سیاسی درجہ حرارت نیچے آنے تک پر امن الیکشن نہیں ہوسکتے:وزارت داخلہ اور دفاع سے پوچھیں کہ انتخابات کیلئے کم سے کم وقت کیا ہوگا:سپریم کورٹ

سیاسی  درجہ  حرارت  نیچے  آنے  تک  پر  امن  الیکشن  نہیں  ہوسکتے:وزارت  داخلہ  اور  دفاع  سے  پوچھیں  کہ  انتخابات  کیلئے  کم  سے  کم  وقت  کیا  ہوگا:سپریم  کورٹ

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق کیس میں کہا سیاسی درجہ حرارت نیچے آنے تک پرامن الیکشن نہیں ہو سکتے ،وزارت داخلہ اور دفاع سے پوچھیں کہ انتخابات کیلئے کم سے کم وقت کیا ہوگا،عدالت نے الیکشن کمیشن کو آج مکمل الیکشن پلان پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

 چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی ف نے کیس میں پارٹی بننے کی متفرق درخواست دائر کردی،وکیل عرفان قادر الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہوئے اور کہا میری آج پہلی پیشی ہے ، ایک پروسیجر ہے ، عدالت کو جلدی کیا ہے ؟چیف جسٹس نے کہا اگر دستاویزات نہیں تو آپ اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ دوسرے وکیل کو سپر سیڈ کر رہے ہیں،عرفان قادر نے کہا جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت مجھے بطور وکیل الیکشن کمیشن سننا چاہتی ہے یا نہیں؟ بینچ کہہ دے کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہ کروں تو چلا جائوں گا،چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کی جانب سے کل حامد علی شاہ اور سجیل سواتی آئے تھے ،جس پر عرفان قادر کمرا عدالت سے چلے گئے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ پنجاب اور کے پی کے الیکشن کے بارے میں درخواستیں خارج کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہوں،بینچ کی تشکیل کی حد تک کہا تھا کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے ،4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیاتو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے ، جسٹس جمال خان مندوخیل کی وضاحت کے بعد فل کورٹ بنائی جائے ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا فل کورٹ کیوں؟ وہی 7 ججز بینچ میں بیٹھنے چاہئیں جنہوں نے اصل فیصلہ کیا ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہاکھلی عدالت میں پانچ ججوں نے مقدمہ سنا اور فیصلے دے کر اس پر دستخط کیے ،دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا دستخط شدہ فیصلہ کدھر ہے ابھی تک کسی نے پیش نہیں کیا،مختصر حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں اور اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ جسٹس یحیی آفریدی کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے ؟چیف جسٹس نے کہا جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں تک ہی محدود رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس پر اپنے دلائل دیں گے ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے ، 3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلے کے پیراگراف 14 اور ابتدا کی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا، ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔جسٹس منیب اختر نے کہا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ تین دو کا ہے پانچ ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کیے ،الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن ملتوی کرنے کا آرڈر 22 مارچ کی شام کو جاری کیا، الیکشن کمیشن نے فوج رینجرز اور ایف سی کو سکیورٹی کیلئے خط لکھے ، فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، جن میں بھکر، میانوالی میں ٹی ٹی پی ،سندھو دیش مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی، ہمیں دو لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے ، وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتحال کا کہا، وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کیلئے فنڈز جاری نہیں کر سکتے ، سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ بیس ارب روپے جاری کرنا ناممکن ہوگا، سپیشل سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔جسٹس منیب نے کہا کہ کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے ، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے ، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے ، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا 47ارب روپے خرچ ہوں گے ، انتخابات الگ الگ ہوں تو بیس ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے ، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سپیشل سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ سیاسی شخصیات کو سکیورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ کے مطابق سکیورٹی خطرات صرف الیکشن کے روز نہیں الیکشن مہم کے دوران بھی ہوں گے ، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا تھا کہ خیبرپختونخوا میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں، 2023 میں سکیورٹی کے 443 تھریٹس کے پی کے میں موصول ہوئے ، خیبرپختونخوا میں رواں سال دہشتگردی کے 80 واقعات ہوئے ، 170 شہادتیں ہوئیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے ، عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثر بھی زیادہ ہے ، خیبرپختونخوا کے 80 فیصد علاقوں میں سکیورٹی خطرات زیادہ ہیں، کے پی کے میں خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹس دیں کہ افغانستان سے دہشت گرد داخل ہوچکے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ یہ باتیں صدر مملکت کے علم میں لائے ، اگر صدر پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ نے غلطی کی ہے ، پنجاب میں کچے کا آپریشن کب مکمل ہوگا ؟سجیل سواتی نے کہا آپریشن مکمل ہونے میں چھ ماہ تک لگ جائینگے ۔چیف جسٹس نے کہا بیس سال سے ملک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے ، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں تین دفعہ الیکشن ہوئے ، جب فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی، 58/2 بی کے ہوتے ہوئے ہر تین سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے ، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے ، الیکشن کمیشن کا مسئلہ فنڈزکی دستیابی کا ہے ،وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ فنڈز اور اداروں سے معاونت مل جائے تو پنجاب میں الیکشن کروانے کیلئے تیار ہیں۔جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے ، دو اسمبلیاں تحلیل ہیں الیکشن کروانا کمیشن کی ذمہ داری ہے ، کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے ، اور اچانک سے اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے ، الیکشن کمیشن کا مقدمہ آرٹیکل 218 کا ہے ۔سجیل سواتی نے کہا الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر عمل کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ جس عدالتی حکم پر تمام ججز کے دستخط ہیں وہ کہاں ہے ؟ صبح سے پوچھ رہا ہوں کوئی بھی عدالتی حکم سامنے نہیں لا رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات موخر بھی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کی وجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا، کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ دیکر واپس لی گئی، 8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی، 8 اکتوبر کو کونسا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 6 ماہ کا وقت مکمل ہونے کے بعد 8 اکتوبر کو پہلا اتوار بنتا ہے ، 8 اکتوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے ۔یہ آئین ہے اس پر عملدرآمد ضروری ہے اگر آپ راستہ نہیں ڈھونڈ سکتے تو ہم ڈھونڈ دیں گے ، عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلتے رہنے دینا ہے ،سیاسی جماعتیں بھی سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کر تیں لیکن ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے ، سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک پرامن انتخابات نہیں ہو سکتے ،علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لیکر آگاہ کرنے کا کہا تھا، کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کیلئے تیار ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے ۔جسٹس منیب نے کہا کیا انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں۔سجیل سواتی نے کہا تاریخ مقرر ہوجائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے ، صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام موخر کیا ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا الیکشن کمیشن پروگرام تبدیل کرسکتا ہے تاریخ نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہئے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ صدر کو تجویز کردہ تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدر کو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا، جب معلوم تھا کہ 30 اپریل کو الیکشن نہیں ہوسکتے تو تاریخ تجویز ہی کیوں کی گئی۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ معاملہ کی حساسیت کا اندازہ مارچ میں ہوا، حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کا کام ہے صدر کا نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے بتایا کہ گورنرنے ابھی تک انتخابات کی تاریخ نہیں دی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نگران حکومت نے گورنر کو تاریخ دینے کا کیوں نہیں کہا؟وکیل کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ گورنر نے الیکشن کمیشن کو تاریخ سے آگاہ کردیا ہے ،گورنر نے 28 مئی کی تاریخ دی تھی،ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر کے پی کے نے 8 اکتوبر کی تاریخ دی ہے ،گورنر کا خط کل موصول ہوا ہے ہدایات کیلئے وقت دیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت نے فوری اور جلد از جلد تاریخ دینے کا کہا تھا،گورنر کے پی کے نے 8 اکتوبر کی تاریخ کس بنیاد پر دی ہے ؟اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز 30 اپریل کو پورے ہورہے ہیں،90 دن سے کم سے کم آگے کی تاریخ 28 مئی کی دی گئی؟کامران مرتضیٰ نے کہا کہ گورنر کے پی کے سے ہدایات لیکر آگاہ کرونگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بطور قوم ہمیں ہار نہیں ماننی،سیاسی قوتوں کے درمیاں تنائو سے دیگر ریاستی ادارے متاثر ہو رہے ہیں،عوام میں اداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں،ادارے بول نہیں سکتے اس لیے خاموش رہ کر سنتے ہیں، شفاف الیکشن کیلئے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا کہا،فیئر پلے ہو تو سپورٹس مین سامنے آتے ہیں، جنگجو نہیں،غصے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ، حکومت کی جانب سے کون یقین دہانی کروائے گا یہ بتائیں، کوئی سینئر عہدیدار یقین دہانی کروائے تو مناسب ہو گا،عدالتی کارروائی کا مقصد ریاستی کام کو آئین کے مطابق رکھنا ہے ،عدالتی کارروائی کسی کو فائدہ دینے کیلئے نہیں،الیکشن کے بغیر جمہوری حکومتیں نہیں آ سکتیں،دو وزرائے اعلیٰ نے اچھا یا برا اپنا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیا، آگے بڑھنے کیلئے قدم اٹھانا پڑتے ہیں،عدالت نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے تحریک انصاف سے تحریری یقین دہانی مانگ لی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ساز گار ماحول کا کیا مطلب ہے کہ کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے ، چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلحہ کا استعمال نہ ہو۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر معمولی جھگڑا بھی نہیں چاہتے تو ایسا نظام بنائیں کہ لوگ گھر سے ہی ووٹ کاسٹ کریں۔چیف جسٹس نے کہا سمندر پار پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں، سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے ، الیکشن کمیشن نے ابھی تک سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ کیلئے کچھ نہیں کیا۔

حکومت سے پوچھتے ہیں کہ انتخابات کیلئے 6 ماہ کا عرصہ کم ہو سکتا ہے یا نہیں۔ 21 مارچ کو ایک بریگیڈیئر کی شہادت ہوئی، پشاور مسجد میں دھماکا ہوا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ رواں سال 412 سکیورٹی اہلکار اور سو سے زائد سویلین شہید ہوئے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات دو دن میں بھی ہو سکتے ہیں، اگر ایک دن ممکن نہ ہو۔علی ظفر نے کہا کہ ایران میں جنگ کے دوران بھی الیکشن ہوئے تھے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پنجاب کی نگران حکومت کا الیکشن کی تاخیر پر کیا موقف ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے ،صوبے میں پہلے الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہو گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نگران حکومت اپنی مدت میں توسیع کیسے کر سکتی ہے ،اس قسم کا نکتہ نگران حکومت کیسے اٹھا سکتی ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا آئینی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے دلائل دینا میرا حق ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں 20 حلقوں میں انتخا بات منتخب حکومت نے کروائے تھے ، 20 حلقوں کے انتخا بات میں کتنے واقعات ہوئے تھے جن سے انتخابات متاثر ہوئے ۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کیا ہر ضمنی الیکشن کیلئے نگران حکومت لانی پڑے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ جولائی 2022 میں پنجاب کی بیس نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے تھے ، عام انتخابات میں نگران حکومت ہونا آئینی ضرورت ہے ، اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل کرنے کی بھی آئین اجازت دیتا ہے ۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب حکومت اپنی حد تک الیکشن کمیشن کی معاونت کر سکتی ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پولیس اہلکار مصروف ہیں اس لیے افواج کی تعیناتی کا کہا تھا،دستیاب وسائل میں رہ کر معاونت کر سکتے ہیں۔عدالت نے سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی، اٹارنی جنرل آج دلائل دیں گے ، عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدا یت کی ہے کہ وہ وزارت داخلہ اور دفاع کے حکام سے ہدایات لے کر بتائیں کہ انتخابات کیلئے کم سے کم وقت کیا ہوگا، عدالت نے الیکشن کمیشن کو مکمل الیکشن پلان جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں