قائداعظم محمد علی جناح , نیلسن منڈیلا کے بھی ہیرو ... !
یہ 1896ء کی بات ہے،لندن سے وکیل بن کر آنے والے مسلم نوجوان،محمد علی جناح بمبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے لگے۔تب وہ بمبئی میں پہلے مسلمان وکیل تھے۔جناح صاحب نے انگلستان میں تعلیم و تربیت پائی تھی اور وہ انگریزوں کی خوبیوں کے معترف تھے،مگر اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ بہت سے دیگر مغرب پروردہ ہندوستانیوں کی طرح انگریز کے سامنے بچھ بچھ جاتے بلکہ جب بھی اصول و قانون کا معاملہ ہوتا،تو جناح طاقتور سے طاقتور انگریز کے منہ پہ مردانہ وار سچ بولتے، جو بڑی دلیری کی بات ہے…کیونکہ تب انگریز آقا تھا اور ہندوستانی ان کے غلام!دراصل مسلمان ہونے کے ناتے جناح صاحب کو اس شرعی حکم کا علم تھا کہ ایک انسان دوسرے پر صرف تقّوی کے باعث ہی برتری رکھتا ہے… رنگ،نسل،امارت و غربت،علم و جہالت وغیرہ کی تقسیم ثانوی ہے۔اسی لیے وہ شعور سنبھالتے ہی باتقوی بن گئے۔جناح صاحب چار سال انگلستان رہے،متعصب انگریز مورخین سر توڑ کوشش کے باوجود وہاں جنم لینے والا ایک بھی ایسا واقعہ تلاش نہ کرسکے ،جو اُن کا بلند و بالا کردار داغدار کر دیتا۔لندن میں دوران قیام جناح صاحب جان گئے کہ خصوصاً برطانوی حکمران طبقہ تعصب کے باعث ہندوستانیوں سے امتیاز برتتا اور نفرت کرتا ہے۔اس حقیقت نے انھیں برطانوی حکومت کا مخالف بنا دیاچناں چہ اس تمنا نے جنم لیا کہ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا جائے، جو ہندوستانیوں کا استحصال کر رہے تھے۔تاہم جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے جناح صاحب نے بہت سے ہندوستانی رہنمائوں کے برعکس عدم ِتشدد کی راہ اپنائی…وہ اصولوں کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہی انگریزوں کو آئینی،قانونی و جمہوری انداز میں چت کرنا چاہتے تھے،مگر فتح اسی وقت ملتی جب تمام ہندوستانی رنگ،نسل،مذہب،ذات پات وغیرہ کی تقسیم سے بالاتر ہو کے متحد ہو جاتے۔سو ہم دیکھتے ہیں کہ جناح صاحب برطانیہ ہی میں تھے کہ ہندوستانیوں کو متحد کرنے کی سعی کرنے لگے۔1892ء کے برطانوی عام انتخابات میںلندن کے علاقہ فنس بری سے ایک ہندوستانی پارسی رہنما،دادا بھائی نوروجی نے بھی حصہ لیا اور کامیاب ہوئے ۔جناح صاحب ان کے سیکریٹری بن گئے اور سیاسی و معاشرتی سرگرمیوں میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔بعد ازاں وہ کانگریس میں شامل ہو گئے ،جو تب ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔جناح صاحب نے سیاست اور وکالت،دونوں جگہ دو حکمت عملیاں اختیار کیں…قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انگریز کا مقابلہ اور ہندوستانیوں کو متحد کرنا!چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں جناح صاحب نے سبھی ہندوستانیوں خصوصاً ہندوئوں اور مسلمانوں کے مابین اتحاد کرانے کی ازحد کوششیں کیں۔حتی کہ گھوکلے جیسے غیر متنازع رہنما نے انھیں ’’ہندومسلم اتحاد کے سفیر‘‘کا خطاب دے ڈالا۔یہ ہندومسلم اتحاد کو جنم دینے کا جذبہ ہی تھا کہ جناح صاحب نے کوئی فیس لیے بغیر 1908ء میں مشہور قوم پرست ہندو رہنما،بال گنگا دھرتلک کا مقدمہ لڑا۔اس پہ غداری کا کیس چل رہا تھا۔یہ جناح صاحب کے کیرئر کا واحد مقدمہ ہے جس میں انھوں نے ایک پائی فیس نہ لی۔