تمام پاکستانیوں کا نادرا ریکارڈ ایف بی آر کے حوالے، نان فائلرز کے بجلی بلوں پر 35 فیصد تک ٹیکس، صدارتی آرڈیننس جاری

تمام پاکستانیوں کا نادرا ریکارڈ ایف بی آر کے حوالے، نان فائلرز کے بجلی بلوں پر 35 فیصد تک ٹیکس، صدارتی آرڈیننس جاری

20سال کے ٹیکس کھاتے کھولنے کافیصلہ، غلط معلومات پر جرمانہ ، قید ،رجسٹریشن نہ کر انے پربجلی ، گیس، موبائل کنکشن منقطع،سیاستدانوں،امراکی معلومات تحقیقاتی اداروں کو دی جائینگی

اسلام آباد (خبر نگار خصو صی ، دنیا نیوز)اثاثوں کی چھان بین کیلئے تمام پاکستانیوں کانادرا ریکارڈ ایف بی آر کے حوالے کیاجائیگا۔نان فائلرزکے بجلی بلوں پر35فیصد تک ٹیکس عائدکرنے کافیصلہ کرلیاگیا،جاری کردہ صدارتی آرڈیننس کے مطابق گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے 20سال کے ٹیکس کھاتے کھولنے کافیصلہ کیاگیاہے ،سیاست دانوں،امراکی معلومات تحقیقاتی اداروں کو فراہم کی جائینگی۔ٹیکس رجسٹریشن نہ کر انے پربجلی ، گیس، موبائل ، سم کنکشن منقطع کردئیے جائینگے ۔ٹیکس کی غلط معلومات پر 5 لاکھ روپے جرمانہ اورایک سال سزا دی جاسکے گی۔تفصیل کے مطابق صدر پاکستان عارف علوی نے ٹیکس لا (تیسرا ترمیمی)آرڈیننس2001 جاری کر دیا جس کے تحت انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز کے گوشوارے داخل نہ کر انے والوں اور جن کے نام ایکٹو ٹیکس پیئرلسٹ میں شامل نہیں ان کے سال2001اور اس کے بعد کے 20سالوں کے ٹیکس کھاتے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ٹیکس گزاروں کی معلومات افشا کرنے پر ٹیکس حکام کو سزائیں اور جرمانوں کی شق198 انکم ٹیکس آرڈیننس سے حذف کر دی گئی ہے ۔ٹیکس حکام یہ معلومات نیب، ایف آئی اے ، سٹیٹ بینک، نیکٹا اور دیگر اداروں کو ان کی درخواست پر فراہم کر سکیں گے ۔سیاست دانوں، بڑے صنعتی گروپس کے مالکان، کارپوریٹ سیکٹر کے بڑے پیئرزکی معلومات بھی ان تحقیقاتی اداروں کو فراہم کی جا سکیں گی ، ان کے خلاف تحقیقات میں اداروں کی مدد کر سکیں گے ۔ ان امرا کے اثاثہ جات،دولت اور اخراجات کاکھوج لگانے کیلئے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈرجسٹریشن اتھارٹی(نادرا)نے ایف بی آر کو تمام پاکستانیوں کے ملکیتی اثاثہ جات کی معلومات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جلد ہی معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے ۔ایف بی آر ان ٹیکس وصولیوں اور سابقہ سالوں کے بقایاجات کی وصولی کیلئے قومی احتساب بیورو(نیب )اور دیگر قومی تحقیقاتی اداروں سے مددحاصل کر سکے گا۔ ٹیکس کی غلط معلومات پر 5 لاکھ روپے جرمانہ اورایک سال سزا دی جاسکے گی۔سیلز ٹیکس رجسٹریشن نہ کر انے والے د کانداروں، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس رجسٹریشن نہ کر انے والے صنعتی یونٹوں کے بجلی ، گیس، موبائل فون، موبائل سم کے کنکشن منقطع کر دئیے جائیں گے ۔ سیکشن235کے تحت وہ انفرادی پروفیشنلز اور کمپنیاں جنہوں نے انکم ٹیکس گوشوارے داخل نہیں کر ائے ان سے واجب الادا ٹیکس کے ساتھ ساتھ ایڈوانس انکم ٹیکس بھی وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ان پروفیشنلز میں اکائونٹنٹس، وکلا ، ڈاکٹرز، ڈینٹسٹس، ہیلتھ پروفیشنلز، ٹیوٹرز، انجینئرز،نقشہ نویس، انفارمیشن ٹیکنالوجی پروفیشنلز،انفارمیشن ٹیکنالوجی کنسلٹنٹس، ٹرینرز اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے پروفیشنلز شامل ہوں گے ۔گھریلو کنکشن پر 10ہزار روپے کے بجلی کے بل پر 5فیصد، 10ہزار سے زائد لیکن20ہزار روپے تک کے بلوں پر10فیصد ، 20ہزار روپے سے زائد اور30ہزار روپے تک بل پر 15فیصد، 30ہزار روپے سے زائد اور 40ہزار روپے تک کے بجلی کے بل پر20فیصد ، 40ہزار روپے سے زائد اور 50ہزار روپے تک کے ماہانہ بل پر25فیصد ، 50ہزار روپے سے زائداور75ہزار روپے تک کے بل پر30فیصد، 75ہزار روپے سے زائد پر35فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے ۔صدارتی آرڈیننس ٹیکس لا (تیسرا ترمیمی)آرڈیننس2021 کی اب120دن کے اندر اندر پارلیمنٹ سے سپلیمنٹری فنانس بل 2021کے طور پر منظوری حاصل کی جائے گی۔ انکم ٹیکس آرڈیننس2001میں جو اہم ترامیم متعارف کر ائی گئی ہیں ان میں انفرادی ٹیکس گزار کی جانب سے 2لاکھ50ہزار روپے سے زائد کی بینک اکائونٹ سے ادائیگی کو انکم ٹیکس گوشوارے میں ظاہر کرنا لازمی قرار دیدیا گیا ہے ۔اگر کوئی کمپنی اپنے بینک اکائونٹ سے 2لاکھ50ہزار روپے یا اس سے زائد کی نقدادائیگی کرے گی تواس پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا تاہم بجلی، گیس اور ٹیلیفون بلوں کی ادائیگی، مال برداری کے کرایہ کی ادائیگی، سفری اخراجات کی ادائیگی، ڈاکخانہ کے اخراجات کی ادائیگی، ٹیکسوں، فیسوں، جرمانہ اور دیگر سرکاری واجبات کی ادائیگی کیلئے ہونے والے اس اکائونٹ سے اخراجات ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے ۔انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 111 میں کالے دھن کا تعین کرنے کیلئے اس کی جامع تعریف کو شامل کر لیا گیا ہے جس کے تحت منی سروس بیورو(ایم سی بیز)، ایکسچینج کمپنیز (ای سیز)، منی ٹرانسفر آپریٹرز جن میں ویسٹرن یونین، منی گرام، ریا فنانس اور بینکنگ چینل کے ذ ریعے ملک میں ٹرانسفر ہونے والے فنڈز ہی سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر شمار ہوں گے ۔ اس سے ہٹ کر موصول ہونے والی غیر ملکی آمدن کو ترسیلات زر میں شمار نہیں کیا جائے گا ۔انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن114کے بعد سیکشن114 بی کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے تحت قابل ٹیکس آمدن رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو انکم ٹیکس کے نظام میں رجسٹر نہ کر انے اور اپنا انکم ٹیکس گوشوارہ داخل نہ کر انے کی صورت میں ان کے موبائل فون اور موبائل فون سم کو معطل کر دیا جائے گا۔ گھر کے بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع کر دئیے جائیں گے ۔ٹیکس نظام میں رجسٹر ہونے اور گوشوارہ داخل کر انے کی صورت میں ان کے موبائل فون،موبائل سم ،گھر کے بجلی اور گیس کے کنکشن بحال کر دئیے جائیں گے ۔انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے سیکشن174بی میں ترمیم کے ذریعے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈرجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) کوٹیکسوں کا دائرہ کار ہر امیر آدمی تک وسیع کرنے کیلئے ان کے نیٹ ورک میں موجود تمام معلومات ایف بی آر کو فراہم کرنے کا پابند کر دیا گیا ہے ۔نادرا ہر فرد کے اثاثہ جات کی بنیاد پر ان کو ٹیکس کے نظام میں رجسٹر کرنے کیلئے ایف بی آر کو سفارشات دے گا۔آمدن، اس کے نام جائیداد ، بقایاجات، اخراجات،بھاری مالیت کی بینکنگ اور نان بینکنگ ٹرانزیکشنز کی معلومات ایف بی آر کوفراہم کی جائیں گی ۔ایف بی آر اور نادرا ایک معاہدے پر دستخط کریں گے جس کے تحت نادرا میں رجسٹر ہر فرد کی معلومات کا تبادلہ کرنے میں نادرا ایف بی آر کو سہولت فراہم کرے گا ۔ نادرا اور ایف بی آر مل کر آمدن چھپانے یا اثاثہ جات کی مالیت کم ظاہر کرنے والوں کی آمدن اور ان کی دولت کا صحیح تخمینہ لگانے کیلئے آپس میں تعاون کریں گے ۔تخمینہ کی بنیاد پر ایف بی آر اس فرد کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ طے شدہ طریقہ کار کے تحت اس ٹیکس کی رقم کو یکمشت یا طے پانے والی اقساط میں حکومت کو ادا کرے ۔اس کے ساتھ ساتھ جرمانہ، ڈیفالٹ سرچارج بھی ادا کرنا ہوگا ۔ اگر کوئی فرد واجب الادا ٹیکس جمع نہیں کر ائے گا تو ٹیکس کی ادائیگی کی مالیت میں اضافہ بھی ہو سکے گا ۔جو فرد اس ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کرے گا تو تو اس پر جرمانہ عائد ہوگا جس کی شرح ہر دن کی تاخیر کی صورت میں واجب الادا ٹیکس کا0.1 فیصد جرمانہ، مزید تاخیر کی صورت میں اس کے بعد 1ہزار روپے فی دن جرمانہ، اگر کسی کی75فیصد تک آمدن تنخواہ سے ہے تو اس پرکم از کم 10ہزار روپے یومیہ جرمانہ اور دیگر ذرائع سے آمدن کی صورت میں 50ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے ۔ ایک مالی سال میں کم از کم 2لاکھ50ہزار روپے تک جرمانہ ہو گا۔گوشوارہ پہلے ماہ داخل کر ایا گیا تو 75فیصدجرمانہ، دو ماہ کے اندر داخل کر ایا گیا تو 50فیصد جرمانہ، تین ماہ کے اندر داخل کر ایا گیا تو 25فیصد جرمانہ معاف ہو جائے گا۔سیلز ٹیکس ایکٹ1990میں متعارف نئی ترامیم کے مطابق سیکشن3میں نئی ترمیم کے تحت آن لائن مارکیٹ پلیس چلانے والی کمپنیوں کیلئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ آن لائن شاپنگ کے تحت صارفین کو مال فروخت کرنے والوں پر ذمہ داری عائد کی جائے ، وہ ان اشیا پر فائلر ٹیکس گزاروں کو فروخت کی صورت میں17فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور نان فائلر خریداروں سے 19فیصد جنرل سیلز ٹیکس وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کر ائیں ۔سیکشن9AAمیں ایک نئی ترمیم متعارف کر ائی گئی ہے جس کے تحت پوش علاقوں میں ایئر کنڈیشنڈ سٹوروں کیلئے لازم قرار دیدیا گیا ہے کہ وہ اپنی فروخت اور فروخت کنندگان کو خریداری کی رسید کے اجرا کیلئے اپنے فروخت کے نظام کو ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم پوائنٹ آف سیل کے ساتھ لنک کرے اور ایف بی آر کی ہدایات پر عمل درآمد کرے جوسٹور مالکان ایسا نہیں کریں گے ان کے خلاف ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکے گی ۔سیکشن14کے بعد ایک نیاسیکشن14Aایکٹ میں شامل کرنے کی تجویز ہے جس کے تحت ایف بی آر کو اختیار دینے کی تجویز ہے کہ جو ایئر کنڈیشنڈ سٹوراپنے آپ کو پوائنٹ آف سیل سکیم کے تحت اپنی فروخت کو آن لائن ایف بی آر کے سسٹم کے ساتھ لنک نہیں کرے گا تو ان کے بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع کر دئیے جائیں گے ۔سیکشن25کے بعد سیکشن25اے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے تحت سیلز ٹیکس کے نظام میں رجسٹر نہ ہونے والوں اور ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ نظا م کے ساتھ اپنی فروخت کا نظام لنک نہ کرنے والوں کو پہلی بار5لاکھ روپے جرمانہ، دوسری بار نوٹس کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں10لاکھ روپے جرمانہ اور تیسرے نوٹس کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں20لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا ۔چوتھے نوٹس کی تعمیل نہ کرنے والوں پر 30لاکھ روپے تک جرمانہ اور چوتھی بار بھی جرمانہ ہونے کے 15دن کے اندر اپنے بزنس کو ایف بی آر کے ساتھ انٹی گریٹ نہ کرنے والوں کی د کانوں کو سر بمہر کر دیا جائے گا ۔پہلے نوٹس کے بعد سیلز ٹیکس نظام میں رجسٹر ہونے پر 5لاکھ روپے کا جرمانہ معاف کر دیا جائے گا ۔سیلز ٹیکس ایکٹ کے 5ویں شیڈول کی سیکشن7میں ایک ترمیم متعارف کر ائی جا رہی ہے جس کے تحت افغانستان سے درآمد کردہ فروٹ کو برانڈ نیم کے تحت فروخت کرنے کی صورت میں17فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی شق سے 31دسمبر2021تک مستثنیٰ قرار دیدیا گیا ہے ۔سیلز ٹیکس ایکٹ کے ٹیبل3میں ترمیم کے تحت ڈسپوز ایبل سرنجوں، پرنٹنگ پیپر، پولی پراپلین، پروپولین کویمیرز، پلاسٹی سائزڈ، ایکسپوزیڈ، ریزن، بائیوسلی اورئینڈاپلین(پی او پی پی) فلم لیمی نیٹڈ کی درآمد کیلئے متعلقہ اداروں اور وزارتوں سے این او سی لینے کی شرط عائد کر دی گئی ہے ۔ایئر کنڈیشنڈسٹوروں اور شاپنگ مالز کو ایف بی آر کے ساتھ پوائنٹ آف سیلز نظام کے تحت انٹی گریٹ کرنے کیلئے متعلقہ آئی ٹی کمپنیوں کو ملک میں پوائنٹ آف سیل کی مشین، کریڈٹ کارڈ،ڈیبٹ کارڈ، ٹرمینلز، الیکٹرانک کیش رجسٹر درآمد کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے ۔ ایئر کنڈیشنڈسٹوروں اور شاپنگ مالز کو ایف بی آر کے ساتھ پوائنٹ آف سیلز نظام کے ساتھ لنک کرنے کی صورت میں فروخت ہونے والی اشیا کی مالیت پر14فیصد کے بجائے 16فیصدجنرل سیلز ٹیکس وصول کرنے اور ان پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں2فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے ۔سکریپ کو پگھلاکر اس سے سریا بنانے والی صنعت اگر سکریپ منگوائے گی تو اس پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے کم کر کے 14فیصد کر دی گئی ہے ۔پاکستان میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی درآمد پر 5فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے ۔ بینکوں سے ایک کاروباری ادارے سے دوسرے کاروباری ادارے کورقوم کی بینکنگ ٹرانسفر پر16.9فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے ۔کسٹمز ڈیوٹی ادا کئے بغیر مال کو کلیئر کر انے کیلئے بینک گارنٹی کے ساتھ ساتھ اب درآمد کنندگان کو کارپوریٹ گارنٹی پر بھی مال کلیئر کر انے کی سہولت دیدی گئی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں