سپریم کورٹ کے پاس آئینی ترمیم کو پر کھنے کا اختیار بہت محدود: جسٹس عمر عطا بندیال

سپریم کورٹ کے پاس آئینی ترمیم کو پر کھنے کا اختیار بہت محدود: جسٹس عمر عطا بندیال

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ نے 25 ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس کی سماعت کر تے ہوئے وفاق اور کے پی حکومت کو وفاق کی اکائیوں سے متعلق جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے ۔

 نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم اس کیس میں لارجر بینچ بنانے کا  سوچ رہے ہیں، بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کی بجائے الگ صوبہ بن سکتا تھا جبکہ فاٹا والوں کا کہنا ہے کہ وہ اب اقلیت ہیں تو اپنی آزادی انجوائے نہیں کر سکتے جبکہ فاٹا فیڈریشن کا حصہ تھا،فاٹا کا انضمام پارلیمنٹ نے کیا ہے جس کے پاس سپریم پاور ہے ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی اکائیوں کی حیثیت بدلی نہیں جا سکتی،آئین بنانے والوں نے وفاقی اکائیوں کو الگ اس لیے رکھا کہ ان کا الگ کلچر اور حیثیت برقرار رہے ۔

جسٹس عمر عطا بندیا ل نے کہا فاٹا اگر فیڈریشن کا حصہ ہے تو پارلیمنٹ ان کے بارے میں ترمیم کا اختیار رکھتی ہے ،سپریم کورٹ کے پاس آئینی ترمیم کو پرکھنے کا اختیار بہت محدود ہے ،جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ فیڈریشن کو کہے نیا صوبہ بنا لو؟درخواست گزار کے وکیل وسیم سجاد نے کہاآئین کے تحت فاٹا کے متعلق فیصلوں سے قبل جرگے کی رائے سننا ضروری ہے ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہااگر پنجاب کی ایڈمنسٹریشن کیلئے اس کے دو حصے کیے جا سکتے ہیں تو فاٹا کا انضمام کیوں نہیں ہو سکتا؟ وسیم سجاد نے کہا وفاقی اکائیوں کا انضمام اور ان کی دو حصوں میں تقسیم الگ باتیں ہیں،فاٹا کے انضمام کے وقت وہاں کے لوگوں سے پوچھا نہیں گیا،پارلیمنٹ میں 400 لوگوں نے بیٹھ کر پچیسویں آئینی ترمیم کر کے ہزاروں لوگوں کا فیصلہ کر لیا،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ 400 لوگ پارلیمنٹ کے نمائندے ہیں جن میں فاٹا سے بھی لوگ تھے ،پاکستان کے آئین کی بنیاد جمہوریت پر ہے ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ پنجاب کے دو صوبے بنانے کی منظوری دے تو کیا وہاں کے لوگوں کی منظوری چاہیے ہوگی؟ درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تو پھر اس میں یہ دیکھنا ہو گا کہ آئین کے کون سے بنیادی نکات ہیں جن میں ترمیم نہیں کی جا سکتی،اگر فاٹا وفاقی اکائی نہیں ہے تو پھر فاٹا کی وفاقی ساخت کیا ہے ؟فاٹا نہ کسی صوبے کا حصہ تھا نہ اس کی صوبائی پارلیمنٹ میں نمائندگی تھی،ایک صوبے کے دو یا زائد انتظامی یونٹ بنانے کا طریقہ کار موجود ہے ،فاٹا کے بھی ایک سے زائد حصے بنانا ممکن تھا،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت کے سامنے اہم قانونی سوالات ہیں اس لیے اس معا ملے میں ہم لارجر بینچ بنانے کا سوچ رہے ہیں،یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ کیس قابل سماعت ہے یا نہیں،یہ کیس آئین سے متعلق ہے ،یہ دیکھنا ہے آئین کے مطابق وفاق کا ڈھانچہ کیا ہے ،ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا آرٹیکل 247 از خود یہ کہتا ہے کہ فاٹا قبائلی علاقہ نہ رہے ۔

جب تبدیلی کی اجازت آئین دیتا ہے تو پھر اس تبدیلی پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاعوام کی رائے لینا تو لازمی ہے آپ وفاق کی تعریف بتائیں، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہا کہ وفاق کی اکائیوں کو جوڑا بھی جاسکتا ہے ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکیا پھر پورا پاکستان ایک یونٹ بن سکتا ہے ،ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہا پورا ملک ایک یونٹ نہیں بن سکتا مگر صوبوں کے مزید حصے ہو سکتے ہیں،عدالت نے مزید سماعت فروری کے مہینے تک ملتوی کردی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں