قومی اسمبلی میں گالیاں، بجٹ کتابوں سے حملے : شہباز شریف کی تقریر کے دوران ایوان میدان جنگ، اضافی سکیورٹی طلب، خاتون ایم این اے اور ایک اہلکار زخمی، اجلاس بار بار ملتوی کرنا پڑا

قومی اسمبلی میں گالیاں، بجٹ کتابوں سے حملے : شہباز شریف کی تقریر کے دوران ایوان میدان جنگ، اضافی سکیورٹی طلب، خاتون ایم این اے اور ایک اہلکار زخمی، اجلاس بار بار ملتوی کرنا پڑا

شہباز شریف کی تقریر شروع ہوتے ہی شور شرابا ، فواد ، امین گنڈاپور ، شیریں مزاری سب سے آگے ، ایک کاپی اپوزیشن لیڈر کے ڈائس پر جا گری ، ن لیگی ارکان کی بھی دھمکیاں ، سپیکر بے بس ، لیگی ارکان ملک سہیل ،ناصر بوسال بھی لڑائی میں پیش پیش ،ایم کیو ایم،جے یو آئی ، جماعت اسلامی کے ارکان بیچ بچائو کراتے رہے ،اجلاس ملتوی ہونے کے باوجود گھمسان کا رن ، ایوان کی لائٹیں بند کرنا پڑیں ، پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحادی لاتعلق رہے ،غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے والوں کو ایوان میں داخل نہیں ہونے دینگے ، اسدقیصر ، کرپشن ختم کرنے کے دعویدار بدعنوانی میں ملوث ، اپوزیشن لیڈر

اسلام آباد ( سیاسی رپورٹر ، ایجنسیاں ، مانیٹرنگ ڈیسک ، دنیا نیوز)قومی اسمبلی میں منگل کو بھی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین اور اپوزیشن کے درمیان بدترین بد کلامی ہوئی ، گالیاں دی گئیں اور بجٹ کتابوں سے ایک دوسرے پر حملے کئے گئے ۔شہبازشریف کی تقریر کے دوران ایوان میدان جنگ بنا رہا ، اضافی سکیورٹی طلب کرنا پڑی ، خاتون ایم این اے اور ایک اہلکار زخمی ہو گیا ، ،اجلاس بار بار ملتوی کر نا پڑا۔ بجٹ اجلاس میں ارکان نے ایوان کا تقدس پامال کرتے ہوئے اسے میدان جنگ میں تبدیل کردیا،حکومتی ارکان کی جانب سے پھینکی گئی بجٹ کی کاپیاں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ڈائس کو لگنے سے حالات کشیدہ ہو گئے ۔ جھگڑا حکومتی رکن علی نواز اعوان اور ن لیگ کے افتخار نذیر کے درمیان توتکار سے شروع ہوا جو گالم گلوچ تک جا پہنچا ۔ہنگامہ آرائی کے دوران پیپلز پارٹی اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہے ،پی ٹی آئی کی طرف سے سارا ٹبر چور ہے اور مسلم لیگ(ن)کی جانب سے ڈونکی راجہ کی سرکار نہیں چلے گی کے نعرے لگائے گئے ، دونوں جماعتوں کے ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیوں کے بنڈل اچھالے ، وزرا ارکان کو ہنگامہ آرائی کے لیے اکساتے رہے ،سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تقریر کا آغاز کیا تو وفاقی وزرا سمیت تحریک انصاف کے ارکان نے ایوان میں شور شرابا شروع کیا اور بجٹ کتاب سے ڈیسک بجاتے رہے ۔اسد قیصر نے ایوان کو چلانے کی کوشش کی اور حکومت و اپوزیشن اراکین سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نشستوں پر بیٹھنے اور اپوزیشن لیڈر کی تقریر سننے کا کہا۔حکومتی اراکین کی جانب سے ایوان میں ہنگامہ آرائی کے باعث سپیکر قومی اسمبلی نے متعدد مرتبہ اعلان کیا کہ ایوان کی کارروائی کو جاری رہنے دیا جائے تاہم ناکامی پر انہوں نے ایوان کی کارروائی کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا۔ اجلاس کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں جھڑپ بھی ہوئی۔دوران اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب پی ٹی آئی کے اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان نے مسلم لیگ (ن)کے رکن شیخ روحیل اصغر کو بجٹ کی کتاب دے ماری اور ان کے لیے نا مناسب زبان استعمال کی ۔ کتاب مسلم لیگ(ن)کے رکن افتخار نذیر کو لگی تو انہوں نے واپس علی نواز کو دے ماری،اس کے بعد دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو حکومتی اور مسلم لیگ ن کے ارکان کے درمیان نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا ،حکومتی ارکان سیٹیاں ساتھ لائے تھے ایوان مسلسل سیٹیوں کی آواز سے گونجتا رہا۔ اس دوران عصر کی نماز کاو قفہ کر دیا گیا جس کے بعد دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو دونوں طرف کے ارکان میں جوش و خروش زیادہ تھا ،پی ٹی آئی کے وزراء اپنے اراکین کو ہنگامہ کر نے کے لیے آگے بلاتے رہے ،حکومتی احتجاج میں سینئر وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی ، فواد چودھری ، شیریں مزاری، غلام سرور خان ، عمر ایوب ،علی امین گنڈا پور بھی شریک رہے اور مسلسل بجٹ دستاویزات کے ساتھ ڈیسک بجاتے رہے ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اپوزیشن اراکین کو وارننگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بجٹ پر تنقید حزب اختلاف کا حق ہے لیکن مہذب طریقہ اختیار کیا جائے ، اپنی بات کریں اور حکومتی موقف نہ سنیں یہ مناسب نہیں، اگر اپوزیشن ہماری نہیں سنے گی تو ہم بھی ان کی نہیں سنیں گے ۔اس دوران سپیکر کی طرف سے بھاری تعدا د میں سکیو رٹی کے عملے کو بھی بلوا لیا گیا ،مردو خواتین سکیو رٹی اہلکار اپوزیشن اور حکومت کی نشستوں کے درمیان لائنیں بنا کر کھڑے ہو گئے ،اس دوران ڈاکٹر شیریں مزاری کی سکیو رٹی اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی،سپیکر کی طرف سے ویڈیو بنانے میں مصروف ارکان کے موبائل قبضے میں لینے کے لیے سکیو رٹی اہلکاروں کو ہدایت کی گئی لیکن ارکان نے اپنے موبائل فون نہیں دیئے ،جب ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوا تو شاہ محمود قریشی پہلی نشستوں پر موجود تھے لیکن اس کے فوری بعد وہ ایوان سے نکل گئے ،ہنگامہ آرائی اور سیٹیاں بجانے میں پی ٹی آئی کے رکن فہیم خان سب سے آگے تھے ،ن لیگ کے ارکان سے الجھتے رہے ،اس پوری ہنگامہ آرائی کے دوران بلاول بھٹو اپنے ارکان کے ہمرا ہ اپنی نشستوں پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہے جبکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی خاموش تماشائی بنے رہے ،ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور لیگی رکن ملک سہیل کمڑیال کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی ،حکومتی رکن فہیم خان اور ن لیگ کے ناصر بوسال کے درمیان تلخ کلامی بڑھی تو ناصر بوسال نے فہیم خان کو باہر نکلنے کا اشارہ کرتے ہوئے دو دو ہاتھ کر نے کے لیے للکارالیکن سکیو رٹی اہلکار درمیان میں موجود رہے ، اسی دوران حالات کشیدہ ہو گئے اور وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور نے بجٹ کی کاپی اپوزیشن ڈیسکوں کی طرف اچھال دی جو شہباز شریف کے ڈائس پر جا گری جس کے بعد دونوں طرف سے بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے کو مارنے کا آغاز ہو گیا،سکیو رٹی اہلکار بھی ہنگامہ آرائی کو روکنے میں ناکام ہو گئے ،حالات کشیدہ دیکھ کر سپیکر نے اجلاس آج سہ پہر دوبجے تک ملتوی کر دیا ۔اجلاس ملتوی ہونے کے بعد بھی ہنگامہ آرائی جاری رہی ،ایم کیو ایم،جے یو آئی ف ،جماعت اسلامی اورعلی وزیر دونوں جماعتوں کے ارکان کے درمیان بیچ بچائو کراتے رہے ،اجلاس ملتوی کئے جانے کے باوجود لیگی اور پی ٹی آئی کے ارکان کے درمیان گھمسان کا رن جاری رہا، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو مجبوراً ایوان خالی کروانے کیلئے لائٹیں بند کرنا پڑیں۔اجلاس کے دوران قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے سینیٹ سیکرٹریٹ سے مدد طلب کی جس کے بعد ایوان کی کشیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے اضافی سارجنٹ ایٹ آرمز کی خدمات قومی اسمبلی کے سپرد کردی گئیں۔ لیڈیز سارجنٹ اور مرد سارجنٹ بھی دھکم پیل میں آگئے ۔ ایک لیڈی سارجنٹ کو بجٹ کاپی ماری گئی۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان نے کہا جب آپ گالیاں دینگے تو جواب ملے گا،جب آپ ہاتھاپائی کرینگے تو آپ کو جواب ملے گا،فلور پر ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں ۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ اگر عوام کی جیب خالی ہے تو پھر بجٹ کے تمام اعداد وشمار جعلی ہیں، دن رات ریاست مدینہ کا ذکر کرنے والے اور مثال دینے والے حکمران کاش غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتے ، کاش وہ یتیم اور بیواؤں کی دعائیں لیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔شہباز شریف نے کہا کہ نوازشریف کے دورمیں دوکروڑپاکستانیوں کوغربت کی لکیرسے نکالا گیا تھا، یہ ہیں ہمارے دورکے عظیم کارنامے ، پی ٹی آئی کی حکومت دن رات جھوٹ بول رہی ہے ،تین سالوں میں انہوں نے قوم کے ساتھ چارسوبیسی کی،جناب سپیکر !آپ لبوں میں نہیں اس بات پر کھل کر مسکرائیں۔ ان کے قرضوں کی وجہ سے عوام پرمزید بوجھ ڈالا جائے گا، خدانخواستہ مہنگائی کا سیلاب عوام کوبہا نہ لے جائے ، عمران خان دن رات ان ڈائریکٹ ٹیکسزکے خلاف بھاشن دیا کرتے تھے ، انہوں نے تین سالوں میں ان ڈائریکٹ ٹیکسزلگائے ، مڈل کلاس طبقہ کچلا جارہا ہے ۔بجٹ کے 66 صفحات پرتباہی لکھی ہے ،انہوں نے ابھی نہیں بتایا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ پاس کردیا یا نہیں، حکومت تین سالوں سے سفید جھوٹ بول رہی ہے ، وزیرخزانہ نے کہا کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا، کیا وزیرخزانہ اپنی اس بات پرقائم رہیں گے ،اگرعوام پرکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا ہے توکنفرمیشن دیں، مصدقہ اطلاعات ہیں کہ 383ارب کے اضافی ٹیکس عوام پرلگائے جارہے ہیں،اگریہ بات سچ ہے تووزیرخزانہ کوتسلیم کرنا چاہیے ۔ایل این جی،تیل کی امپورٹ پر17فیصد سیلزٹیکس لگایا جارہا ہے ،ڈیری مصنوعات پر17فیصد جی ایس ٹی لگایا جارہا ہے ، اس ٹیکس سے دہی اورروٹی چھینی جارہی ہے ، چینی پربھی ٹیکس لگا کرمزید مہنگا کیا جارہا ہے ، اگرچینی مزید مہنگی ہوگی توغریب کدھرجائے گا،ٹیکسزکی بھرمارنے غریب کوکچل دیا ہے ،شنید ہے آئی ایم ایف شرائط کوطے کرانے میں عالمی طاقتوں کا رول ہے ،عمران نیازی کوایوان میں آکر ارکان کو اعتماد میں لینا چاہیے ، بدقسمتی ہے ایسے حساس معاملات آتے ہیں تو وزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے ، جب کورونا کے خلاف جدوجہد کی بات ہوتی ہے تووزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے ، جب فلسطین کی بات ہوتی ہے تووزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے جب پچاس لاکھ گھروں کی بات ہوتی ہے تووزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے ، جب چینی،آٹا سکینڈل کی بات ہوتی ہے تووزیراعظم کی سیٹ خالی ہوتی ہے ، یہ ریاست مدینہ کا نام کس منہ سے لیتے ہیں، دن رات ریاست مدینہ کا نام لینے والوں نے مفت ادویات چھین لیں۔یہ اپوزیشن کودیوارسے لگانے کا شوق پورا کرلیں، جب الیکشن ہونگے توعوام ان کودیوارسے لگادیں گے پھران کوجگہ نہیں ملے گی،شہباز شریف نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ تین ماہ میں کرپشن ختم کرنے کے دعویدار بدترین بدعنوانی میں ملوث ہیں ،سرعام عوام کی جیبیں کاٹی جا رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز میری تقریر میں مداخلت کی کوئی مثال نہیں ملتی، تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اپوزیشن لیڈر بات کرے اور مداخلت کی جائے ۔انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کا خمیازہ یہ بھگتیں گے اور تاریخ آپ کو ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ آپ نے ایوان کا تقدس مجروح کروایا ہے ۔شہباز شریف نے کہا کہ سپیکر گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں ،اپوزیشن لیڈر کیلئے بجٹ پر تقریر سمیٹنا مشکل ہوگیا۔ سپیکرقومی اسمبلی نے سار جنٹ کو بار بار ہدایت کی د ونوں سائیڈوں کوپیچھے کریں۔ سپیکر اسمبلی نے کہا سب اپنی حد میں رہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ جو بجٹ عوام کو ریلیف نہ دے سکے وہ بجٹ فریب ہے ، لنگرخانوں سے ملک ترقی نہیں کرتا،نوازشریف نے بجلی بنائی تحریک انصاف نے عوام پر بجلی گرائی، نواز شریف کے 10 سال کا مالیاتی خسارہ ایک طرف جبکہ موجودہ حکومت کا تین سالہ مالیاتی خسارہ اس سے بھی بڑھ چکا ہے کیا اس مالیاتی خسارے کے ساتھ ترقی کا اعلان کیا جارہا ہے ، وزیر خزانہ اپنی اس بات پر قائم رہیں گے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا،اطلاع ہے کہ 383 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں،موجودہ حکومت کی ترجیح صرف یہ ہے کہ اپوزیشن کو کس طرح دیوار سے لگایا جائے ،آئندہ الیکشن میں عوام ان کو دیوار سے لگا دینگے ۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ چند لنگر خانوں اور مہمان خانوں سے ترقی نہیں ہوتی، صاحب ثروت لوگ ضرور لنگر کھولتے ہیں مگر حکومت ایسے افراد کے ساتھ مل کر صنعت کے ذریعے ترقی لاتی ہے ۔ مٹھی بھر افراد ملک کی دولت لوٹ رہے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ حکومت نے بتایا نہیں کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی سے بنایا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والوں نے کینسر اور زندگی بچانے والی ادویات کی مفت فراہمی کو بند کردیا۔ شہبازشریف کی تقریر جاری تھی کہ اجلاس میں ایک حکومتی رکن نے شہباز شریف پر کتاب اچھال دی۔ کتاب اپوزیشن لیڈر کو لگنے کی بجائے ڈائس پر گری ۔سپیکر نے اجلاس دس منٹ کیلئے ملتوی کر دیا تاہم کچھ دیر بعد سپیکر نے اجلاس آج بدھ دوپہر دوبجے تک ملتوی کردیا ۔ادھر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایوان میں پیش آنے والے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے ، انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی جانب سے جس غیر پارلیمانی رویے اورنا زیبا کلمات کا اظہار کیا گیا وہ قابل مذمت اور مایوس کن ہے ۔ سپیکر نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ فلور آف دی ہائوس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائے گی اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے والے ارکان کو ایوان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں