دُور کے مسلمان سہانے

کچھ چیزیںصرف بولنے سے ہی کنفرم ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو کسی سے پیار ہے اور آپ نے اسے آئی لَو یُو نہیں کہا تو سمجھ لیجئے پیار ادھورا ہے۔آئی لَو یُو کہتے ہی بظاہر آپ کا پیار کنفرم ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر آپ محبِ وطن ہیں لیکن لائوڈ سپیکر پر اس کا اعلان نہیں کرتے تو یاد رہے‘ آپ سے پہلے جس نے بھی محبِ وطن ہونے کا دعویٰ کر دیا وہی کنفرم محب وطن ہو گا۔ بول بچن کی یہ تکنیک بڑی کارآمد ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے غم میں فیس بُک پر ایک پوسٹ لگائیں اور دوستوں کے ساتھ کالی مرچوں والی چکن کڑاہی کھانے نکل جائیں‘ الحمدللہ فرض ادا ہوا۔ سوشل میڈیا پر روزانہ سینکڑوں ایسی پوسٹس نظروں سے گزرتی ہیں‘ جن میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی ہوتی ہے کہ آخر وہ روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کے لیے کیوں نہیں اٹھ کھڑے ہوتے؟ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ مسلمان اٹھ کھڑے ہونے کے بعد کیا کریں‘ برما کے ویزے لگوا لیں یا کسی تنظیم کو جوائن کر لیں؟ 
برما میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دل دہلا دینے والا ہے‘ قابل مذمت ہے۔ لیکن ان مسلمانوں کی مدد سے پہلے ہم اُن مسلمانوں کی کیوں نہ مدد کریں جو ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ روہنگیا تو بہت دور ہے‘ ہم تو اپنے کسی سیاسی مخالف کو برداشت نہیں کر پاتے۔ مسلمان ایک جسم کی مانند تو ہیں لیکن پتا نہیں ہمیں صرف اُنہی مسلمانوں کا درد کیوں محسوس ہوتا ہے جو ہماری پہنچ سے باہر ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ محلے میں کوئی غریب مسلمان ایکسیڈنٹ میں وفات پا گیا ہو‘ اور اس کے گھر کا خرچہ سارے محلے کے مسلمانوں نے اٹھا لیا ہو؟ قریب کا مسلمان ہمارے وارے میں ہی نہیں آتا۔ ہمیں تو ایسے مسلمانوں کی مدد کرنی ہے جن کی مدد ہم کر ہی نہ سکیں‘ ایک دو جذباتی جملے اور کام ختم۔ دور کے مسلمان جب مصیبت کا شکار ہوتے ہیں تو ہمارے یہاں بہت سے لوگوں کی روٹی روزی کا سامان پیدا ہو جاتا ہے۔ کیمپ لگ جاتے ہیں اور فوراً چندے کی اپیلیں شروع ہو جاتی ہیں۔ کل ایک صاحب روہنگیا مسلمانوں کے لیے چندہ مانگ رہے تھے۔ پوچھا کہ بھائی یہ پیسے روہنگیا تک پہنچیں گے کیسے؟ بُرا سا منہ بنا کر بولے ''نئیں دینے تے ناں دے...‘‘ چوک پر ایک کیمپ لگا ہوا ہے جس میں دردناک آواز میں ایک صاحب روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے چندا مانگتے رہتے ہیں۔ ایک دن میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیمپ کے اندر جھانکا تو موصوف گہری نیند سو رہے تھے‘ پاس ہی لسی کے دو بڑے گلاس خالی پڑے تھے اور مائیک کے آگے ٹیپ ریکارڈر رکھا ہوا تھا۔ یہ ٹیپ ریکارڈر ہر جگہ بولتے ہیں‘ بے تکان بولتے ہیں‘ ان کے پاس بولنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کبھی سڑکوں پر مانگنے والے بھکاریوں کے لیے درد محسوس نہیں کرتے۔ انہوں نے کبھی کسی کو خون کا عطیہ نہیں دیا ہوتا۔ ان کی جیب سے کبھی کسی غریب کا بھلا نہیں ہوتا... لیکن یہ سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں لیے پھرتے ہیں۔ آپ ان سے پوچھیں کہ بھائی ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ تو ان کا پہلا جواب یہی ہو گا کہ پاک فوج برما پر حملہ کر دے یا برما پر ایٹم بم دے مارے‘ آخر ہم نے ایٹم بم کس لیے بنایا ہے؟... اس کے بعد کی کوئی صورتحال ان کے سامنے نہیں ہوتی‘ اِنہیں ان کے مطابق عمل درکار ہے۔ وطن عزیز کے یہ خود ساختہ پالیسی میکرز دن رات اسی زعم میں رہتے ہیں کہ مومن وہی ہوتا ہے جو بے تیغ لڑتا ہے‘ درمیان کی ساری چیزیں اِن کے دماغ سے محو ہو جاتی ہیں۔ کوئی تصدیق نہیں‘ کوئی جانچ نہیں... جو لاشوں والی تصاویر نظر آئیں انہیں روہنگیا کے مسلمان قرار دے کر فیس بک پر ڈال دو۔ اس سے بڑی زیادتی روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو سکتی ہے؟ میرے خیال میں فیس بک پر موجود 90 فیصد تصاویر کی بنیاد پر اگر ہم اپنا مقدمہ عالمی عدالت میں لے کر جائیں تو پہلی پیشی میں فیصلہ آنگ سان سوچی کے حق میں ہو جائے کہ یہ تصاویر تو روہنگیا کی ہیں ہی نہیں!!!
جذباتیت سے باہر نکلئے اور سوچئے کہ شمالی کوریا دھڑلّے سے ہائیڈروجن بم کے تجربے کرتا پھر رہا ہے‘ جاپان اس کے تجربوں سے زلزلوں کا شکار ہے‘ امریکہ دانت پیس رہا ہے لیکن شمالی کوریا پر حملہ کیوں نہیں کر رہا؟ صرف اس لیے کہ ہر چیز کا حل مار دھاڑ نہیں ہوتا‘ احتجاج کے اور بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ ہم اس قابل نہیں کہ اپنے ملک میں دہشت گردوں سے بھی لڑیں‘ انڈین فوجوں کو بھی سنبھالیں اور برما میں جا کر طبلِ جنگ بھی بجا دیں۔ دُنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ ہر ملک کے اپنے اتحادی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارا جہاں دل چاہے ہم حملہ کر دیں۔ ہمارے ملک میں اگر کبھی مسیحیوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہو تو ہم عیسائی ممالک کو یہ حق دیں گے کہ وہ ہم پر حملہ کر دے؟ کبھی نہیں... آپ روہنگیا مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو اس کے کئی طریقے ہیں!
اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر جائیے‘ وہاں اپنا احتجاج ای میل کیجئے‘ سفارتی سطح پر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کیجئے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر عالمی فورم پر مسلمانوں کی نسل کشی کا یہ معاملہ مسئلہ کشمیر کی طرح اٹھائے۔ یو این او سے مطالبہ کیجئے کہ برما میں آزاد میڈیا کو جانے کی اجازت دی جائے تاکہ صورتحال کا صحیح ادراک ہو سکے... اور تب تک! اپنے ہمسائے کا دُکھ درد معلوم کیجئے‘ اپنے رشتہ داروں‘ عزیزوں کے مسائل پوچھئے‘ محلے کے لوگوں کی پریشانیاں حل کرنے میں اپنا حصہ ڈالئے‘ کسی مسلمان کو سڑک کنارے تڑپتا دیکھئے تو وقتی طور پر اُسے روہنگیا مسلمان سمجھ کر گاڑی یا موٹر سائیکل روک لیجئے اور ہسپتال پہنچائیے۔ ماں باپ‘ بیوی بچوں سے گفتگو کیجئے‘ ان کے لیے ٹائم نکالئے... یقین کیجئے‘ کئی گھرانوں میں یہ افراد روہنگیا کے مسلمانوں جیسی اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ اُس بھائی کے گھر جائیے جس سے آپ کا چند مرلے زمین کا جھگڑا ہے اور برسوں کی ناراضی ہے۔ اُس بہن کو باپ کی جائیداد میں سے حصہ دیجئے جس نے آپ کی محبت میں اپنا حصہ چھوڑ دیا تھا۔ اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہ دیجئے تاکہ وہ ہر روز نئی اُمیدیں لے کر شام تک آپ کی نظرِ کرم کے منتظر نہ رہیں۔ تصور کیجئے کہ اگر روہنگیا کے مسلمان ہمارے گھروں کے باہر جمع ہو جائیں تو ہم میں سے کتنے ہیں جو انصار بن کر اِن مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کی ہامی بھر سکتے ہیں؟ آج کل تو مساجد کو بھی رات کو تالے لگ جاتے ہیں‘ پہرے دار موجود ہوتے ہیں‘ ہم تو اپنے ہی محلے کی مسجد میں بھی کسی کو مہمان نہیں ٹھہرا سکتے۔
سو گزارش ہے کہ صرف بول دینے سے ہی اپنا درد کنفرم نہ کیجئے‘ جو لوگ خاموش ہیں اُنہیں بھی اس درد میں شریک سمجھئے۔ کچھ چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں ہوتیں‘ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں‘ فریاد کر سکتے ہیں‘ ٹھوس ذرائع سے احتجاج کر سکتے ہیں۔ شامی‘ کشمیری‘ فلسطینی اور روہنگیائی مسلمانوں کو خدا ہر ظلم سے محفوظ رکھے لیکن جاتے جاتے ایک چھوٹا سا کام کرتے ہیں‘ اپنے موبائل میں محفوظ سارے نام باری باری دیکھتے ہیں اور یاد کرتے ہیں کہ اِن میں سے کتنے لوگوں کی مشکلات ہماری وجہ سے کم ہوئیں‘ کتنے لوگوں کا دُکھ ہمارا دُکھ ہے۔ اگر یہ تعداد 10 ناموں تک بھی چلی جائے تو ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک تھپکی دیں!!!

برما میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دل دہلا دینے والا ہے‘ قابل مذمت ہے۔ لیکن ان مسلمانوں کی مدد سے پہلے ہم اُن مسلمانوں کی کیوں نہ مدد کریں جو ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ روہنگیا تو بہت دور ہے‘ ہم تو اپنے کسی سیاسی مخالف کو برداشت نہیں کر پاتے۔ مسلمان ایک جسم کی مانند تو ہیں لیکن پتا نہیں ہمیں صرف اُنہی مسلمانوں کا درد کیوں محسوس ہوتا ہے جو ہماری پہنچ سے باہر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں