علی امین کے زیر حراست ہو نیکی متضاد اطلاعات:اسلام آباد پہنچ کرکے پی ہاؤس گئے،پھر رابطہ منقطع،خیبرپختونخوا کے11پولیس اہلکاروں سمیت564افراد گرفتار ،افغانی بھی شامل:وزیرداخلہ
اسلام آباد ،راولپنڈی،لاہور (خصوصی رپورٹر، خصوصی نیوزرپورٹر،نیوزرپورٹر،اپنے نامہ نگار سے ،خبرنگار،کرائم رپورٹر،سیاسی نمائندہ،سپیشل کرائم رپورٹر )اسلام آباد پولیس نے گزشتہ رات دھر نا دینے والے پی ٹی آئی مظاہرین کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے ڈی چوک خالی کروا لیا۔
پارٹی قیادت کے نہ پہنچنے یا ہدایت نہ ملنے پر تحریک انصاف کے کارکن بارش کے دوران مزاحمت کے بعد ڈی چوک،چائنہ چوک اور کلثو م چوک سے منتشر ہوگئے ۔خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو اسلام آباد میں خیبرپختونخوا ہاؤس سے گرفتار کرنے کی متضاد اطلاعات آتی رہیں،پی ٹی آئی ذرائع نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کی جبکہ حکام اس کی تردید کرتے رہے ۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور جلوس کیساتھ ڈی چوک پہنچے اور وہاں سے کے پی ہاؤس گئے بعدازاں ان سے رابطہ منقطع ہوگیا اور وہ منظر سے غائب ہوگئے ،اسلام آباد کی مقامی عدالت نے شراب اور اسلحہ برآمدگی کیس میں ان کی ضمانت کینسل کرکے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کررکھے ہیں ۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے حالات معمول پرآنے کے بعد تمام راستے کھلوا دئیے اور پنجاب کا خیبر پختونخوا سے رابطہ بھی بحال کر دیا گیا ۔
لاہور میں احتجا ج کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے قریب سے پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ، وکلا اور دیگر مقامات سے احتجاج کرنے والے احمد خان بھچراور مسرت جمشید سمیت پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا جبکہ کئی جگہوں پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں ، پتھراؤ سے ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگیا ۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کارکن علی امین گنڈاپورکی قیادت میں گزشتہ روز سخت مزاحمت کے بعد ڈی چوک اسلام آباد میں پہنچ گئے اوردھرنا دے دیا ، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دھرنے سے خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم ڈی چوک پرپہنچ گئے ہیں، اپنا احتجاج ریکارڈ کروا لیا ہے ۔ ہم پر شدید فائرنگ شروع کردی گئی تھی، یہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم پرامن جماعت نہیں، ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم پرامن جماعت ہیں۔ اب ہم بانی پی ٹی آئی سے بات کریں گے اس کے بعد ہمارا کیا لائحہ عمل ہوگا،ہمارا اختیار بانی پی ٹی آئی کے پاس ہے ۔
اس کے بعد علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد چلے گئے ،اس دوران خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری پہنچی اور علی امین گنڈ اپور کی گرفتاری کی متضا د اطلاعات سامنے آئیں او ر وہ منظر سے غائب ہوگئے ۔پولیس نے رات کے وقت دھرنا دینے والے پی ٹی آئی کارکنوں کیخلاف کارروائی کا آغاز کردیا ،کارکنوں کیساتھ کوئی رہنما موجودنہیں تھا اورنہ ہی انہیں کوئی ہدایت جاری کی گئی تھی جس پر انہوں نے بارش کے دوران کچھ مزاحمت کی تاہم خودہی ڈی چوک ،چائنہ چوک اور کلثوم چوک خالی کرکے واپس چلے گئے جس کے بعد پولیس اور رینجرزنے کنٹرول سنبھال لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے علی امین گنڈا پور کے بعد پلان بی پر عمل کرتے ہوئے اعظم سواتی کو ڈی چوک پر مظاہرین کی قیادت کی ہدایت کی تھی تاہم اعظم سواتی سمیت مرکزی قیادت ورکرز کو کسی لائحہ عمل سے آگاہ نہ کرسکی۔دوسری طرف وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پورکے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو کے پی ہاؤس سے گرفتار کیاگیااور کے پی ہاؤس کا کنٹرول رینجرز نے سنبھال لیا ۔
کے پی ہاؤس میں آج ہونے والے عمل کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے ۔وزیر اعلیٰ 25 اکتوبر تک ضمانت پر ہیں، ان کی گرفتاری توہین عدالت ہوگی، وزیر اعلیٰ کو اگر گرفتار کیا گیا تو کے پی کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہوگی ۔ذرائع کے مطابق آئی جی اسلام آباد نے علی امین گنڈا پور کو حراست میں لیا اورحکام کاکہناہے کہ علی امین گنڈا پور کیخلاف ریاست پر حملہ آور ہونے پرقانونی کارروائی کی جائے گی، ان پر سرکاری املاک کو نقصان اورسرکاری وسائل کا غلط استعمال کرنے کے الزامات ہیں۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ علی امین گنڈا پورکو کے پی ہاؤس سے غیرقانونی طور پرگرفتار کرلیاگیا ، رینجرزاوراسلام آباد پولیس نے کے پی ہاؤس کی حدود کی خلاف ورزی کی۔ علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈاپورکا کہنا تھاکہ رینجرزعلی امین کی گرفتاری کیلئے کے پی ہاؤس گئی ، اب ان سے رابطہ نہیں ہورہا ۔ سرکاری ذرائع کا کہنا تھاکہ علی امین کو گرفتار نہیں کیا گیا تاہم ان کیخلاف قانونی کارروائی کی جائے گی ۔
اعلی ٰ ترین سکیورٹی ذرائع کا کہناتھاکہ علی امین گنڈا پور کو گرفتار کیا نہ ہی حراست میں لیا ،اس حوالے سے پھیلائی جانے والی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔کئی گھنٹوں کے بعد پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی کا کہناتھاکہ وزیراعلیٰ کے پی ہاؤس میں موجود ہیں اور اُن کے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر کی موجودگی میں انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ہوئے ، جس میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور غیر قانونی مقدمات کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات پیش کئے گئے ہیں۔گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسین چشتی کی عدالت نے غیر قانونی اسلحہ و شراب برآمدگی کیس میں وزیر اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے گرفتار کرکے 12اکتوبرکو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ علی امین گنڈاپور کی ممکنہ گرفتاری کیخلاف پی ٹی آئی وکلا ونگ نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔وزیراعلیٰ کے وکیل عالم خان ادینزئی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو پشاور ہائیکورٹ نے ایک ماہ کیلئے حفاظتی ضمانت دی ہے ۔ عدالتی احکامات کے باوجودان کو گرفتار کرنے کی اطلاعات آرہی ہیں جو توہین عدالت ہے ۔
پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ اسلام آباد سے میرے بھائی عدنان خان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ہم گرفتاریوں سے ڈرنے والے نہیں ۔ وزیراعلیٰ گنڈا پور کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کررہے ہیں اورگرینڈ جرگہ بلا رہے ہیں، وزیراعلٰی کو حراست میں لینا پورے خیبرپختونخوا کی توہین ہے ۔ مرکزی ترجمان پاکستان تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور عمران خان سے بڑے لیڈر نہیں، اگر انہیں گرفتار کیا بھی جاتا ہے تو احتجاج کو ہرگز ملتوی نہیں کیا جائیگا بلکہ اسے اعظم خان سواتی لیڈ کریں گے ۔قبل ازیں ڈی چوک پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا، فیض آباد کے قریب پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد 200 سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔اسلام آباد پولیس نے سوہان،کری روڈ، اقبال ٹاؤن سے گھروں کو واپس جانے والے شہریوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا ،مری روڈ پر مظاہرہ کرنے والے کارکنوں کے خلاف بھی مقدمات درج کئے گئے ۔ڈی چوک پر پبلک ٹرانسپورٹ اور میٹرو بس سروس معطل رہی جس سے شہری شدید مشکلات کا شکار رہے ۔
جگہ جگہ کنٹینرز اور خاردار تاروں کی باڑ اور دیگر رکاوٹیں قائم رہیں اور موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بند رہی۔ پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث جڑواں شہر دوسرے روز بھی سیل رہے جبکہ عدالتیں، سکول، میٹرو بس سروس سمیت تمام ادارے بند اور سڑکیں سنسان رہیں۔دونوں شہروں کے تمام راستے ، سڑکیں، چوراہے ہفتے کو دوسرے دن بھی مکمل سیل رہے جبکہ انتظامیہ کی جانب سے مری روڈ سے آنے والے لنک روڈز اور گلیوں کو بھی سیل کردیا گیا ، اسی طرح سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہفتے کے روز بھی مکمل بند رہے اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے انتہائی کم ہونے کی وجہ سے سرکاری اداروں میں بھی حاضری کم رہی ۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے مظاہرے میں شریک 564 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں خیبرپختونخوا پولیس کے 11 سادہ لباس اہلکاراور120افغان شہری بھی شامل ہیں۔ڈی چوک اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ اسلام آباد پر وزیراعلیٰ کی قیادت میں دھاوا بولا گیا اور کوشش کی گئی کہ کوئی جانی نقصان ہو مگر شکر ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کی وجہ سے ان کے ارمان پورے نہیں ہوسکے ۔
خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکار سادہ کپڑوں میں مظاہرے میں شامل ہوئے ، پاکستان میں پہلی بار پولیس کو مظاہرے کیلئے استعمال کیا گیا ہے ۔ محسن نقوی کے مطابق خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکاروں کو ڈی چوک سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد وزارت داخلہ نے تحقیقات شروع کردیں اور اس کی رپورٹ وزیراعظم کو ارسال کی جائے گی۔ مظاہرین کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس تک دھرنا دینا تھا مگر ہم نے انتہائی تحمل کے ساتھ صورت حال کو کنٹرول کیا جبکہ کچھ عناصر چاہتے تھے کہ لاشیں گریں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہترین انداز سے فرائض انجام دئیے ۔وزیرداخلہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پی سمیت اسلام آباد پر دھاوا بولنے ، پولیس پر تشدد کرنے والوں اور تخریب کاری کا حکم دینے سے لے کر کارکنوں سب کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا اور وزیراعلیٰ سمیت جو بھی عناصر ملوث ہوئے اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پولیس پر حملہ کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، مظاہرین نے دور تک جانے والے ا ٓنسو گیس استعمال کئے ، اسلام آباد پر دھاوا بولنے والے مسلح جتھوں میں تربیت یافتہ دہشت گرد بھی شامل تھے ۔
دھاوا بولنے والوں کے ساتھ ہرگز مذاکرات نہیں ہوں گے ،وزیر اعلیٰ کے پی حد سے آگے بڑھ رہے ہیں اور موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں،مظاہرین کی جانب سے پولیس پر فائرنگ اور شیلنگ کی گئی،80اہلکار زخمی ہوئے ۔ محسن نقوی نے اسلام آباد کے شہریوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ سمجھنا چا ہئے کہ ایسا کیوں اور کن لوگوں کی وجہ سے کیا جارہا ہے ،ہمارے پولیس اہلکاروں کے پاس ہتھیار نہیں جبکہ احتجاجی مظاہرین کے پاس ہتھیار ہیں۔ محسن نقوی نے انتہائی حساس علاقوں ریڈ زون میں سکیورٹی کیلئے علاقے میں تعینات پولیس اور ایف سی اہلکاروں کے حوصلے بلند کرنے اور مشتعل افراد کو روکنے کیلئے صبح سویرے ڈی چوک کا دورہ کیا۔ انہوں نے اہلکاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ\"بہت خوب! بہت اچھا کام! قوم کو آپ پر فخر ہے ۔ وفاقی وزیرِ داخلہ اور آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے گزشتہ روز ہسپتال کا بھی دورہ کیا فرائض کی انجام دہی کے دوران زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی عیادت و حوصلہ افزائی کی ۔ آئی جی پنجاب عثمان انور نے کہا کہ پولیس پر براہ راست گولی چلائی گئی، اس کے باوجود بھرپور کوشش سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ امن وخراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، پاکستان محفوظ تھا اور رہے گا۔آئی جی نے تمام راستے کھلوا دئیے تاہم راولپنڈی اور اٹک میں پولیس کے دستوں کو موجود رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔
سیاسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے آج لاہور کے ساتھ پورے پنجاب میں احتجاج کی کال دے دی ہے ،تمام اضلاع میں آج احتجاج ہو گا۔ذرائع کے مطابق ملک گیر احتجاج کی کال جلد دی جائے گی جبکہ لاہور کا احتجاج بھی جاری رہنے کا امکان ہے ۔ پی ٹی آئی کے لاہور میں احتجاج کو روکنے کیلئے لاہور کے داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینرلگا دئیے گئے اورسینکڑوں کارکنوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا ۔آزادی فلائی اوور کے قریب پی ٹی آئی کے مظاہرین کے پتھراؤ سے پولیس کی تین گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے ،مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کیاگیا ۔ مسرت جمشید چیمہ قافلے کے ہمراہ آزادی چوک کے قریب پہنچی تو انہیں گرفتار کر لیا گیا،اپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچر کوبھی گرفتار کرلیاگیا،لاہور کچہری میں تحریک انصاف کے حامی وکلا اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا ۔بابو صابو انٹرچینج ، شاہدرہ ، ٹھوکر نیاز بیگ ، سیالکوٹ موٹروے سمیت تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کیا گیا ،مینار پاکستان اورزمان پارک میں بانی پی ٹی کی آبائی رہائش گاہ کے اطراف میں بھی کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا ۔ جاتی امراء سے آنے جانے والا راستہ ، لاہور رنگ روڈ، شاہدرہ بتی چوک پر بھی داخلی راستوں پر کنٹینرز لگا ئے گئے ۔
میاں اسلم، حماد اظہر، حافظ فرحت اور، شیخ امتیاز سمیت پی ٹی آئی لاہور کی تمام لیڈرشپ غائب رہی ، راستے بند ہو نے سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،ایمبولینسیں بھی راستوں میں پھنسی رہیں ۔ احتجاج کے پیش نظر میٹروبس سروس کا روٹ محدود کردیاگیاجبکہ انٹرسٹی بس سروس مکمل بندر ہی تاہم اورنج ٹرین مکمل بحال رہی ۔پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی لیڈراور سابق وفاقی وزیر زرتاج گل کوڈیرہ غازی خان میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ حماد اظہر نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہاکہ تحریکِ انصاف کی پولیٹیکل کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ پُرامن احتجاج جاری رہیں گے ۔علی امین بظاہر حبس بے جا میں ہیں، گرفتاریوں کی صورت میں متبادل قیادت موجود ہے جو احتجاج کی قیادت کرے گی۔اٹک میں پی ٹی آئی کارکنوں کے پتھراؤ سے پنجاب پولیس کے 50 سے زیادہ اہلکار زخمی ہوگئے ۔ گوجرانوالہ شیخوپورہ روڈ پر دونوں ٹول پلازے بند کردئیے گئے جس سے مسافروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