"AKZ" (space) message & send to 7575

زندگی صرف آج ہے

''زندگی صرف آج ہے‘‘۔ ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سن کر ہکا بکا رہ جائیں کہ ہم سب اپنی زندگی کو جئے جانے کے بجائے اسے ملتوی پہ ملتوی کیے جا رہے ہیں۔ ہم آج کو چھوڑ کر ایسے کل کے انتظار میں ہیں جسے کبھی نہیں آنا۔ آئیے! پہلے آرتھر گورڈن (Arthur Gordon) کی اپنی ذاتی کہانی‘ جس کاعنوان ''The Turn of the Tides‘‘ ہے‘ کو سنتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا آیا جب ہر چیز جامد اور بے مزہ ہو چکی تھی۔ زندگی میں اس کا جوش و جذبہ ماند پڑگیا اور بحیثیت لکھاری اسے اپنی تخلیقات فضول نظر آنے لگیں۔ یہ صورتِ حال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی تھی، بالآخر اس نے ڈاکٹر سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ جب ڈاکٹر کو طبعی طور پر اس میں کوئی نقص نظر نہ آیا تو اس نے آرتھر سے کہا کہ کیا وہ صرف ایک دن کے لیے اس کا مشورہ مانے گا؟ جب آرتھر نے رضامندی کا اظہار کیا تو ڈاکٹر نے کہا: کل کا دن تم کسی ایسی جگہ پر گزارو جہاں ایک بچے کی حیثیت سے جاتے ہوئے تم سب سے زیادہ خوش ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق وہ اپنا کھانا ساتھ لے جا سکتا تھا لیکن نہ تو اسے کسی سے بات کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کچھ پڑھنے، لکھنے یا ریڈیو وغیرہ سننے کی۔ پھر ڈاکٹر نے چار نسخے لکھے اور اسے تھماتے ہوئے کہا: پہلا نسخہ دن کے نو بجے کھولنا، دوسرا دوپہر بارہ بجے، تیسرا سہ پہر کو تین بجے اور چوتھا شام چھ بجے۔ یہ سب دیکھ کر آرتھر نے ڈاکٹر سے پوچھا ''کیا تم سنجیدہ ہو؟‘‘۔ ''جب تمہیں میری فیس کا بل ملے گا تو پھر تم مجھے غیر سنجیدہ نہیں سمجھو گے‘‘۔ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
اگلے دن آرتھر صبح سویرے ساحلِ سمندر پر چلا گیا اور ایک بینچ پر بیٹھ کر لہروں کو دیکھنے لگا۔ جب صبح کے نو بجے‘ اس نے پہلا نسخہ کھولا تو اس پر لکھا تھا ''غور سے سنو‘‘۔ اس نے سوچا کہ ڈاکٹر شاید پاگل ہوگیا ہے، وہ تین گھنٹے کیسے صرف سن سکتا ہے۔ اس کا موڈ سخت آف تھا مگر اس نے ڈاکٹر کا مشورہ ماننے کا وعدہ کیا ہوا تھا لہٰذا وہ سننے لگا۔ اس نے سمندر کی لہروں اور پرندوں کی آوازیں سننا شروع کر دیں۔ کچھ دیر کے بعد اسے کچھ دیگر آوازیں بھی سنائی دینے لگیں جو اسے پہلے سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ وہ جیسے جیسے انہیں سنتا گیا‘ اسے وہ تمام باتیں یاد آنے لگیں جو ایک بچے کی حیثیت سے اس نے سمندر سے سیکھی تھیں۔ صبر، عزت اور چیزوں کے ایک دوسرے پر انحصار کی اہمیت ۔ وہ آوازوں اور خاموشی کو سنتا رہا اور اس کے اندر ایک سکون سا پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ تین گھنٹے اسی کیفیت میں بیت گئے۔
دوپہر بارہ بجے اس نے دوسری پرچی کھولی اور اسے پڑھا۔ اس پر لکھا تھا ''ماضی میں جانے کی کو شش کرو‘‘۔ ماضی کی کس چیز کو یاد کرنے کی کوشش کروں؟ اس نے حیران ہو کر سوچا۔ شاید اپنے بچپن کو یا شاید اچھے دنوں کی یادوں کو۔ اس نے اپنے ماضی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اس نے بچپن کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بارے میں سوچا اور کوشش کی کہ ان خوشیوں کو تمام تفصیلات کے ساتھ صحیح صحیح یاد کرے اور یہ سب یاد کرنے کے دوران اسے اپنے اندر ایک گرم جوشی پیدا ہوتی محسوس ہوئی۔ اب وہ اپنے بچپن کی یادوں میں پوری طرح کھو چکا تھا۔
دوپہر تین بجے اس نے تیسری پرچی کھولی لیکن یہ پرچی ذرا مختلف تھی۔ اس پر لکھا تھا ''اپنی نیتوں کا تجزیہ کرو‘‘۔ شروع میں تو اس نے دفاعی انداز اختیار کیا۔ پھر اس نے سوچا کہ وہ زندگی میں کیا چاہتا تھا؟ ''کامیابی، اپنی حیثیت کا تسلیم کیا جانا اور تحفظ‘‘۔ اس نے یہ سب کچھ حاصل کر لیا تھا۔ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ یہ باتیں اب اس کے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ شاید اسی سوچ میں اس کی جمود شدہ صورتِ حال کا جواب بھی تھا۔ اس نے اپنی نیتوں کے بارے میں گہرائی سے سوچنا شروع کر دیا۔ اس نے اپنی پرانی خوشیوں کے بارے میں سو چنا شروع کیا اور آخرکار اس کو ایک لمحے میں جواب مل گیا۔ اس نے لکھا ''اگر بندے کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو پھر کچھ بھی صحیح نہیں ہو سکتا‘‘۔
ابھی ساحلِ سمندر پر اسے مزید کئی گھنٹے گزارنا تھے جبکہ ایک پرچی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اسے طبیعت کا بوجھل پن کم ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ اسے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اسے اپنے سوالات کا جواب مل رہا ہے، اس کی سوچ کے تلاطم میں ٹھہرائو آتا جا رہا ہے۔ اب اسے اپنے ہاتھ میں موجود چوتھی پرچی کو پڑھنے کا انتظار تھا۔ وہ گھڑی دیکھ رہا تھا اور جیسے ہی چھ بجے‘ اس نے آخری پر چی کو کھولا۔ اس آخری پرچی میں اس کے لیے ایک ہدایت درج تھی مگر اب کی بار آرتھر کو اس ہدایت کو ماننے میں کوئی تامل نہیں تھا۔ اس نے پرچی پر لکھی ہدایت پر عمل کرنے میں زیادہ دیر نہیں کی۔ پرچی پر لکھا تھا '' اپنے تفکرات کو ریت پر لکھو ‘‘۔ وہ ریت پر جھکا اور ایک ٹوٹی ہوئی سیپ کی مدد سے اس نے ریت پر کئی الفاظ لکھے، پھر وہ مڑا اور پیچھے کی طرف چلنے لگا۔ اس نے مڑ کر واپس نہیں دیکھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ابھی سمندر کی ایک لہر آئے گی اور سب کچھ اپنے ساتھ بہالے جائے گی ۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سمندر کی لہر اس کے خدشات اور تفکرات کو بھی اسی طرح بہا لے جائے گی۔ چند ہی ثانیے گزرے تھے کہ ایک لہر آئی اور ریت پر لکھا سب کچھ مٹا دیا۔ آرتھر کو لگا کہ اس کی فکریں بھی یکدم ختم ہو گئی ہیں۔ وہ اب خود کو ایک آزاد فرد محسوس کر رہا تھا۔اس کے ذہن سے بھاری بوجھ چھٹ چکا تھا۔
یہ صرف آرتھر گو رڈن کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہم سب کی بھی یہی کہانی ہے۔ ہم سب کامیابی، اپنی حیثیت کے تسلیم کیے جانے اور تحفظ کے حصول کی جنگ میں ایسے مصروف ہیں کہ جینا تک بھول چکے ہیں۔ ہم اپنے زندہ رہنے کا واحد مقصد کامیابی، تسلیم کیے جانا اور تحفظ کے علاوہ اور کچھ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ آج جو ہزاروں خوشیاں ہمارے اردگرد ہماری منتظر ہیں‘ ہم انہیں مسلسل نظر انداز اور مایوس کر رہے ہیں۔ ہم جینے کو ملتو ی پر ملتوی کیے جا رہے ہیں‘ ایک اَن دیکھے کل کے انتظار میں۔
قدیم رومی شاعر ہوریس نے پیدائشِ مسیح سے لگ بھگ تین دہائیوں قبل کہا تھا ''انسانی فطرت کا سب سے بڑا المیہ جو میں جانتا ہوں‘ یہ ہے کہ ہم سب زندہ رہنے کو ملتو ی کرتے رہتے ہیں۔ اپنی کھڑکیوں سے باہر جو گلاب کے پھول کھل رہے ہیں ہم آج ان سے لطف اندوز ہونے کے بجائے گلابوں کے کسی باغ سے متعلق خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم اس قدر احمق کیوں ہیں؟ اس قدر المناک حد تک احمق! زندگی ہر دن اور ہر لمحے میں بُنے رہنے میں ہے۔
یاد رکھیں کہ زندگی صرف آج ہے۔ ہوسکتا کہ کل کا سورج ہماری زندگی میں طلوع ہی نہ ہو۔ آپ کو اور آ پ کے رشتوں کو آپ کے آج کی ضرورت ہے۔ خدارا! انہیں مایوس مت کریں ۔ آج کے ہر لمحے میں جئیں ۔ قدیمی رومی اس حقیقت کو جان چکے تھے۔ ایک مشہور رومی قول ہے ''دن کا لطف اٹھائو‘‘۔مشہور امریکی مصنف جیکسن برائون کا کہنا ہے ''کل کے لیے سب سے بہترین تیاری یہ ہے کہ آپ آج بھرپور طریقے سے کام کریں‘‘۔معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کہا کرتا تھا: گزشتہ کل سے سیکھو، آج جیو اور آئندہ کل کے لیے امید رکھو۔ اگر زندگی میں صرف کامیابی، اپنی حیثیت کے تسلیم کیے جانے اور تحفظ ہی کی اہمیت ہوتی تو آرتھر گورڈن یہ چیزیں حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی میں خلا محسوس نہ کرتا۔ شہرت و کامیابی کے بعد اسے ایسے نہ لگتا کہ اس کی زندگی میں ہر چیز جامد اور بے مزہ ہوچکی ہے ۔ وہ ایک آئیڈیل کل کے لیے اپنے آج کو فراموش کر چکا تھااور آج میں موجود چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے مزہ کشید کرنے سے بھی قاصر تھا۔ اس لیے آج کی خوشیوں کو روٹھنے سے پہلے ہی تھام لیں اور آج کو جم کر جئیں‘ اپنے لیے اور اپنے رشتوں کے لیے کیونکہ کل نے کبھی نہیں آنا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں