نیشنل ٹیکس کمیشن کی ضرورت

پاکستان کاطبقہ ٔ اشرافیہ نہ صرف بہت ڈھٹائی سے ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیتا ہے بلکہ عام شہریوں کی طرف سے ادا کردہ ٹیکس کی رقوم اپنی پرتعیش زندگی اور غیر ملکی دوروں پر اُڑا دیتا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)ان کی گھر کی باندی کی طرح ان کی خدمت بجالاتے ہوئے غیر ملکی مالیاتی اداروں کو باور کراتا رہتا ہے کہ عام پاکستانی ٹیکس ادا نہیں کرتے ، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ، عدلیہ اور دفاعی اداروںکے افسران، کاروباری افراد ، سیاست دان، وڈیرے، جاگیردار اور تاجراپنے ذمے واجب ٹیکس ادا نہیں کرتے؛ حالانکہ ان کی آمدنی عام پاکستانی کے وہم و گمان سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ 
اس طبقے کے ہاتھوںیرغمال بنی ریاست کے مالی معاملات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ لاکھوں افراد کو، جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں‘ روز مرہ کی اشیائے ضرورت پر 17 سے19.5 فیصد تک سیلز ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ملک میں لوگ فاقہ کشی کی وجہ سے مررہے ہیں لیکن صدر ِ مملکت، وزیر ِ اعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں اور مشیروںکی سکیورٹی، ان کی پرتعیش زندگی اور ڈنر اور غیر ملکی دوروں پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف عوام کے خون کو مزید نچوڑنے کے لیے پٹرولیم اور دیگر اشیاکی قیمت میں اضافہ کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ کو بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔مثال کے طور پر پٹرولیم پر تیس سے پینتیس فیصد 
سرچارج وصول کیا جاتا ہے۔ اس کا بوجھ حتمی صارف یعنی عام شہری پر پڑتا ہے۔ ملک میں روز افزوں بڑھتی مہنگائی کی وجہ ٹیکسوں کا یہی غیر منصفانہ نظام ہے۔ اس کی وجہ سے صنعت کاری بھی متاثر ہورہی ہے کیونکہ بالواسطہ ٹیکس‘ مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے صنعت کار عالمی منڈی میں دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ ستم یہ ہے کہ عام پاکستانی استعمال کرنے والی ہر چیز پر ٹیکس ادا کرتے ہوئے بھی یہ طعنہ سنتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتا۔ بلکہ عام پاکستانی یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کس طرح اور کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں، بلکہ یوں کہہ لیں کہ ان سے زبردستی وصول کرلیا جاتا ہے۔ 
پٹرولیم کی مصنوعات پر وصول کیے جانے والے بھاری بھرکم ٹیکس کے باوجود، جو گزشتہ پندرہ سال کے دوران پندرہ ٹریلین روپے تھا، کسی حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بناکر ملک میں تیل کی کھپت کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی ، حالانکہ تیل کی درآمد ملک کی کل درآمد کا ایک تہائی ہوتا ہے۔ بھاری مقدار میں پٹرولیم مصنوعات درآمد کیے جانے کی وجہ سے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہر حکومت کو عالمی مالیاتی اداروںسے بھاری قرضے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے معیشت اور کرنسی 
پر دبائو آتا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایف بی آر کی طرف سے وصول کردہ زیادہ تر ٹیکس درآمدات پر ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے کوئی حکومت بھی غیر ضروری اشیاء کی درآمد روکنے کی خواہش نہیںرکھتی۔ قومی خزانے سے درآمدات کے لیے زر ِ مبادلہ استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ان درآمدات پر ٹیکس وصول کرکے حکمران طبقہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا ہے۔
ٹیکس کا یہ ظالمانہ نظام عوام کے لیے بہت اذیت ناک زندگی کا پیش خیمہ بنتا ہے ۔ اس کی وجہ سے امیرغریب کے درمیان تفاوت کی لکیر مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے معاشرے کو درپیش بہت سے مسائل مثلاً لاقانونیت، دہشت گردی، بدعنوانی اور ذہنی تنائو کی بڑی وجہ دولت کی یہی غیر مساوی تقسیم ہے۔ اس تقسیم کی بڑی حد تک ذمہ داری غیر منصفانہ ٹیکس کے نظام پر عائد ہوتی ہے۔ مہذب معاشروں میں بھی تمام لوگ یکساں طور پر امیر نہیںہوتے لیکن وہاں اس تفاوت کی وجہ سے پیداہونے والا احساسِ محرومی بھی نہیںہوتا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق وصو ل کیے جانے والے انکم ٹیکس کی شرح میں جی ڈی پی کے تناسب سے کمی واقع ہورہی ہے۔ 2012-13ء میںیہ صرف 2.1 فیصد تھا ،جبکہ 2011-12ء میں2.2 فیصد، 2010-11ء میں 2.4 فیصد، 2009-10ء میں 2.5 فیصد، 2008-09ء میں 2.6 فیصد، 2007-08ء میں 2.9 فیصد2006-07ء میں3.2 فیصداور 2004-2005 میں3.5 فیصد( یہ معلومات FBR Year Books 2004-05 to 2012-13 and Economic Surveys سے حاصل کی گئی ہے۔)اس کا سرسری جائزہ بھی اس حقیقت کومنکشف کردیتا ہے کہ ایف بی آر کے محصولات کا2012-13ء میں پچاسی فیصد دارومدار بالواسطہ ٹیکسوں پر تھا اور اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ رقم غریب کی رگوںسے نچوڑی گئی ۔ تاہم ہمارے اعدادوشمار کے ماہرین عوام سے یہ حقائق پوشیدہ رکھتے ہوئے انہیں اخلاقی دبائو کا شکار رکھتے ہیں کہ وہ اس ملک کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس طبقے نے اس ملک کا پچاسی فیصد بوجھ اٹھایا ہوا ہے ، غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے غربت کا شکار بھی وہی ہے اور جو طبقہ ملک کو کچھ نہیں دیتا، وہ ان کی خون پسینے کی کمائی سے عیش کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال کب تک چلے گی اور ہم کب تک غیر ملکی قرضے لینے کو اپنی معیشت کی جادوگری سمجھتے رہیںگے؟ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق 2013ء کے دوران صرف چند ہزار افراد نے ایک ملین روپے سے زائد ٹیکس ادا کیا۔ اگر کہیں ایف بی آر ارکانِ پارلیمنٹ ، جج حضرات، اعلیٰ سرکاری افسران اور دولت مند کاروباری افراد اور دیگر پیشہ ور حضرات، جیسا کہ مہنگے ڈاکٹرز، وکلا اور ماہرِ تعمیرات کی طرف سے ظاہر کردہ اثاثے عوام کے سامنے پیش کردے تو عوام دیکھیں گے کہ ان افراد نے اپنے اثاثوںکی نسبت کیا ٹیکس ادا کیا ہے ۔ ایف بی آر پریہ قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے؛ بلکہ عوام کے پاس اس سے باز پرس کرنے کا حق ہونا چاہیے کہ آخر اس کے ہاتھ ان متمول افراد تک کیوںنہیں پہنچ پاتے؟
درحقیقت ہمارے ہاں سماجی ناانصافی اور ٹیکس کا موجودہ نظام ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ اس سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ عوام میں بے چینی اور مایوسی بھی بڑھ رہی ہے۔ ملک کی بھاری رقم جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا، وہ غیر ملکی بینکوں میں جمع ہے۔ اسے کون ٹیکس کے دائرے میںلائے گا؟ اور کشکول توڑنے کی بات کرنے والے ٹیکس کا نظام کب درست کریںگے؟ جب تک ایسا نہیں ہوگا، ہم ایک ہی شیطانی چکر کا شکار رہیں گے۔ چار دن کی عارضی چاندنی کے بعد پھر مستقل اندھیری رات ہوگی۔ تاوقتیکہ مستقل اجالے کا اہتمام نہ کر لیا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں