پاناما کیس کی آج سماعت:کمیشن نہیں چاہتے،سپریم کورٹ ہی فیصلہ کرے قبول کرینگے،عمران خان

پاناما کیس کی آج سماعت:کمیشن نہیں چاہتے،سپریم کورٹ ہی فیصلہ کرے قبول کرینگے،عمران خان

کمیشن صرف اس شرط پر بنایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم مستعفی ہوں، اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے ، یہی بات سپریم کورٹ نے بھی کہی تھی، چیئرمین تحریک انصاف کی میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد (نمائندہ دنیا) سپریم کورٹ آج 9 دسمبر سے پاناما لیکس کیس کی سماعت دوبارہ شروع کرے گی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کی سربراہی چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کریں گے ۔ آج لارجر بینچ کے روبرو فریقین کمیشن کے معاملے پر اپنا اپنا موقف بیان کرٰں گے ۔ اس کے بعد ہی عدالت کمیشن بنانے یا خود ہی اس کیس کی سماعت کرنے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی۔ بنی گالہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم کمیشن بنانا نہیں چاہتے ۔ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہم قبول کریں گے ۔ کمیشن صرف ایک صورت میں بن سکتا ہے ، یہ کہ وزیر اعظم مستعفی ہوں۔ اگر وہ مستعفی نہ ہوئے تو تمام ادارے ان کے کنٹرول میں رہیں گے ۔ پاناما کمیشن سے متعلق پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد ہمارا فیصلہ کمیشن کی تشکیل کے حق میں نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ ہی کرے ۔ یہ بینچ تمام معلومات کا حامل ہے ۔ سماعت یومیہ بنیاد پر کی جائے تاکہ فیصلہ جلد آسکے ۔ کسی ایک شخص نے بھی کمیشن کے حق میں بات نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ جب ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تب بھی پارٹی کی طرف سے مخالفت ہی کی گئی تھی کیونکہ لوگوں کو اداروں پر اعتماد نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہم کیس جیت چکے ہیں۔ وزیر اعظم عوام کو جواب دہ ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ نواز شریف نے جو بھی کہا وہ جھوٹ تھا۔ ان کا وکیل کہتا ہے کہ ان کی تقریر سیاسی تھی۔ نعیم بخاری آج سپریم کورٹ کے سامنے اپنا مکمل موقف رکھیں گے ۔ جو کاغذات ان لوگوں نے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں دیئے انہی دستاویزات سے ہم نے ثابت کیا کہ ان کی جدہ مل تو خسارے میں تھی اور جب پوچھا گیا کہ پیسہ کہاں سے آیا تو انہوں نے کہا کہ تب پرچیوں پر کام چلتا تھا۔ تقریر سیاسی ہونے کا مطلب ہے کہ نواز شریف جھوٹ بول رہے تھے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں 1980 میں 26 لاکھ درہم ملے ۔ اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے آئے ۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ سے جھوٹ کیوں بولا؟ انہوں نے لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر سنائی تھی۔ اس جھوٹ کے پیچھے اربوں کے اثاثے چھپے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد(سپیشل رپورٹر، اپنے رپورٹر سے )سپریم کورٹ آج 9 دسمبر سے دوبارہ پاناما لیکس کیس کی سماعت شروع کر یگی ، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کی سربراہی چیف جسٹس کر یں گے۔ آج لارجر بینچ کے رو برو فریقین کمیشن کے معاملے پر اپنا اپنا موقف بیا ن کر یں گے جس کے بعد عدالت کمیشن کی تشکیل کر نے یا خود ہی سماعت جا ری رکھنے کا فیصلہ کر ے گی ۔ادھر بنی گالہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہم کمیشن نہیں چاہتے ، عدالت کا جو فیصلہ ہوگا وہ قبول کرنا پڑے گا پاناما کمیشن سے متعلق پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد ہمارا فیصلہ کمیشن کی تشکیل کے حق میں نہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کا فیصلہ سپریم کو رٹ کا 5 رکنی بینچ ہی کرے ۔ ان خیالات کااظہار انھوں نے گزشتہ روزبنی گالہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ عمران خان نے کہا کہ یہ بینچ قابل ہے اور انکے پاس ساری معلومات ہیں۔ انھیں روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرنی چاہئے تاکہ فیصلہ جلد سامنے آئے ۔کسی ایک شخص نے بھی کمیشن کے حق میں بات نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام ادارے نواز شریف کے ماتحت ہیں اس لئے کمیشن کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف مستعفی ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں کمیشن تشکیل دینے میں ہمیں اعتراض نہیں۔ عمران خان نے کہا کہ جب ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت بھی پارٹی کی جانب سے اور لوگوں کی جانب سے مخالفت کی گئی تھی کیوں کہ لوگوں کا اداروں پر اعتماد نہیں ہے ۔ کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں ہم کیس جیت چکے ہیں۔ وزیر اعظم عوام کو جواب دہ ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ نواز شریف نے جو بھی کہا وہ جھوٹ تھا۔ ان کا وکیل کہتا ہے کہ ان کی تقریر سیاسی تھی۔ نعیم بخاری آج سپریم کورٹ کے سامنے اپنا مکمل موقف رکھیں گے ۔جو کاغذات ان لوگوں نے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں دیئے انہی دستاویزات سے ہم نے ثابت کیا کہ انکی جدہ مل تو خسارے میں تھی اور جب پوچھا گیا کہ پیسہ کہاں سے آیا تو انھوں نے کہا کہ اس وقت پرچیوں پر کام چلتا تھا۔ تقریر سیاسی ہونے کا مطلب ہے کہ نواز شریف جھوٹ بول رہے تھے ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں 1980میں 26 لاکھ درہم ملے اور انھیں پتا ہی نہیں کہ وہ کہاں سے آئے ؟ سوال یہ ہے کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ سے جھوٹ کیوں بولا؟ انہوں نے لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر سنائی تھی ۔اس جھوٹ کے پیچھے اربوں کے اثاثے چھپے ہوئے ہیں۔ نواز شریف یہ کیس ہار چکے ہیں انکے پاس ثبوت ہی نہیں ہیں۔اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ 5 رکنی بینچ کیس کا فیصلہ کرے ۔بدقسمتی سے عوام کا اعتماد اداروں سے اٹھ چکا ہے ’ سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ ملکی ادارے ناکام ہو چکے ہیں ۔ ن کا کہنا تھا کہ پاناما معاملے پر سپریم کورٹ نواز شریف سے ضرور پوچھے گی، حاکم وقت عوام کو جواب دہ ہے ۔ پتہ چلا حکومت کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں ۔عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ سے جھوٹ کیوں بولا۔ ان کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنا منی ٹریل بھی دے سکیں۔ عمران خان نے طیارہ حادثے کے حوالے سے کہا کہ پی آئی اے کا سیفٹی ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ جنید جمشید کے ساتھ 30سالہ شناسائی تھی۔ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے سلسلے میں میری بڑی مدد کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حادثے کی تحقیقات جلد از جلد ہونی چاہئیں، حادثہ کے ذکر پر عمران خان آبدیدہ ہو گئے ۔ عمران خان

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں