852ھ، خلیفہ عبدالرحمان دوئم کا دور تھا۔ جب خلیفہ عبدالرحمان نے اپنی سلطنت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے باصلاحیت اور ہنر مند افراد کو اپنی سلطنت میں بہترین جوہر دکھانے کی دعوت دی۔ ان گراں قدر افراد میں عباس ابن فرناس بھی شامل تھے۔ اسی مجمعے میں ایک شخص ارمن فرمن کا بڑا ذکر تھا جس نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ اس نے پرندوں کی مانند اڑنے کی صلاحیت حاصل کررکھی ہے۔ارمن نے اپنے دعوے کی تصدیق کیلئے ایک بھرے مجمعے کے سامنے اڑنے کا دعویٰ کیا اور یوں ایک دن کپڑے سے بنے چیل کے پروں سے مشابہ پروں کے ساتھ اس نے ایک بلند عمارت سے اڑنے کی کوشش کی۔ وہ بہت پراعتماد تھا لیکن پہلی ہی کوشش کے دوران وہ زمین پر آن گرا۔ابتدائی طور پر اسے زخم آئے لیکن کچھ عرصہ بعد یہ کم از کم چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا۔ حاضرین محفل میں ایک شخص عباس ابن فرناس بھی تھے جو بڑے انہماک سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ان کے اندر پرندوں کی مانند اڑان بھرنے کی ایک نئی خواہش نے جنم لیا تو انہوں نے اٹھتے بیٹھتے پرندوں کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا۔کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا جب یہ پرندوں کی حرکات و سکنات پر نظریں جمائے نہ ہوتے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ عباس ابن فرناس کی یہ تحقیق 23 برس تک جاری رہی۔ اس دوران انہوں نے پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ''ایرو ڈائنا میکس‘‘ کا بغور مطالعہ کیا۔ عباس ابن فرناس کون تھے ؟عباس ابن فرناس، اندلس (مسلم سپین) کے شہر اذن رند اوندا میں 810 ء میں پیدا ہوئے۔ بنیادی طور یہ بربر نژاد تھے اور ان کا تعلق جنوبی سپین کے ضلع رونڈا سے تھاجبکہ بعدازاں یہ قرطبہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے عمر کا زیادہ حصہ بسر کیا۔ یوں تو ابن فرناس کی شناخت ایک موجد ، مہندس، طبیب، ماہر فلکیات، ماہر طبیعیات، کیمیا دان، ریاضی دان اور ایک شاعر کے طور پر ہوتی ہے لیکن یہ علم ریاضی ، طبیعیات ، پراسرار علوم اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں یکتا تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان سے ایک واقعہ منقول ہے۔ ایک دفعہ ایک تاجر بلاد مشرق سے واپسی پر مشہور مسلمان عالم خلیل ابن احمد کی ایک کتاب ہمراہ لایا۔ یاد رہے کہ خلیل ابن احمد ، بغداد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ایک عالم ، شاعر اور ماہر لسانیات ہو گزرے ہیں جن کے کارہائے نمایاں میں عربی زبان کی پہلی لغت تیار کرنا بھی شامل تھا۔یہ کتاب سپین میں بالکل نئی تھی اور لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھی۔چنانچہ لوگوں نے اسے ابن فرناس کے سپرد کیا۔ ابن فرناس اسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئے اور چند ساعتوں میں اس کی ریاضیاتی ترکیب اور مطالب انتہائی مہارت سے حاضرین کو بیان کئے، جسے سن کر لوگ ان کی ذہانت اور قابلیت پر ششدر رہ گئے۔انہوں نے پانی کی گھڑی ایجاد کی ،کرسٹل بنانے کا فارمولا انہی کی ایجاد ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تجربہ گاہ میں شیشے اور مشینوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹیریم بنا ڈالا جس میں لوگ بیٹھ کر ستاروں اور بادلوں کی حرکات اوران کی گرج چمک کا مظاہرہ بھی دیکھ سکتے تھے۔علم ہئیت اور فلکیات کے حوالے سے اندلسی مسلمان سائنس دانوں میں علی بن خلاق اندلسی اور مظفر الدین طوسی کی خدمات لائق تحسین ہیں لیکن مورخین کے مطابق ان کامیابیوں میں عباس ابن فرناس کا حصہ کلیدی حیثیت یوں رکھتا ہے کہ فرناس نے اپنے گھر میں ایک کمرہ علم ہئیت اور فلکیات کی تجربہ گاہ کے طور پر وقف کر رکھا تھا جو دور جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium ) کی بنیاد بنا۔انہوں نے اپنی ساری زندگی سائنس کی ترویج اور ترقی کیلئے وقف کئے رکھی۔اسی لئے انہیں اپنے دور کا عظیم ترین عالم اور سائنسدان کہا جاتا تھا ۔ ا ن کی ایجادات اور اختراعات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ابن فرناس ایک ذہین اور ذرخیز ذہن کے مالک انجینئر تھے۔ اگرچہ قدیم یونانیوں اور مصریوں نے بھی بہت پہلے اڑنے والی مشین بنانے کی بارہا کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔اس لحاظ سے ابن فرناس دنیا کے وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اڑایا۔بعض ازاں البیرونی اور ازر قوئیل وغیرہ نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابن فرناس کی اڑان بھرنے کی کوشش کن کن مراحل سے گزر کر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ابن فرناس نے اپنی ہر اڑان کے بعد کچھ نیا سیکھا اور ہر بار وہ اس میں تبدیلیاں کر کے اپنی غلطیاں دور کرتے رہے۔ تاریخی کتابوں میں پندھرویں صدی کے ، لیو نارڈو ڈاونچی کے طیارے کو عام طور پر دنیا کا پہلا طیارہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ابن فرناس نویں صدی عیسوی میں اپنے طیاروں کے ساتھ کامیاب پرواز کر چکے تھے۔ البتہ لیو نارڈو دا ونچی کے طیاروں کو دور جدید کے طیاروں کی ابتدائی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔ہوا بازی کی شروعات عباس ابن فرناس نے اپنی زندگی کی پہلی باقاعدہ اڑان کا آغاز 852 عیسوی میں ایک بھرے مجمعے کے سامنے کیا تھا۔اپنی پہلی پرواز میں انہوں نے خود کو ایک لمبے کوٹ میں لپیٹ کر لکڑی سے بنائے گئے ایک تابوت نما ڈھانچے میں بند کر لیا۔ باہر کی جانب دونوں بازوں کو پھیلا کر اس نے ان سے پروں کا کام لیا کیونکہ اس کے مشاہدے کے مطابق پرندے بھی ایسے ہی اڑان بھرا کرتے ہیں۔یہ بہت پر اعتماد اور پر امید تھے۔ انہوں نے قرطبہ کی سب سے بڑی مسجد کے مینار پر چڑھ کر ہوا میں اڑنے کیلئے چھلانگ لگائی۔ اپنے پہلے تجربے میں وہ ناکام رہے لیکن خوش قسمتی سے چونکہ وہ نچلی سطح پر پرواز کر رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں معمولی چوٹیں آئیں ۔کچھ عرصہ بعد اپنے پہلے تجربے کی روشنی میں انہوں نے ایک نئے طیارے کی تیاری شروع کر دی۔ اس بار انہوں نے ریشم اور عقاب کے پروں کو استعمال کیا۔پرواز کیلئے اس مرتبہ ان کا انتخاب جبل العروس پہاڑ تھا جہاں ایک جم غفیر ان کی اڑان کا منظر دیکھنے کا منتظر تھا۔اس مرتبہ ابن فرناس نے اڑان بھرنے سے پہلے پروں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ نیچے کی جانب کودگئے۔ انہوں نے دس منٹ تک فضا میں رہ کر اڑنے کا مظاہرہ کیا اور باآسانی ایک کھلے میدان میں اپنے طیارے کو اتار لیا۔ لیکن اس مرتبہ نیچے اترنے کی کوشش میں وہ کمر کے بل نیچے گر گئے ، جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ کچھ عرصہ تک صاحب فراش رہے۔ اس وقت ان کی عمر ایک اندازے کے مطابق68 سال تھی اور یوں ابن فرناس اس تجربے کے بعد باقاعدہ طور پر دنیا کے پہلے ہوا باز بن گئے۔ اس مرتبہ غور و خوض کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ پرندے نیچے اترتے وقت اپنی دم کی جڑ کا سہارا لے کر اترتے ہیں اس لئے انہیں اپنے طیارے میں دم کا اضافہ کرکے اسے محفوظ بنانا ہو گا۔ ن کی اگلی کاوش اپنے گھر تیار کردہ طیارے میں دم کا اضافہ تھا جسے سالوں بعد داونچی نے من وعن نقل کر کے طیاروں میں باقاعدہ دم کو شامل کرکے مستقبل کی لینڈ نگ کو محفوظ کر لیا۔