1909ء میں برطانوی حکومت نے ’’مہربانی‘‘ فرماتے ہوئے ،ہندوستان کی قومی اسمبلی(وفاقی لیجسلیٹیو کونسل)میں ہندوستانی رہنمائوں کو بھی نشستیں دے ڈالیں۔تب بمبئی کی مسلم نشست سے جناح صاحب بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر اس زمانے کی ہندوستانی قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔انھوں نے25جنوری1910ء کو حلف اٹھایا۔قومی اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں جناح صاحب نے انتہائی سخت الفاظ میں جنوبی افریقن حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، جو ہندوستانیوں اور سیاہ فاموں پہ ستم ڈھا رہی تھی۔یہ تنقید اتنی کڑی تھی کہ انگریز حکومت کا سربراہ ،لارڈ منٹو تلملا و جھنجھلا گیا۔وہ ہندوستانیوں کو اپنا ماتحت سمجھتا تھا،چناں چہ ایک تابع کے منہ سے سخت باتیں سن کر اسے دھچکا لگا۔لارڈ منٹو نے جناح صاحب کی تقریر درمیان میں روکتے اور تلملاتے ہوئے کہا: ’’آپ سخت اور ظالمانہ (Harsh and Cruel)الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔‘‘جناح صاحب بُردباری سے بولے’’جناب!میں تو اس سے بھی زیادہ سخت زبان استعمال کرنا چاہتا تھا،مگر مجھے آئین و قانون کا پاس ہے اور میں ان سے ایک انچ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہونا چاہتا۔تمام ہندوستانی متفق ہیں کہ جنوبی افریقا میں عوام کے ساتھ بے رحم سلوک ہو رہا ہے‘‘۔منڈیلا نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ (1962ء تا 1990ء )جیلوں میں گذارا۔ اس 28 سالہ اسیری کے دوران منڈیلا کا محبوب مشغلہ کتابیں پڑھنا تھا۔تاریخ و مذاہب سے متعلق کئی کتب ان کے زیر مطالعہ رہیں۔انہی کتب کے ذریعے وہ اسلام اور قائداعظم سے آشنا ہوئے۔ انگریز استعمار کے خلاف قائداعظم کی بے مثال جدوجہد نے نوجوان منڈیلا کے فکر وعمل پہ گہرے نقوش مرتب کیے جو اب خود اپنے سفید فام آقائوں سے نبردآزما تھے۔اس امر کا ثبوت 1990ء میں سامنے آیا۔فروری1990ء میں جب منڈیلا کو آزادی نصیب ہوئی،تو تب رفعت مہدی زمبابوے میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے۔مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت نے منڈیلا کی رہائی پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے ،ان کی جماعت، افریقن نیشنل کانگریس کو معقول رقم کا چیک بھجوایا۔رفعت صاحب کی خواہش تھی کہ وہ چیک منڈیلا کوخود پیش کریں،مگر اس زمانے میں منڈیلا سے ملاقات کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھاکیونکہ ہر کوئی ان سے ملنا یا اپنے ہاں بلوانا چاہتا تھا۔بہرحال رفعت صاحب نے ملاقات کا پیغام بھجوا دیا۔ان کی خوش قسمتی کہ مارچ 1990ء میں ہرارے یونیورسٹی نے منڈیلا کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کے لیے خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔اس میں پاکستانی ہائی کمشنر بھی شریک ہوئے۔جب تقریب اختتام پذیر ہوئی ،تو رفعت صاحب کو یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ منڈیلا انھیں ڈائس پہ بلا رہے ہیں۔پاکستانی ہائی کمشنر کو اس بلاوے کی قطعاً توقع نہ تھی کیونکہ وہاں عالمی طاقتوں کے سفیر بھی آئے ہوئے تھے۔منڈیلا چھڑی کا سہارا لیے کرسی پہ براجمان تھے۔قریب ہی ان کی بیگم ،ونی استادہ تھیں۔ اٹھائیس سالہ اسیری نے منڈیلا کے اعصاب کمزور کر ڈالے تھے۔بیگم ونی سے رفعت صاحب کو پتا چلا کہ ملاقات کا یہی وقت میسر ہے۔اگلے دن صبح دس بجے منڈیلا نے واپس چلے جانا تھا،مگر پاکستانی نمائندے تنہائی میںملاقات چاہتے تھے،سو اس سلسلے میں کچھ دیر منڈیلا کے سیکرٹری اور ونی سے گفتگو ہوتی رہی۔رفعت صاحب کا ارادہ تھا کہ وہ جنوبی افریقا جا کر مل لیں۔اچانک منڈیلا نے درمیان میں دخل دیا جو خاموش بیٹھے ساری گفتگو سن رہے تھے۔انھوں نے سیکرٹری سے پوچھا:’’صبح میری پہلی ملاقات کب ہے؟‘‘بتایا گیا کہ سات بجے!تب منڈیلا نے پاکستانی ہائی کمشنر سے دریافت کیا: ’’آپ صبح چھ بجے آ سکتے ہیں؟‘‘رفعت صاحب نے فوراً ہامی بھر لی۔یوں اگلی صبح خاصے انوکھے وقت پہ دونوں کی ملاقات انجام پائی۔کمزوری اور تھکن کا شکار نیلسن منڈیلا کو کیا پڑی تھی کہ وہ صبح سویرے ملاقات کرتے؟ان جیسے لوگ تو اس وقت اپنی روح کی غذا کا بندبست کرتے ہیں، مگر وہ پاکستانی ہائی کمشنر سے خود ملنا چاہتے تھے…کیونکہ ان کاتعلق منڈیلا کے ایک ہیرو، قائداعظم محمد علی جناح کے دیس سے تھا۔قائداعظم سے ان کی عقیدت و الفت کا مظاہرہ آنے والے دنوں میں ہوا۔اس پہلی میٹنگ کے بعد مختلف مواقع پر دونوں کے مابین آٹھ ملاقاتیں ہوئیں اور وہ خاصے قریب آ گئے۔ایک بار انھوں نے پاکستانی سفیر سے پوچھا:’’آپ جانتے ہیں، میرے ایک ہیرو کون ہیں؟‘‘رفعت صاحب گویا ہوئے:’’ظلم کے خلاف آپ کی جدوجہد سب کے لیے قابل تقلید ہے۔ہم اس سے جوش و ولولہ پاتے ہیں،لیکن میں نہیں جانتا،آپ کے ہیرو کون ہیں۔‘‘منڈیلا ایک لحظہ توقف کیے بغیر بولے:’’جناح میرے ہیرو ہیں۔مجھ سے پوچھو کہ کیوں؟دراصل اپنی جدوجہد کے دوران میں ان سے بھی فکری وروحانی رہنمائی (انسپائریشن)پاتا رہا۔‘‘قائداعظم اور پاکستانیوں سے ان کی محبت کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ رہائی کے اگلے ہی سال ماہ اکتوبر میں منڈیلا پاکستان چلے آئے۔پاکستانی حکومت کا خیال تھا کہ وہ نیروبی اور دبئی کے راستے اسلام آباد پہنچ جائیں،لیکن لیجنڈری جنوبی افریقن رہنما کے جواب نے سبھی پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا: ’’میں اپنے ہیرو کو خراج عقیدت پیش کیے بغیر پاکستان میں کیونکر داخل ہو سکتا ہوں؟ ‘‘ چناں چہ منڈیلا کے پہلے پاکستانی دورے کا پہلا پڑائو مولدِ قائد،عروس البلاد کراچی بنا۔ہوائی اڈے پہ قدم دھرتے ہی انھیں مزار ِقائد لے جایا گیا۔وہ پھر قائد کے گھر بھی گئے اور عظیم مسلم رہنما کی داستان ِحیات اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہے۔انھوں نے مہمانان گرامی کی کتاب میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا: ’’علی جناح ان تمام لوگوں کے لیے انسپائریشن کی حیثیت رکھتے ہیں جو نسلی و گروہی تعصبات کے خلاف نبردآزما ہیں۔‘‘اسی طرح ایک موقع پہ اپنی جماعت،افریقن نیشنل کانگریس سے خطاب کے دوران بھی منڈیلا نے قائداعظم کا ذکر خیر ان الفاظ میں کیا:’’علی جناح اور گاندھی اپارتھیڈ(سفید فام مظالم)کے خلاف ہماری تحریک میں انسپائریشن کا منبع رہے ہیں۔‘‘ہم پاکستانیوں خصوصاً نئی نسل کو اپنے قائد پہ ناز ہونا چاہیے جن کے بیش بہا کارناموں اور جدوجہد زندگی سے پوری دنیا میں ظلم و جبر کے خلاف لڑنے والے رہنمائی و ولولہ پاتے ہیں…وہ قائداعظم جن کی تعریف میں مخالفین بھی رطب اللسان رہے۔گاندھی جی نے ایک بار اپنے سوانح نگار،لوئیس فشر کو بتایا:’’جناح متقّی (Incorruptible)ہے اور بڑا دلیر!‘‘یہ تیر اثر مختصر جملہ قائداعظم کی مکمل شخصیت و کردار ہمارے سامنے لے آتا ہے۔٭…٭…٭