آئی ایم ایف قرض کیلئے سخت شرائط:اب معاشی اصلاحات کے سوا چارہ نہیں:وزیر خزانہ

آئی ایم ایف قرض کیلئے سخت شرائط:اب معاشی اصلاحات کے سوا چارہ نہیں:وزیر خزانہ

اسلام آباد (مدثر علی رانا) انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پاکستان کیلئے 1 ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کردی ، آئی ایم ایف کے پاکستان کیلئے 7 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری کے بعد قرض پروگرام کی کڑی شرائط بھی سامنے آگئیں جن پر پاکستان کو عمل کرنا ہوگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ پاکستان این ایف سی ایوارڈ فارمولے پر نظرثانی کرے گا اور آئی ایم ایف صوبائی حکومتوں کے اخراجات بھی مانیٹر کرے گا۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان نیا نیشنل فنانس معاہدہ کیا جائے گا جس پر بات چیت جاری ہے ۔ کڑی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ مستقبل میں پنجاب حکومت کی طرز پر بجلی قیمتوں پر ریلیف نہیں دیا جائے گا اور پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے دوران ضمنی گرانٹس جاری نہیں کرے گا۔ پاکستان زرعی شعبہ، پراپرٹی سیکٹر اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔

آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ پاکستان شعبہ توانائی کو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زائد سبسڈی نہیں دے گا، بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے اصلاحات کی جائیں گی، حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے جامع پیکیج لائے گی اور غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی فاقی حکومت کے ڈھانچے کو کم کیا جائے گا۔ آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی جائے تاکہ بجلی نرخوں میں کمی لائی جا سکے ۔ ادھر آئی ایم ایف اعلامیے میں کہا گیا پاکستان میں معاشی شرح نمو2.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے ، افراط زرمیں کمی کے باوجود پاکستان کو اب بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں مشکل کاروباری ماحول، کمزورحکمرانی اور محدود ٹیکس بیس شامل ہے ، اعلامیہ کے مطابق پاکستان نے 2023-24 میں سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پالیسی پر عمل درآمد کیا جس کے نتیجے میں معاشی صورتحال بہتر ہوئی ۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے اس پالیسی کے ذریعے معاشی استحکام کی بحالی کیلئے مزید اہم اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے ، زرعی شعبے میں پیداواری گروتھ بہتر ہونے کے باعث مالی سال 2024میں شرح نمو 2.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ اعلامیے میں کہا گیا پاکستان میں مہنگائی میں نمایاں کمی ہوئی ، 38 فیصد سے کم ہو کر سنگل ڈیجٹ میں ریکارڈ ہوئی ، سخت مالیاتی اور مانیٹری پالیسیوں کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کنٹرول میں لایا گیا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو قدرے بہتر بنایا گیا، سٹیٹ بینک نے جون سے اب تک پالیسی ریٹ میں 450 بیسز پوائنٹس کی کمی کی ہے ، وفاقی حکومت نے جون 2024 میں اہم بجٹ پیش کیا جس میں سخت مالیاتی پالیسیاں اختیار کی گئیں لیکن اس تمام پیشرفت کے باوجود پاکستان کی معیشت چیلنجز اور مسائل کا شکار ہے ، آئی ایم ایف کے مطابق کاروباری ماحول میں دشواریاں، کمزور حکمرانی اورریاست کی دخل اندازی سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے ٹیکس نیٹ کم ہونے کی وجہ سے مالیاتی اخراجات پورا کرنا مشکل ہے ، مالیاتی وسائل کم ہونے کی وجہ سے غربت سے مستقل نجات کیلئے صحت اور تعلیم پر خرچ ناکافی ہے ، اعلامیہ میں کہا گیا موسمیاتی تبدیلیوں کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، اصلاحات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو پاکستان کے دیگرممالک کے مقابلے میں مزید پیچھے رہ سکتا ہے ، آئی ایم ایف نئے قرض پروگرام کا مقصد میکرو اکنامک استحکام کی بحالی ہے ، سرکاری ملکیتی اداروں کی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں، اس پروگرام کی کامیابی کیلئے ترقیاتی شراکت داروں کی مسلسل مالی معاونت بہت اہم ہوگی، آئی ایم ایف قرض پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان کو دوست ممالک سے ڈیپازٹ کو رول کرانا لازمی ہو گا، ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلیٹی پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان کو اداروں میں اصلاحات کا عمل ایڈوانس سٹیج پر کرنا ہو گا اور استعدادکار بہتر کرنا ہو گی، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ساتھ گردشی قرضہ کنٹرول اور ٹیرف ایڈجسٹمنٹس بروقت کرنا ہوں گی۔ 

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا امریکا کی مدد اور چین کا تعاون آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کی وجہ بنا،آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے حصول میں دوست ممالک نے مالیاتی ضرورت کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔اب معاشی اصلاحات کے سوا چارہ نہیں،حکومت اب نان فائلر کی اصطلاح ختم کر رہی ہے ،ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے ۔محمد اورنگزیب نے وائس آٖف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ اگر ہم چاہتے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ثابت ہو تو اس کیلئے ملکی معیشت میں بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی،جب بھی ملک کی مجموعی ترقی چار فی صد سے اوپر جاتی ہے تو ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں چلا جاتا ہے ، ملک کی معیشت کو برآمدی معیشت میں تبدیل کرنے کیلئے معاشی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانا ضروری ہیں جس کے بعد ہی ملک کو آئندہ تین سال میں آگے لے کر جاسکیں گے ۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت کے پاس اب معاشی اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں ،تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ طبقے پر جو اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا اسے کم کیا جائے گا اورٹیکس نیٹ سے باہر ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا،فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو حراست میں لئے بغیر انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔ پاکستان میں نو ہزار ارب روپے کی غیر دستاویزی معیشت ہے جسے دستاویز میں لاکر خود بخود ملکی معیشت کو ڈبل ڈیجٹ کیا جاسکتا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف بہت واضح سوچ رکھتے ہیں کہ کاروبار کرنا حکومت کا نہیں بلکہ نجی شعبے کا کام ہے ،اس لئے کابینہ کی نجکاری کمیٹی حکومتی اداروں کی نجکاری کے عمل کو آخری مراحل میں لے جا چکی ہے ۔انہوں نے کہاکہ امریکا آئی ایم ایف کا سب سے بڑا حصہ دار ہے اور معاشی سفارت کاری میں ہر چیز ملحوظِ خاطر رکھی جاتی ہے ،امریکا ماضی میں بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں واشنگٹن کی پاکستان کیلئے قرض پروگرام کی حمایت کو سراہتے ہیں۔

چین کے ساتھ سی پیک ون کے بعد فیز ٹو پاکستان کی صنعت کی بحالی اور ترقی کیلئے اہمیت رکھتا ہے ۔ پاکستان نے دوست ممالک سے جو قرض لے رکھے ہیں اس میں چین کا حجم سب سے زیادہ ہے ، اس لئے مالیاتی فنڈ یہ پوچھتا ہے کہ اسے واپس کیسے کریں گے ۔ معاشی حوالے سے پاکستان کی پالیسی ’’اور اور‘‘کی ہے اور یہ ’’اِدھر یا اُدھر‘‘ کی نہیں ہے ۔وزیرخزانہ کا کہناتھاکہ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک مرحلہ وار عمل کے نتیجے میں منظور کیا گیا ، البتہ ماضی کے پروگراموں پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ساکھ اور اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ آئی ایم ایف کا7ارب ڈالر کا نیا قرض37 ماہ پر مشتمل ہے ،موجودہ حکومت پرعزم ہے کہ اس مرتبہ 37 ماہ کے اس آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق معاشی اصلاحات لانی ہیں،گزشتہ مالی سال کے اختتام پر روپے کی قدر میں استحکام آیا زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی میں بتدریج کمی ہوئی ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں