دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حقیقت

ایک انقلابی یقین رکھتا ہے کہ وہ انسانوں، خاص طو ر پر دبے اور کچلے ہوئے لوگوں کا استیصال کرنے والے اُس نظام کوختم کر دے گا جو معاشی مساوات اور آزادی کے راستے میں رکاوٹ ڈالتاہے۔ اس کی جدوجہد کا مقصد معاشی مسائل کا خاتمہ کرتے ہوئے انسانی عظمت کو یقینی بناناہوتا ہے۔ دوسری طرف ایک دہشت گرد نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد کوئی اصلاح نہیںبلکہ تباہی اور بربادی پھیلاتے ہوئے اپنی نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے۔ وہ کسی نظام کو ختم کرکے اُس کی جگہ دوسرا نظام لانے کی بجائے معاشرے میں صرف افراتفری اور خوف پھیلاتا ہے۔ 
برطانوی راج کے دوران جب ہم محکوم تھے، تو نوآبادیادتی طاقتیں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے دیتی تھیں، تاہم مقامی آبادی کی نگاہوں میں وہ آزادی کا ہیرو ہوتا تھا۔ نوآبادیاتی دور کے بعد یہاں کے حکمرانوں نے عوام کو معاشی آزادی سے محروم رکھا ۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے ایجنٹ بن کر دولت مند ہوتے گئے جبکہ غریب عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا۔ درحقیقت جب نو آبادیاتی نظام ختم ہوا تو امیر اور غریب کے درمیان تفاوت کی لکیر زیادہ گہری دکھائی دینے لگی۔ جب دنیا کے کئی حصوں میں ایسے حکمرانوں، جو سرمایہ دارانہ نظام کے ایجنٹ تھے، کا تختہ الٹنے کے لیے تحاریک چلنا شروع ہوگئیں،تو اس کا تدارک کرنے کے لیے مذہبی دہشت گردی کا کارڈ کھیلا جانے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ القاعدہ، طالبان اورداعش دہشت گردگروہ ہیں، لیکن اُنہیں بھی استیصالی ہاتھ نے گریٹ گیم کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے تخلیق کیا تھا۔ ان کی تخلیق کا مقصد ان کی آڑ میں اُن حقیقی تحریکوں کی سرکوبی بھی تھی جو نوآبادی نظام کی باقیات کے خلاف چل رہی تھیں۔
دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی ایک حقیقت یہ بھی ہے۔ انتہاپسندی، تنگ نظری، جنونیت، رجعت پسندی اور تشددکو استعماری طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ یہ گروہ نئے عالمی نظام کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح کھیلتے ہوئے ان کا راستہ ہموار کررہے ہیں جن کے خلاف لڑنے کا تاثر دیتے ہیں۔ ان گروہوں کی کارروائیوں کی وجہ سے دنیا کے کچھ حصوں سے امن اور استحکام کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ چنانچہ جاری جنگ کی وجہ سے ہتھیاروں کی فروخت اور افراتفری کی وجہ سے منشیات کی ترسیل کا ''کاروبار‘‘ فروغ پارہا ہے۔ اس جنگ میں کوئی ایک ملک نہیں، بلکہ مجموعی طور پر انسانیت تکلیف اٹھارہی ہے۔ انسانی تاریخ میں شاید ایسا کبھی کوئی وقت نہیں آیا جب دنیا کچھ گروہوں کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہوجائے۔ تاہم آج کل ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کو مزید ہتھیار خریدنے کے لیے مجبور کررہے ہیں۔ 
اس وقت ضروری ہے کہ دنیا کے امن پسند افراد اس ایجنڈے کو سمجھیں اور دیکھیں کہ خفیہ ادارے، جیسا کہ سی آئی اے، دنیا کے اس خطے میں انتہا پسندی کو بڑھانے میں کیا کردار ادا کررہے ہیں۔ مغربی طاقتوں کی آشیرباد پر طاقت حاصل کرنے والے بہت سے نام نہاد مذہبی گروہ عوام کو مذہب کے نام پر جھانسا دے رہے ہیں۔ درحقیقت یہ انسانیت کے بدترین دشمن ہیں اور ان کا اسلام بلکہ کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اپنے غیر ملکی آقائوں سے فنڈز لے کر دنیا میں فساد پھیلارہے ہیں۔ قرآنِ پاک نے ایسے فسادیوںکے بارے میں بہت پہلے اطلاع دے دی تھی۔ارشاد ِ ربانی ہے۔۔۔'' جب اُن سے کہا جاتا کہ معاشرے میں فساد نہ پھیلائو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والوں میں سے ہیں‘‘۔ قرآن ِ پاک ان لوگوںسے خبردار کرتے ہوئے اُنہیں مفسدین قرار دیتا ہے۔ 
امریکی فورسز نے نائن الیون کے بعد ایسا جنگی جنون پیدا کر دیا کہ ''دی پرنس ‘‘ میں میکاولی کی نصیحت ۔۔۔''ایک عقلمند حکمران دشمن بناتا ہے اور پھر وہ ان کے خاتمے کے لیے جنگ کرتا ہے۔ مقصد اپنے عوام کو دبا کر رکھنا ہوتا ہے‘‘۔۔۔ کی عملی شکل دکھائی دی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خواہش ہے کہ اُن کی افواج تیل کی دولت رکھنے والے ممالک میں موجود رہیں۔ چنانچہ اُنھوں نے دشمنوں کو تخلیق کیا اور پھر اس کی سرکوبی کے لیے دنیا کو جنگ کے جنون میں دھکیل دیا۔ 
نوآبادیاتی دور کے بعد اقتدار پر فائزہونے والے حکمرانوں کی خواہش ہے کہ وہ دنیا کوکنٹرول کریں۔ اس لیے اُنھوں نے انتہا پسندوں کو تخلیق کر کے ان کے خاتمے کی آڑ میں اپنی گرفت مضبوط رکھی ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل سیاسی مقاصد رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا جانا مقصود ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ قوم پرست رہنمائوں کا تختہ الٹ کر اُن کی جگہ نام نہاد مذہبی گروہوں کو اقتدار پر فائزکردیا جائے اور پھر یہ گروہ اپنے مفاد کے لیے اپنے آقائوں کے مفاد کا تحفظ کریں۔ یقیناامریکہ دنیا میں سب سے مہیب فوجی مشین رکھتا ہے، چنانچہ اس کی ''دہشت‘‘ سب سے زیادہ ہے۔ تاہم اُس نے مذہبی انتہا پسندی کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا، اس لیے وہ اس ہتھیار کی طاقت سے بخوبی واقف ہے۔ چنانچہ کسی جماعت کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ سوویت یونین کو جہاد نے ختم کیا تھا یا موجود جہادی اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ ان کے پیچھے کھیل کچھ اور 
ہے۔ آج کل یہ ہتھیار دنیا کے ہمارے حصے میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے حکمران بھی انہی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں جن کے ہاتھ میں مذہبی انتہا پسندی کا ہتھیار ہے۔درحقیقت ہم انتہا ئی پیچیدہ صورت ِحال سے دوچار ہیں۔ 
پاکستانی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں، تشدد، کچھ افراد کا غائب ہوجانا اور پھر اُن کا امریکی جیلوں میں ملنا اور ان پر کیے جانے والے تشدد کی کھلی تشہیر کرنا بے مقصد نہیں تھا۔سی آئی اے ایک ہاتھ سے ان تخلیق شدہ افراد کو ختم کررہی تھی تو دوسرے ہاتھ سے اُن جیسے دیگر گروہوں کو تخلیق کرتے ہوئے اُنہیں فنڈز اور ہتھیار دے رہی تھی۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ عمل تھا جس نے دنیا کو چکما دیئے رکھا۔ انتہا پسندوں کو خفیہ ہاتھ سے فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں تاکہ واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ ساتھ بیجنگ کو بھی دبائو میں رکھ سکے۔ اس کی نظر بلاشبہ بلوچستان میں پائے جانے والے وسائل پر ہے۔اس لیے ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ جنگ بہت جلد ختم نہیں ہوجائے گی کیونکہ دنیا کے ہمارے خطے میں دولت مندوں اور عام شہریوں کے مالی وسائل کے درمیان فرق کو بڑھا کر دہشت گردی کا جوازپیدا کیا جاتا رہے گا۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ ایجنڈے کے مطابق ہورہا ہے۔ 
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ معاشرے میں ایسی معاشی ہموار ی پیدا کی جائے تاکہ اندھیرے کی طاقتوں کے پاس کوئی بھی جواز ختم ہوجائے۔ موجودہ جنگ جیتنے کے لیے ہمیں اس کی اصل جڑ تک پہنچنا ہوگا۔ محض کچھ سزائیں دینے سے کسی تحریک کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں