔ شادی کی تقریب پر جانے والوں کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ انسداد دہشت گردی کے ذمہ دار وں کے پاس براہ راست فائرنگ کا آپشن موجود ہوتا ہے اور قانون انہیں اس حوالے سے تحفظ دیتا ہے۔ سیاسی اور عوامی سطح پر پریشان کن صورتحال سی ٹی ڈی اور امن و امان کے دیگر اداروں کے بدلتے موقف سے پیدا ہوئی۔ ایسا کیونکر ہوا حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کے ساتھ متاثرہ بچوں کی دیکھ بھال کا ذمہ ریاست کی جانب سے لینے کا اعلان تو کیا ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ایسا لائحہ عمل اور اقدامات کرنے پر یقین رکھتی ہے کہ مستقبل میں ایسے کسی اندوہناک واقعہ کا امکان نہ رہے اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند ہو۔

سانحہ کا سب سے زیادہ نقصان تو یقیناً اس متاثرہ خاندان کو ہوا لیکن اس واقعہ سے پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہونے والی کوششوں، کاوشوں کو نقصان پہنچا اور خصوصاً تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے سربراہ وزیراعظم عمران خان جو ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ معاشرے کے اندر انصاف کی عدم فراہمی معاشروں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنا دیتی ہے، ایک عام تاثر یہ تھا کہ نئی حکومت آنے کے بعد جہاں ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کے اثرات واضح ہوں گے وہاں اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کر کے انہیں اپنے اصل مقاصد تک محدود کر دیا جائے گا لیکن اگر صرف پولیس کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد پولیس اور انتظامیہ پر گرفت مضبوط ہونے کے بجائے یہ حکومتی دسترس سے نکلتے نظر آئے ہیں جس کی وجہ وہی سیاسی اثر و رسوخ اور خصوصاً پنجاب کی حد تک تو یہ تاثر نمایاں ہے کہ انتظامی مشینری اور پولیس اختیارات کا مرکز ایک نہ ہونے کی وجہ سے ادھر اُدھر دیکھ رہی ہیں۔ جو کچھ ہوا رات کے اندھیرے میں نہیں دن دہاڑے ہوا کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں، اہلکاروں کو حفاظتی تحویل میں لینے کا مقصد ان سے تحقیقات کی ابتدا نہیں بلکہ انہیں عوامی غیض و غضب سے بچانا نظر آتا ہے جس طرح وزراء اس اقدام کا جواز تراشتے نظر آتے ہیں، انہیں کم از کم افسوسناک اور زیادہ سے زیادہ شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے کہ کہا گیا کہ وہ خواتین اور بچوں کو ڈھال بنا رہے تھے تو جناب آپ اس ڈھال کو ان کے خلاف استعمال کرتے اور ان کی گرفتاری یقینی بناتے تا کہ دہشت گردی کا کوئی نیٹ ورک پکڑا جاتا ان کے پاس تو گاڑی بھی ایسی نہ تھی کہ وہ دوڑ پاتے۔

حکومت کا فیصلہ نظر آ رہا ہے کہ مقصد عوام میں پیدا شدہ رد عمل کو ٹھنڈا کرنے کیلئے تحقیقاتی عمل اور خصوصاً نوٹس لینے کے رجحان کو عام کرنا ہے اور اصل مقصد ذمہ داروں کو بچانا ہوگا لیکن اگر دیکھا جائے تو وزراء اور پی ٹی آئی کے ذمہ داران کی جانب سے متعلقہ ادارے کے دفاع کا عمل خود حکومت کی بدنامی ہے ۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ حقائق سے پردہ اٹھنے دیں۔ اس کیس کو اگر ٹیسٹ کیس بنا کر اس کی تحقیقات ہوتی ہیں، ذمہ داران کا تعین ہوتا ہے تو یہ خود ملک و قوم اور خود ریاستی اداروں کی ساکھ کیلئے اہم ہوگا ہم اچھی شروعات کے ذریعے ایک ذمہ دار ملک بن سکتے ہیں۔ ورنہ اگر روایتی تحقیقات، روایتی جے آئی ٹی، روایتی رپورٹس اور سفارشات پر انحصار ہوا تو یہ خود ملک کے مستقبل کے حوالے سے اچھا نہیں ہوگا۔ ماضی میں اس حوالے سے برتی جانے والی مجرمانہ غفلت ہی ہے کہ اس طرح کے واقعات کا عمل جاری رہتا ہے ۔ لہٰذا یہ سانحہ نئی حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے جس طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن سے آج تک سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف چھٹکارا نہیں پا سکے تو اس طرح سانحہ قادر آباد سے خود وزیراعظم عمران خان بھی خود کو بری الذمہ نہیں بنا سکیں گے۔

دیکھنا یہ پڑے گا کہ تحقیقات شفاف ہو ں گی اور ذمہ داران کا تعین ہو سکے گا یا نہیں۔ یہ خود ان کی حکومت کیلئے بڑا امتحان ہے جہاں تک اس واقعہ میں انٹیلی جنس اداروں کے کردار کا سوال ہے تو پاکستان کے حساس ادارے ایسے موثر اور فعال ہیں کہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ گاڑی کے اندر خواتین اور بچے بھی ہیں اور اگر دہشت گرد کار ڈرائیور تھا تو گاڑی کے گرد گھیرا ڈالنے، دہشت گرد کو پکڑنا کوئی بڑا کام نہیں تھا۔ لہٰذا یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ یہ کوئی ایسی منظم کارروائی تو نہیں جس کے مقاصد حالات و معاملات سے توجہ ہٹانا ہیں۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں