پنجابی زبان کا محسن

پنجابی زبان کا محسن

اسپیشل فیچر

تحریر : سعد اللہ شاہ


پانچ دریائوں کی سر زمین جہاں سرسوں پھولتی ہے تو آنکھیں سنہری ہو جاتی ہیں، جہاں دھان کی خوشبو دور دور تک پھیل جاتی ہے اور جہاں گندم کٹتی ہے تو زندگی محوِ رقص نظر آتی ہے، پنجاب کہلاتی ہے۔ شفقت تنویر مرزا اسی دھرتی کو من میں بسائے ہوئے تھے۔ وہ پنجاب کی زبان اور پہچان تھے۔ وہ اِس کی ثقافت اور بودو باش میں زندہ تھے۔ وہ یہاں کے رسم و رواج اور سماج کو اپنی شناخت جانتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنی شناخت کو قائم رکھنے کے لیے پنجابی زبان کو رائج کرنا اور ذریعۂ تعلیم بنانا از بس ضروری ہے کہ ترقی کا راز اسی عمل میں مضمر ہے۔ وہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ساری عمر کوشاں رہے۔ انہوں نے اِس بات کی ذرہ برابر پروا نہیں کی کہ زمانے کا چلن اور ہے۔ اُن کے مزاج میں سنجیدگی ، متانت اور وارفتگی تھی۔ ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘ بس اپنی دھن میں مست، ایک مقصد ایک خواب اور ایک جنون احمد مشتاق یاد آگئے:میں تو گم اپنے نشے میں تھا مجھے کیا معلومکس نے منہ پھیر لیا کس نے پزیرائی کیشفقت تنویر مرزا سچے کھرے اور اصولی آدمی تھے، نڈر، بے باک اور صاف گو۔ وہ برابری اور انصاف کے داعی تھے۔ تمام عمر آزادیٔ صحافت، جمہوریت اور پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کی صرف بات ہی نہیں کی بلکہ عملی طور پر سامنے آئے۔ یہ خوبی اسی شخص میں ہو سکتی ہے جو اپنی اصل سے جڑا ہوا ہو۔ وہ ذاتی مفادات و اغراض سے بلند ہو کر عوام کی خوشحالی اور آزادی کے قائل تھے۔ اپنے مقصد اور آدرش کے ساتھ مخلص لوگ ہی ایماندار ہوتے ہیں۔ پھر کیا کیا جائے ایسے لوگ تو کم کم اور خال خال ہوتے ہیں کیونکہ دنیا تو دنیا داروں ہی سے بھری ہوئی ہے جو چڑھتے سورج کے پجاری اور جو اپنی ناک سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ یعنی اپنی غرض کے بندے کہ جن کی سوچ تک معدے سے وابستہ ہوتی ہے۔اُن کا ظاہر باطن ایک تھا اور دل زبان کا رفیق۔ شفقت تنویر مرزا صاحب کے بارے میں نجم حسین سید صاحب نے بجا کہا کہ ’’جیسے معجزوں کا زمانہ گزر چکا ہے، ایسے ہی عظیم لوگوں کا زمانہ بھی گزر گیا ہے جو کسی مشن کے لیے اپنی زندگیاں قربان کر دیا کرتے تھے۔ شفقت تنویر مرزا پنجابی زبان کو وہ مرتبہ اور اہمیت دینے کا وہ مشن رکھتے تھے جو مادری زبانوں اور مائوں کا جائز حق ہوتا ہے۔ جو اس حق کو تسلیم نہیں کرتے وہ مہذب کہلوانے کے حق دار نہیں۔‘‘یہ معمولی بات نہیں کہ آپ ظلم اور آمریت کے خلاف مسلسل مشکلات اور مصائب سے دو چارر ہیں اور اپنے جمہوری موقف سے سر مُو انحراف نہ کریں۔ وہ بار بار نوکری سے نکالے گئے پابند سلاسل کیے گئے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب وہ بھی جیل میں تھے اور اُن کی بیگم تمکت آراپسِ زنداں تھیں۔شفقت تنویر مرزا 1932 میں شکر اللہ خاں اور رحمت بانو کے گھر پیدا ہوئے اور 80 برس گزارنے کے بعد نومبر 2012 ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اُن کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ وہ بیک وقت ادب اور صحافت سے منسلک رہے اور پنجابی زبان کی خدمت تو گویا انہیں عبادت کی مثل تھی۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز 1949ء ہی میں روزنامہ تعمیر سے کر دیا تھا۔ 1956ء میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ 1958ء میں پاکستان کے پہلے آمر ایوب خاں نے مارشل لاء لگا دیا۔ ظاہر ہے مرزا صاحب جیسا حریت پسند کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ احتجاج کیا اور مزاحمت کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ نتیجتاً انہیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ انہوں نے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے علاوہ امروز میں بھی کام کیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خاں سے الگ ہو کر پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس وقت انہوں نے حنیف رامے کے ہفت روزہ نصرت میں پیپلز پارٹی کے حق میں مضامین لکھے۔ اس کے بعد روزنامہ مساوات میں کام کیا۔ وہ دوبارہ امروز میں چلے گئے تھے مگر جنرل ضیاء الحق کے دَور میں انہیں ایک بار پھر وہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ ضیاء الحق کے جانے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر امروز میں آگئے مگر تب یہ ادارہ برباد ہو چکا تھا۔ آخری وقت وہ پنجابی ادبی بورڈ کے چیئرمین تھے۔ انہیں 2006ء میں تمغۂ حسن کارکردگی ملا۔میں نے 1958ء میں یونیورسٹی آف دی پنجاب سے ایم اے انگریزی کرنے کے بعد ٹی ہائوس آنا جانا شروع کیا۔ ٹی ہائوس کے ساتھ ملحقہ وائی ایم سی اے میں پنجابی ادب سنگت کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ پرویز ہاشمی کی وساطت سے میں پنجابی کی طرف راغب ہوا تو اِن اجلاسوں میں شرکت شروع کی تو وہاں شفقت تنویر مرزا سے ملاقات ہوئی اور پھر یہ روٹین بن گئی۔ وہ بہت پُر وقار اور منکسر المزاج تھے، لہجے میں نرماہٹ اور ملائمت ۔ جب بھی ملے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں اپنائیت کی چمک تھی۔ ان کی باتوں سے اُن کی علمیت جھلکتی تھی۔ انہیں ادبی حلقوں میں بہت اعتبار اور اہمیت حاصل تھی۔ وہ پنجابی میں تو ’’مہان‘‘ تھے ہی ان کی انگریزی بھی کم نہیں تھی وہ ڈان جیسے مؤقر روزنامے میں کالم لکھتے تھے۔ مجھے تنویر ظہور نے بتایا تھا کہ وہ پنجابی ادبی سنگت کے بانیوں میں سے تھے۔ انہوں نے مجلسِ شاہ حسین بھی بنائی تھی۔ انہوںنے بہت تسلسل سے کام کیا۔ انہوں نے شاہ حسین، سچل سرمستؒ، ہاشم شاہ، علی حیدر، خواجہ فرید، حافظ برخوردار اور دیگر پنجابی کلاسیک کا ترجمہ اُردو میں کیا۔ وہ کسی زبان کے خلاف ہرگز نہیں تھے بلکہ وہ تو چاہتے تھے کہ پنجابی اپنی ماں بولی کو وہی اہمیت دیں۔ جو سندھی اپنی سندھی زبان کو دیتے ہیں اور بلوچی اپنی بلوچی زبان کو۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی ادیبوں شاعروں اور دانشوروں نے اُردو زبان پر قبضہ کر لیا۔ بلکہ اب تو انگریزی زبان اُردو کو دباتی جا رہی ہے۔ بات تو وہی مرزا صاحب کی بڑی ہوتی ہے کہ ہم نے پنجابی زبان سے منہ موڑا تو اس نے بھی ہمیں خیرباد کہہ دیا۔ مرزا صاحب ٹھیک سمجھتے تھے کہ پنجابی پہلی جماعت سے پڑھانی شروع کر دینی چاہیے۔مرزا صاحب کی تصانیف درجن بھرہیں جن میں ’’آزادی مگروں‘‘، ’’پنجابی ادب‘‘، ’’ادب راہیں‘‘، ’’پنجاب دی تاریخ‘‘، تحریک آزادی وچ پنجابی دا حصہ‘‘، آکھیا سچل سرمست نے اور ’’لہو سہاگ‘‘ شامل ہیں۔ لہو سہاگ پنجابی ادبی بورڈ نے شائع کی تھی۔ انہوں نے ڈان میں مسلسل ’’پنجابی کتاباں‘‘ کے نام سے تبصرے بھی لکھے۔ میرے خیال میں انہوں نے انگریزی زبان کو بھی پنجابی کی ترویج کے لیے استعمال کیا اور اُردو کو بھی اسی مقصد کے لیے اپنایا۔ دلچسپ بات ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے افتخار مجاز کے ایک اُردو مضمون کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ مضمون پنجابی میں لکھا جاتا تو اور بھی اچھا ہوتا۔آخر میں اُن کے اس پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں جس کا ذکر ایک معروف کالم نگار نے کیا ہے کہ انہوں نے شفقت تنویر مرزا کا ایک طویل انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے حُبِّ نبی ﷺ کا ذکر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نالائق مولویوں سے نالاں ضرور ہیں مگر ایسا نہیں کہ اُن کا دل حُبِّ نبی ﷺ سے خالی ہے۔ شمعِ رسالت ﷺ ان کے دل میں پوری آب و تاب سے روشن تھی۔ ظاہر ہے ایک شفاف ، نستعلیق اور سچا شخص اس لمس سے کیسے بچ سکتا تھا۔ بنیادی بات تو مساوات کی تھی اور مساوات محمد یؐ سے زیادہ اچھا رول ماڈل کون سا ہو سکتا ہے۔ تاریخ مکہ کے انقلاب سے روشن ہے کہ جس میں ایک قطرہ خون بھی نہیں بہا۔ دشمنوں کو عام معافی ہی نہیں ملی بلکہ اُن کے گھروں کو دارالامان بنا دیا گیا۔ آخری خطبہ انسانیت کا پہلا دستور ٹھہرا جس میں کسی گورے کو کالے اور کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں دی گئی۔ انسانیت کو غلامی سے آزادی ملی۔ خالد احمد نے خوب کہا ہے:تُو نے کچلے ہوئے لوگوں کا شرف لوٹایاآخری خطبے کی صورت میں وصیّت لکھیانہیں کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو گیا اور پھر اس مرض کا علاج عام سفید پوش کے بس کی بات نہیں۔ وہ اتنے خوددار تھے کہ کسی کی مدد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اُن بقایا جات کے لیے تگ و دو کرتے رہے جو حکومت کے ذمہ واجب الادا تھے۔ وہ اپنے حق پر اصرار کرتے تھے ان کے واجب الادا پیسوں میں سے فردوس عاشق اعوان کی کوششوں سے تھوڑے بہت ملے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اپنے تئیں ان کے علاج میں معاونت بھی کی۔ ان کے جانے سے پنجابی ادب کا اِک حسین باب ختم ہو گیا۔ اس درویش صفت انسان کو کہ جس کے اندر پنجابی صوفی شاعروں کی شاعری کا گداز اور پنجاب کی خوشبو جس کے دل میں جاں گزریں تھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کئی دوستوں نے ان کے حوالے سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ منو بھائی، امجد اسلام امجد، حامد میر رؤف ظفر اور دیگر نے کالم لکھے اور ٹی وی چینلز پر دانشوروں نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔‘‘٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
گیدڑ سنگھی

گیدڑ سنگھی

آخر وہ کون سی 'گیدڑ سنگھی‘ تھی جس کی بدولت کوئٹہ جیت گیا؟یہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کی سرخی ہے جومارچ 2021ء کے پاکستان سپر لیگ کے ایک میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے اپنا پہلا میچ جیت لیا، اور وہ بھی ہدف کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے۔ اس واقعے کی حیرت کو دو آتشہ کرنے کے لیے ویب سائٹ نے ''گیدڑ سنگھی‘‘ کی اصطلاح کا تڑکا لگایا۔مگر ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ یہ گیدڑ سنگھی کس بلا کا نام ہے اور اس کی طلسماتی خوبیوں کا کیا راز ہے؟ کچھ ہے بھی یا نہیں؟ لوک داستانوں کے مطابق گیدڑ سنگھی یا ''جیکال ہارن‘‘ ایک پراسرار شے ہے اور جنوبی ایشیا میں لوگ اس کے بارے بہت سے ا نوکھے تصورات رکھتے ہیںمثلاً یہ سمجھا جاتا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک طلسماتی قوت ہے اور خوش قسمت لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایک خیال جو سائنسی اعتبار سے بے بنیاد ہے، یہ ہے کہ گیدڑ جب سو سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے سر پر سامنے کی طرف بالوں میں ایک دائرہ سا نمودار ہو جاتا ہے جسے گیدڑ سنگھی کا نام دیا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد سندور میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔مگرگیدڑ کی سو سالہ زندگی کے اس تصور ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گیدڑ سنگھی کی حقیقت کیا ہو گی، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا واضح ہونے کے باوجود ہمارے جیسے معاشروں میں اس قسم کے تصورات موجود رہتے ہیں اور لوگوں کے ذہن سے ان کو دور کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ سوچنا چاہیے کہ گیدڑ سنگھی میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ یہ ہمارے ہاں کا عام محاورہ بن چکا ہے جو طلسماتی اور کرشماتی قوت کے ہم معنی ہے؟آپ جب کسی کی خلاف توقع کامیابی کو دیکھتے ہیں تو فوراً آپ کے ذہن میں بھی اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ''اس کے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے؟‘‘ہمارا ماننا ہے کہ حقیقت میں گیدڑ سنگھی کی ایسی طلسمی صلاحیت کا کوئی وجود نہیں ، مگر سماجی تصور اور محاورے نے اسے باقی رکھا ہے اور لوگ واقعی گیدڑ سنگھی کو کوئی حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں اور جب کوئی کسی شے کو حقیقت سمجھ بیٹھے تو پھر اس کی تلاش بھی شروع ہو جاتی ہے ، یہیں سے شعبدے بازوں کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔چونکہ گیدڑ سنگھی کے ساتھ ایسا طلسماتی تصور باندھ دیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ یہ آ جائے اسے پھر کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں،جو چاہے گا بیٹھے بٹھائے حاصل کر لے گا؛چنانچہ کام چوراور راتوں رات چھپڑ پھاڑ دولت کے خواہاں گیدڑ سنگھی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ بس ایک بار کہیں سے گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ اس لالچ میں اکثر لوگ ایسے شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر انہیں بھاری قیمت پر ''گیدڑ سنگھی ‘‘فروخت کر دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ان شاطروں نے گیدڑ سنگھیاں بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔ کہیں گیدڑ کا سر کاٹ کر اس کے سر کی کچھ کھال اتار کر اس کے ماتھے کی ہڈی میں نقلی چھوٹے سینگ جیسا ابھار بنا کر کھال کو دوبارہ سر کے ساتھ چپکا دیا جاتا ہے اور اب اس کھال سے ابھرا ہوا نقلی سینگ بالکل اصلی معلوم ہوتا ہے اور لالچی نظروں کو گیڈر سنگھی دکھائی دیتا ہے۔ کہیں بالوں کے گچھے کی گیند سی بنا کر گیدڑ سنگھی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے۔اگر کسی نے اصلی گیدڑ سنگھی دیکھی ہو تو چلو اس سے مقابلہ کر کے اصل نقل کی پہچان کر لے، جب ایک تصور ہے ہی بے بنیاد اور کوئی اس کے اصل سے واقف نہیں تو پہچان کیسے ہو؟ اس لئے لالچی لوگ با آسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کبھی کبھار جوگی اور سپیروں نے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اُن کے پاس'' گیدڑ سنگھی‘‘ ہوتی تو وہ خود ہی خوشحال نہ ہوجاتے؟اس طرح عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں، کچھ لوگ اسے سرکے بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں، کچھ جوگی اس کو گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے جس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے گھنے بال اُگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے۔ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں یہ جعل سازی ہے۔مگرگیدڑ سنگھی اور اس جیسی دیگر طلسمی چیزوں کو عقلِ سلیم نہیں مانتی اور اسلام میں بھی ایسی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذاعلما ء کرام کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اختراعی عقائد رکھنا یعنی رزق میں برکت اور اپنی خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف العقیدہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ 

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس مائیکروسافٹ کمپنی کے چیئر مین اور دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ان کا پورا نام ولیم ہنری گیٹس ہے۔ بل گیٹس 1955ء میں واشنگٹن،امریکہ کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔اس دور میں آج کی طرح کمپیوٹر نہ اتنے ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی کمپیوٹروں کی دنیا۔ محض 13برس کی عمر میں وہ پروگرامنگ کا ہنر سیکھ چکے تھے۔ آج بل گیٹس کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں سننا لوگ پسند کرتے ہیں اور جن کی کہی باتیں دنیا پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ اس وقت دنیا کے امیر ترین انسان ہونے کا اعزاز مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے پاس ہے۔ عام طور پر انہیں بہت ذہین، زیرک اور دانشمند سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اربوں ڈالرز بھی آپ کی بات کو غلط ثابت کرنے سے نہیں روک سکتے۔ آپ نے گیٹس کے اقوال زریں تو بہت پڑھے ہوں گے، آئیے آپ کو ان کی وہ باتیں بھی بتاتے ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں اور ظاہر کیا کہ دنیا کا امیر ترین شخص بھی غلط بات کر سکتا ہے۔بل گیٹس نے 1994ء میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طور پر ایک بات کہی تھی کہ ''مجھے اگلے 10 سالوں تک انٹرنیٹ میں کوئی کمرشل صلاحیت نظر نہیں آتی‘‘۔ اس کا ذکر 2005ء کی ایک کتاب میں کیا گیا ہے۔آج دیکھ لیں انٹرنیٹ کیا اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کوئی بھی شخص اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کمرشل کے ساتھ ساتھ گھریلو طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔''جدید سافٹ ویئر میکنٹوش پر آئیں گے، آئی بی ایم پی سی پر نہیں‘‘ بل گیٹس نے یہ بات 1984ء میں بزنس ویک کیلئے ایک مضمون میں لکھی تھی۔اس وقت بل گیٹس اور ایپل کے اسٹیو جابز کے درمیان بڑی یاری تھی، لیکن جیسے ہی مائیکروسافٹ نے آئی بی ایم پی سی کیلئے ونڈوز جاری کی، اس تعلق کا خاتمہ ہو گیا۔ونڈوز کے مشہور ہونے سے پہلے مائیکرو سافٹ نے آئی بی ایم کے ساتھ مل کر ایک آپریٹنگ سسٹم او ایس2 تخلیق کیا تھا۔ اس وقت، یعنی 1987ء میں، گیٹس نے کہا تھا کہ ‘‘میرے خیال میں او ایس2 سب سے اہم آپریٹنگ سسٹم ہوگا اور تاریخ کا سب سے شاندار پروگرام بھی‘‘۔لیکن یہ آپریٹنگ سسٹم نہ چلا۔ جب 1990ء میں ونڈوز 3.0 نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تو مائیکروسافٹ کو آئی بی ایم کی ضرورت بھی نہیں رہی اور وہ او ایس2 کو یتیم چھوڑ گیا۔ آئی بی ایم اس آپریٹنگ سسٹم کو استعمال کرتا رہا یہاں تک کہ 2006ء میں اس کی باضابطہ ''موت‘‘ کا اعلان کردیا گیا۔''ہمارے جاری کردہ سافٹ ویئر میں کوئی بگز نہیں، کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد کو انہیں فکس کرنے کی ضرورت پڑے‘‘۔ گیٹس نے یہ بات 1995ء میں فوکس میگزین میں کہی تھی۔اپنی 1995ء کی کتاب ''دی روڈ اہیڈ‘‘ میں بل گیٹس نے اپنی سب سے مشہور غلطیاں کیں: انہوں نے لکھا انٹرنیٹ ایک انوکھی چیز تھا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ بہتر سے بہترین کی جانب ہماری رہنمائی کرے گا ''آج کا انٹرنیٹ میرے تصور والی انفارمیشن ہائی وے نہیں ہے، البتہ آپ اسے کسی ہائی وے کا آغاز سمجھتے رہیں‘‘۔ کچھ ہی عرصے میں گیٹس کواندازہ ہوگیا کہ یہ بات غلط ثابت ہو رہی ہے، اس لیے انہوں نے مائیکرو سافٹ کی مشہور ''دی انٹرنیٹ ٹائیڈل ویو‘‘ یادداشت جاری کیے اور ادارے کو اس سمت میں چلایا۔ 1996ء میں انہوں نے اپنی کتاب کا نظرثانی شدہ ایڈیشن جاری کیا جس میں انٹرنیٹ کے بارے میں کافی باتیں شامل کی گئیں۔2004ء میں گیٹس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ''ای میل سپیم دو سالوں میں ماضی کی چیز بن جائے گی‘‘۔آج 20 سال بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ سکیورٹی کمپنی سیمنٹیک کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں بھیجی گئی تمام ای میلز کی نصف سپیم پر مشتمل تھی۔گیٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1981ء میں کہا تھاکہ ''640 کے کمپیوٹر میموری کسی بھی شخص کیلئے کافی ہوگی‘‘۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر یہ بات واقعی وہ چھپانا چاہتے ہوں گے کیونکہ اب عام صارف سینکڑوں گیگابائٹس تک پہنچ گیا ہے۔ 1996ء میں ایک انٹرویو میں گیٹس نے کہا تھا کہ میں نے بہت ساری بے وقوفانہ اور غلط باتیں کی ہوں گی لیکن یہ بات مکمل طور پر غلط منسوب کی گئی ہے، کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ کبھی کوئی شخص یہ بات نہیں کہے گا کہ ایک مخصوص میموری مقدار ہمیشہ کیلئے کافی ہوگی‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

فرٹیلائزر کمپنی میں دھماکہ17 اپریل، 2013 کو امریکہ کی ریاست ویسٹ، ٹیکساس میں ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی کے اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن کی سہولت میں ایک امونیم نائٹریٹ دھماکہ ہوا ۔دھماکے کے فوراً بعدریسکیو کیلئے اقدامات شروع کر دئیے گے لیکن اسی دوران پندرہ افراد ہلاک، 160 سے زائد زخمی اور 150 سے زائد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔حادثے کے بعد تحقیقاتی ٹیموں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکہ اسٹوریج میں موجود امونیم نائٹریٹ کہ وجہ سے ہی ہوا۔ اس کے بعد 11 مئی 2016 کو، بیورو آف الکحل، ٹوبیکو، آتشیں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد نے کہا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔کمبوڈیا میں خانہ جنگیکمبوڈیا کی خانہ جنگی کمیونسٹ اور حمیر روج کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔اس جنگ کو محققین نے کمبوڈین قتل عام بھی کہا ہے،اکثر مورخین کا ماننا ہے کہ یہ ہٹلر کے کئے گئے قتل عام سے زیادہ بھیانک اور خطرناک تھا۔ خمیر روج کو شمالی ویتنام اور ویت کانگ کی بھی حمایت حاصل تھی۔یہ جنگ دونوں گروہوں کے درمیان لڑی گئی جس میں لاکھوں بے گناہ افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ اکتوبر 1970ء کے بعد اس میں شدت آتی گئی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد آخر کا ر آ ج کے دن 1975ء میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔لینا قتل عاملینا قتل عام یا لینا پھانسی سے مراد 17 اپریل 1912ء میں شمالی سائبیریا میں دریائے لینا کے قریب ہڑتال پر بیٹھے گولڈ فیلڈ کے کارکنوں پر فائرنگ ہے۔گولڈ فیلڈ کے کارکنان اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج تھے جب حکومتی حکام کی جانب سے ان پر گولیوں کی برسات کر دی گئی۔اس کے قبل ہڑتالی کارکنان کو کہا گیا کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں لیکن ہڑتالی کمیٹی نے حکام کی بات ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں ہڑتالی کمیٹی کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی وجہ سے بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا،حالات کو بے قابو ہوتا دیکھ کر امپیریل روسی فوج کے سپاہیوں نے ہجوم پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں سیکٹروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقع نے روس میں انقلابی آگ کو بہت ہوا دی۔فرانسیسی افواج کاشام سے انخلاء17اپریل کو شام میں بطور قومی دن منایا جاتا ہے۔اسے انخلا کا دن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 1941ء میں شام کی مکمل آزادی کے بعد17اپریل1946ء کو شام سے آخری فرانسیسی فوجی کے انخلاء اور فرانسیسی مینڈیت کے خاتمے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ کو کئی نئی قوموں میں تقسیم کیا گیا، جس سے جدید عرب دنیا اور جمہوریہ ترکی وجود میں آئے۔ 1916 میں فرانس، برطانیہ اور روس کے درمیان سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد، لیگ آف نیشنز نے 1923 میں فرانس کو موجودہ شام اور لبنان پر مینڈیٹ دیا۔ 

انسانی آنکھ کی پتلی

انسانی آنکھ کی پتلی

دور ِ جدید میں سائنس کی ترقی جہاں انسانی زندگی کیلئے دیگر بہت سی آسانیاں پیدا کر رہی ہے، وہاں صحت کے شعبے میں بھی کئی قابل قدر جدتیں ہوئی ہیں اور کئی ایسی تحقیقات جاری ہیں جن کی کامیابی انسانی اعضاء کی کارکردگی میں انقلابی تبدیلی لانے کا سبب بنے گی۔ آنکھ ہی کولے لیں، جو انسانی جسم کا ایک حساس ترین عضو ہے مگر کچھ جدید تحقیقات کی مدد سے ہماری آنکھ کی کارکردگی میں نمایاں بہتری کا امکان نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں آسڑیلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز اور امریکہ کی شہرہ آفاق سٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات قابل ذکر ہیں جن سے انسانی بینائی میں انقلابی تبدیلی کا امکان ہے۔نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے سائنسدان ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کی مدد سے انسانی آنکھ کے ریٹینا (پردۂ چشم) میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکے گا۔''نیورو پروستھیٹکس‘‘ (Neuro prosthetics)دنیا بھر میں ایک ابھرتا ہوا سائنسی میدان ہے، جس میں ایسے آلات کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے جو اعصاب سے منسلک ہو کر غیر فعال انسانی اعضا ء کو دوبارہ فعال کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال ''کوکلیئر امپلانٹ‘‘(cochlear implant) ہے جسے عشروں سے سماعت کی بحالی کیلئے کان میں نصب کیا جا رہا ہے۔ اسی تصور سے متاثر ہو کر یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے محققین ایسے آلات کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جن کی مدد سے نابینا یا عمر رسیدہ افراد کی بصارت کو بحال کیا جا سکے گا، تاہم آنکھ کی ساخت اور حساسیت کے باعث اس عمل میں کئی پیچیدگیاں حائل تھیں۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنسدان ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے ان مسائل کا حل سولر پینل کی صورت میں نکالا ہے۔ اس تحقیق سے امید پیدا کی جارہی ہے کہ جلد ہی نابینا اور معمر افراد کی بصارت کو بحال کرنا ممکن ہو جائے گا۔ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے اس تحقیق کے بارے جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انسانی آنکھ کے ریٹینا یا پردۂ چشم میں کچھ خاص سیل ہوتے ہیں جنہیں ''فوٹو ریسیپٹرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ '' فوٹو ریسپیٹرز‘‘ بیرونی ماحول سے آنکھ میں پڑنے والی روشنی کو سگنلز میں تبدیل کر کے دماغ تک بھیجتے ہیں۔ڈاکٹر رؤمر کے مطابق ان ہی ''ریسیپٹرز‘‘ کی مدد سے ہم دن اور رات میں مختلف رنگوں یا اندھیرے کا احساس کرتے ہیں۔ بصارت کے زیادہ تر مسائل جیسا کہ عمر کے ساتھ بینائی کم ہونا وغیرہ ان فوٹو ریسیپٹرز میں خرابیوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کان میں سماعت کیلئے لگائے جانے والے آلے کی سرجری'' کوکلیئر امپلانٹ‘‘ کئی عشروں سے کی جا رہی ہے، اسی طرز پر آنکھ میں خراب فوٹو ریسیپٹرز کو فعال کرنے کیلئے بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے پر سائنسدان ایک طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے کا ایک قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ ریٹینا میں وولٹیج پلس بنانے کیلئے الیکٹروڈز استعمال کیے جائیں، لیکن اس کیلئے آنکھ میں وائرنگ کرنا ہو گی، جو ایک انتہائی پیچیدہ سرجری ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سولر پینل آنکھ کی پتلی کے ساتھ نصب کیے جائیں تو یہ سورج کی روشنی کو الیکٹرک پَلس میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ پلسز دماغ تک پہنچ کر وہاں ایسا سگنل پیدا کرتی ہیں جس سے بصارت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے سولر پینلز پورٹیبل ہیں اور آنکھ میں ان کو لگانے کیلئے کیبلز یا وائرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس تکنیک پر دنیا بھر میں کئی سائنسدان کام کر رہے ہیں مگر زیادہ تر محققین نے اپنے تجربات کیلئے سیلیکون سے بنے آلات استعمال کیے ہیں جبکہ ان کی توجہ کا مرکز دیگر سیمی کنڈکٹر مرکبات جیسے گیلیئم آرسینائڈ اور گیلیئم انڈیم فاسفائیڈ پر ہے، جن کی خصوصیات کو باآسانی اور حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے محقق ڈاکٹر رؤمر بتاتے ہیں کہ یہ مرکبات اپنی افادیت اور سستے ہونے کے باعث سولر پینل انڈسٹریز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق دماغ میں نیورونز کو متحرک کرنے کیلئے زیادہ وولٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ گیلیئم آرسینائڈ کے تین سولر سیلز سے اتنا وولٹیج پیدا کیا جاسکتا ہے جو دماغ تک سگنل یا پلس پہنچا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ان کی ٹیم نے لیبارٹری میں دو سولر سیلز کو تقریبا ایک مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر ایک دوسرے کے اوپر لگایا ہے جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کا مزیش کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں انہیں بصارت کیلئے درکار پکسل سائز میں لانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی ان سولر پینلز کو باحفاظت الگ کرنے کیلئے مناسب تکنیک بھی استعمال کرنی ہو گی۔ڈاکٹر رؤمر کہتے ہیں کہ جب ان کی ٹیم دو سولر سیلز کے ساتھ ان تمام مراحل کو کامیابی سے عبور کر لے گی تو اس کے بعد پھر تین سولر سیلز جوڑنے پر کام کیا جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جانوروں پر مرحلہ وار ٹیسٹنگ کے بعد جب یہ ڈیوائس انسانوں کیلئے دستیاب ہو گی تو اس کا ممکنہ سائز دو مربع ملی میٹر تک ہو گا۔ اس سے قبل امریکہ میں بھی سائنسدانوں نے ایک ایسی مصنوعی آنکھ تیار کی ہے جو سولر پینل کی طرح روشنی سے چارج ہوتی ہے۔ سائنسدان پہلے بھی مصنوعی یا مشینی آنکھ تیار کر چکے ہیں مگر انہیں بیٹری سے چارج کرنا پڑتا ہے۔اس مصنوعی آنکھ میں ریٹینا کو ٹرانسپلانٹ کر کے مریض کی قوتِ بصارت کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی سٹینفوڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی تیار کردہ اس ''بائیونک آئی‘‘ کے بارے میں تحقیق سائنسی جریدے ''نیچر فوٹونکس‘‘ میں رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اس آنکھ میں خصوصی شیشوں کی جوڑی کی مدد سے انفراریڈ شعاعوں جیسی روشنی کو آنکھوں میں بھیجا جاتا ہے جس سے ٹرانسپلانٹ کیے گئے ریٹینا کو توانائی ملتی ہے اور وہ ایسی معلومات مہیا کرتا ہے جن سے مریض دیکھ سکتا ہے۔ اکثر لوگوں کی آنکھوں میں بڑھاپے سے ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن سے وہ خلیے مر جاتے ہیں جو کہ آنکھ کے اندر روشنی کو وصول کرتے ہیں۔ آگے چل کر یہی علامات اندھے پن میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔تاہم اس مصنوعی ریٹینا میں آنکھوں کے پیچھے کی وریدیں مرتعش رہتی ہیں جن سے کئی بار آنکھوں کے مریضوں کو دیکھنے میں مدد ملتی ہے ۔سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے مطابق اس طریقہ میں ٹرانسپلانٹڈ ریٹینا سولر پینل کی طرح کام کرتا ہے جسے آنکھ کے پیچھے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو کیمرے سے منسلک شیشوں کا ایک جوڑا آنکھ کے سامنے ہونے والی تمام چیزوں کو ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں انفراریڈ کے تقریباً برابر شعاؤں میں بدل کر ریٹینا کی جانب بھیجتا ہے۔اس مصنوعی ریٹینا کا ابھی انسانوں پر تجربہ نہیں کیا گیا ہے مگر چوہوں پر اس کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ 

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

''جب بھی میں کتاب کھولتا ہوں فوراً سستی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا بدن تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے‘‘۔ اکثر طالب علم اس بات کی شکایت کرتے ہیں اور ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس اس کے مداوے کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں!علاج اس کا بھی کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں......وجوہاتموقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگائو اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ اس سے رتی بھر مطمئن نہ ہو۔اس کے علاوہ موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں مثلاً ذیابیطس وغیرہ میں بھی بندہ ہر وقت بہت سستی محسوس کرتا ہے اور سویا سویا رہتا ہے۔ نوجوانوں میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں ان کی پسند کا کام نہ ملے۔ انہیں ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جن میں ان کی ذرا دلچسپی نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے اپنا کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افراتفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں، ان میں اس کی خاصی شکایت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت بندہ سست اور پژمردہ ہو تا ہے اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی نیند آ جاتی ہے۔علاج اور بچائوجو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل باتوں پہ عمل کریں۔ اس سے اس طرح کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔(1)۔ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کیلئے تازہ ہوا، مناسب آرام، باقاعدہ ورزش وغیرہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسم صحت مند ہوگا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور آپ جو کام کریں گے آپ کا ذہن آپ کا پورا ساتھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے مندرجہ بالا امور کا خیال رکھا جائے۔ ان میں کوئی چیز کم ہے تو اس کمی کو پورا کر نے کی کوشش کریں۔(2)۔روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ جو اپنا کام باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ بہت کم پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدگی کو زندگی کا شعار بنائیں۔ جو کام آج کرنا ہے اسے آج ہی کریں۔ اس سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوں گے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنیں گی اور کبھی بھی پڑھائی کرتے وقت اونگھ یا نیند آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔(3)۔بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ''سٹڈی فوبیا‘‘ ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی میں لگ جائیں۔ انشاء اللہ کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوگا۔ (4)۔ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی بھی آپ بہت زیادہ پریشانی اور ذہنی دبائو کا شکار ہوں تو اس دوران ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنے آپ کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کیلئے آرام کریں، باہر گھومیں پھریں۔ چائے کا ایک کپ نوش کریں اور اس کے بعد جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر Relax کریں اور اب ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف لگیں۔(5)۔بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کیلئے بعض دوائوں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اصل میں تمام دوائیں کیمیکل اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں اور جب یہ جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جسم پر کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور چھوڑتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز بہت ضروری ہے۔(6)۔اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں اور فکر و پریشانی کی صورت میں زیادہ کھا یا پی کر سکون اور فرار ڈھونڈتے ہیں اور یوں ہر وقت سسترہتے ہیں اور اونگھتے رہتے ہیں۔(7)۔امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم اپنی خوراک کو صحیح رکھیں۔ زیادہ چٹ پٹے اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس سے آپ تندرست اور توانا اور فریش رہیں گے اور اونگھ یا نیند کبھی تنگ نہیں کرے گی۔٭...٭...٭ 

آج کا دن

آج کا دن

اپالو10کی لانچنگ16 اپریل 1972ء کو امریکی خلائی مشن ''اپالو10‘‘ اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ یہ چاند پر اترنے والا پانچواں مشن تھا۔ ''اپالو‘‘ ناسا کا ایک خلائی پروگرام تھا جس میں متعدد خلائی جہاز چاند پر بھیجے گئے۔ اس مشن کا مقصد چاند کی سطح پر لمبے عرصے کیلئے قیام کرنا،سائنسی معلومات اکٹھی کرنا،لونر کا استعمال کرنا اور تصاویر لینا شامل تھا۔اپالو کے ذریعے ماہرین نے چاند پر ایک ایسی جگہ کوتلاش کیاجس کے متعلق کہا گیا کہ یہاں آتش فشاں پھٹا ہے ۔لبنان پراسرائیلی حملہ1996ء میں آج کے روز اسرائیل نے ہیلی کاپٹروں سے لبنان پر میزائل فائر کئے، جس کے نتیجے میں متعدد لبنانی شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے اسرائیل کی حدود سے 8کلومیٹر دور اس وقت ایک ایمبولینس پر میزائل داغا جب وہ اقوام متحدہ کی ایک چوکی سے گزر رہی تھی۔ اس گاڑی میں 13 افراد سوار تھے۔ یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ''آپریشن گریپس آف ریتھ‘‘ کے نفاذ کے اعلان کے فوراً بعد کیا گیا ۔باگا کا قتل عامباگا کا قتل عام 16 اپریل 2013ء کو بورنو ریاست کے گاؤں باگا، نائیجیریا سے شروع ہوا۔ اس قتل عام میں 200 سے زیادہ شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کروڑوں مالیت کی املاک نذر آتش کر دی گئیں۔ تقریباً 2 ہزار سے زائد گھر اور کاروباری مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ مہاجرین، شہری حکام اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نائیجیریا کی فوج پر قتل عام کا الزام لگایا۔ فوجی حکام نے باغی گروپ بوکو حرام کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔ایکواڈور میں زلزلہ2016ء میں آج کے دن ایکواڈور میں شدید زلزلہ آیا۔اس زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی، یہ ایکواڈور میں آنے والے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھا۔جن علاقوں میں زلزلے کا مرکز تھا وہاں ہلاکتوں کی تعداد 75فیصد سے زیادہ تھی۔مانتا کا مرکزی تجارتی شاپنگ ڈسٹرکٹ'' تارکی‘‘ سمیت متعدد عمارتیں گر تباہ ہو گئیں۔