بابے کی دور اندیشی

کہانی بڑی پرانی ہے لیکن کچھ اپ ڈیٹس کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ ہمارے گائوں میں ایک بابا رہتا تھا‘ پنچایت کا سربراہ تھا اور اُس کے فیصلوں کی قریب قریب تک دھوم تھی۔ پنچایت میں جو بھی فیصلہ کرتا وہ اگرچہ خود اس کی سمجھ میں بھی نہ آتا لیکن فیصلہ ایسا ہوتا کہ گائوں والے 'ہش ہش‘ کر اٹھتے۔ عموماً یہ پنچایت بابا جی کے گھر پر ہی لگتی تھی اور جو بھی کوئی مسئلہ لے کر وہاں پہنچتا‘ دو منٹ میں پنچایت لگ جاتی۔ بابے کے فیصلے اتنے شاندار ہوتے تھے کہ بیس سالوں تک یاد رکھے جاتے...!!!
ایک دفعہ گائوں کا ایک کسان علی بخش مرغی خریدنے گامے کی دکان پر پہنچا تو دیکھا کہ ڈربے میں صرف ایک ہی مرغی موجود ہے۔ علی بخش نے مرغی ذبح کروائی اور گوشت بننے تک سامنے پھٹے پر بیٹھے حجام سے بال کٹوانے چلا گیا۔ اتنے میں بابا مرغیوں والی دکان پر پہنچا اور ایک مرغی ذبح کرنے کے لیے کہا۔ گامے نے معذرت کی کہ مال ختم ہو گیا ہے ایک ہی مرغی تھی‘ وہ بھی علی بخش نے خرید لی ہے اور اب میں اُسی کا گوشت بنا رہا ہوں۔ بابے نے کچھ دیر سوچا‘ پھر فرمایا ''اِس مرغی کا گوشت مجھے دے دو جب علی بخش آئے تو اُسے کہہ دینا کہ مرغی بھاگ گئی ہے۔ گامے نے حیرت سے بابے کی طرف دیکھا اور ڈرتے ڈرتے کہا 'بابا جی مردہ مرغی بھلا کیسے بھاگ سکتی ہے علی بخش تو شور مچا دے گا۔ بابے نے اطمینان سے گامے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ''فکرکرنے کی ضرورت نہیں‘ بس تم یہی کہنا جو میں نے کہا ہے‘ علی بخش اگر زیادہ شور شرابا کرے تو اُسے کہنا کہ جائو پنچایت بلا لو‘ وہ تمہیں میرے پاس لے کر آئے گا تو میں تمہیں بچا لوں گا‘‘۔ گاما بے چارگی سے بابے کی طرف دیکھنے لگا‘ دل تو نہیں کر رہا تھا لیکن مجبور تھا‘ سامنے گائوں کی پنچایت کا سربراہ کھڑا تھا۔ بادل نخواستہ اُس نے مرغی کا گوشت بنا کر بابے کو تھما دیا۔
بابے کے جاتے ہی تھوڑی دیر بعد علی بخش کسان آ گیا اور اپنی مرغی کا گوشت مانگا۔ گامے نے ہکلاتے ہوئے کہا ''بھائی! تمہاری مرغی تو بھاگ گئی‘‘۔ علی بخش اچھل پڑا اور پوری قوت سے چلایا ''مردہ مرغی کیسے بھاگ گئی؟؟‘‘۔ حسب توقع بحث بڑھتی چلی گئی۔ آخر وہی ہوا جیسا بابے نے کہا تھا‘ علی بخش نے گامے کے خلاف پنچایت میں جانے کا اعلان کر دیا اور اُسی وقت گامے کا ہاتھ پکڑ کر پنچایت کی طرف چل پڑا۔ راستے میں دونوں بلند آواز میں چیختے چلاتے جا رہے تھے۔ اتنے میںگامے کے ہاتھ کی انگلی قریب سے گزرتے ہوئے گائوں کے ایک ہندو کی آنکھ میں جا لگی۔ وہ وہیں تڑپنے لگا۔ گاما گھبرا گیا۔ ہندو کے ہوش بحال ہوئے تو پتا چلا کہ اُس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی ہے۔ ہندو نے گامے کو پکڑ لیا کہ اب یہ معاملہ بابے کی پنچایت میں ہی پیش ہو گا۔ گاما پہلے ہی پریشان تھا‘ اِس دوسری افتاد کو پڑتے دیکھ کر یکدم بھاگ نکلا۔ ہندو اور علی بخش اُس کے پیچھے بھاگے لیکن گاما قریبی گھر کی دیوار پر چڑھ کر چھت پر گیا اور دوسری طرف کود گیا۔ دوسری طرف گائوں کا بوڑھا مراثی اپنے جوان بیٹے شانی کے ساتھ گزر رہا تھا۔ گامے کی چھلانگ ذرا سی غلط ہو گئی اور وہ سیدھا بوڑھے مراثی کے اوپر جا گرا۔ بوڑھا مراثی وہیں دم توڑ گیا۔ اُس کے بیٹے شانی نے گامے کو پکڑ لیا۔ جب اسے علم ہوا کہ گامے کو پہلے ہی بابے کی پنچایت میں لے جایا جا رہا ہے تو اُس نے بھی باپ کی موت کا بدلہ لینے کا کیس پنچایت کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ گاما بیچارہ بیٹھے بٹھائے تین کیسوں میں پھنس گیا تھا۔ مرغی کا کیس‘ ہندو کی آنکھ پھوڑنے کا کیس اور بوڑھے مراثی کے قتل کا کیس۔
یہ چاروں بابے کی پنچایت میں پہنچے‘ بابے نے فوری طور پر گائوں والوں کو بھی اکٹھا کر لیا۔ ملزم ایک تھا اور مدعی تین۔ سب سے پہلے علی بخش نے کیس پیش کیا ''بابا جی... میں مرغی خریدنے گامے کی دکان پر گیا‘ اس کے پاس ایک ہی مرغی تھی‘ اِس نے میرے سامنے مرغی ذبح کی اور گوشت بنانے لگا‘ میں اتنی دیر میں سامنے نائی سے بال کٹوانے بیٹھ گیا‘ واپس آیا تو یہ کہنے لگا کہ تمہاری مردہ مرغی زندہ ہو کر بھاگ گئی ہے‘ آپ ہی بتائیں کیا مردہ مرغی زندہ ہو سکتی ہے؟‘‘ بابے نے سر ہلایا اور علی بخش کو گھور کر بولا ''گویا تم موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان نہیں رکھتے؟‘‘۔ علی بخش کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن فوراً رُک گیا‘ جواب میں اُنیس بیس ہونے کی صورت میں فتویٰ لگ سکتا تھا‘ گھبرا کر بولا ''نہیں بابا جی! موت کے بعد کی زندگی پر تو میرا پورا ایمان ہے‘‘۔ بابا مسکرایا ''تو کیا مرغی مرنے کے بعد زندہ ہو کر بھاگ نہیں سکتی؟‘‘ علی بخش نے نہایت عقیدت سے اثبات میں سر ہلایا ''جی جی بالکل ایسا ہو سکتا ہے‘‘۔ بابے نے گہری سانس لی ''تو اس کیس کا فیصلہ تو ہو گیا... اگلا کیس ہے کہ گامے نے ایک ہندو کی آنکھ پھوڑی ہے۔ یقینا یہ ایک جرم ہے اور اس کا بدلہ قصاص ہے‘ لیکن چونکہ ہندو غیر مسلم ہے لہٰذا اِس کا قصاص آدھا ہو گا۔ گامے کو چاہیے کہ وہ اس کی دوسری آنکھ بھی پھوڑ دے تاکہ بدلے میں ہندو آدھے قصاص کے طور پر اِس کی ایک آنکھ پھوڑ دے۔ یہ سنتے ہی ہندو کی چیخ نکل گئی۔ جلدی سے بولا 'بابا جی میں نے گامے کو معاف کیا‘ مجھے نہ کوئی کیس کرنا ہے نہ بدلہ لینا ہے‘‘۔
بابا بوڑھے مراثی کے بیٹے شانی کی طرف متوجہ ہوا ''ہاں تو تمہارا کہنا ہے کہ گامے کی چھلانگ کی وجہ سے تمہارا بوڑھا باپ گامے کے نیچے آ کر مر گیا؟‘‘۔ شانی نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ''جی ہاں بابا جی! اسی کی وجہ سے میرے باپ کی جان گئی ہے‘‘۔ بابا جی نے کچھ سوچا پھر بولے ''اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ گامے کو اُسی مکان کی چھت کے نیچے کھڑا کیا جائے‘ تم چھت پر چڑھ جائو اور گامے پر بالکل اُسی طرح چھلانگ لگائو جس طرح اس نے تمہارے باپ کے اوپر لگائی تھی۔‘‘ شانی ہکا بکا رہ گیا ''بابا جی! اگر میرے چھلانگ لگانے کے دوران گاما تھوڑا سا بھی اِدھر اُدھر ہو گیا تو اسے تو کچھ نہیں ہونا‘ میری ہڈی پسلی ایک ہو جائے گی‘‘۔ بابا جی اطمینان سے بولے ''اس کا مطلب ہے تمہارا باپ بھی تھوڑا اِدھر اُدھر ہو جاتا تو اُسے کچھ نہیں ہونا تھا‘ لہٰذا طے ہوا کہ ساری غلطی تمہارے باپ کی تھی۔‘‘ شانی ایک دم ساکت ہو گیا‘ فیصلے کے اِس پہلو کا اُسے اندازہ ہی نہیں تھا۔ گاما آنکھیں پھاڑے اپنی بریت کی کارروائی دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آج اگر بابا نہ ہوتا تو شاید اسے تین تین جرائم کی سزائیں بھگتنا پڑتیں۔ اس نے اُسی وقت طے کر لیا کہ وہ بھی بڑھاپے میں بابا بنے گا اور ہر مسئلہ پورے دلائل کے ساتھ یونہی چٹکیوں میں حل کر دیا کرے گا۔ 
بابے کے انہی فیصلوں کی وجہ سے گائوں والے آج بھی اُنہیں یاد رکھتے ہیں۔ مرنے سے پہلے بھی بابا جی نے اپنی مسائل شکن طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر ہدایت کی کہ جب وہ انتقال فرما جائیں تو ان کے لیے کوئی نئی قبر نہ کھودی جائے بلکہ اُنہیں اُن کے دادا کی قبر میں دفن کیا جائے۔ گائوں والے سمجھے شاید بابا جی نے یہ بات اپنے دادا کی محبت کی میں کی ہے تاہم ان کے مرنے کے بعد ان کے ایک قریبی ملازم نے راز سے پردہ اٹھایا کہ بابا جی کہتے تھے ''جب فرشتے آئیں گے تو میں کہہ دوں گا کہ میرا حساب کتاب ہو چکا ہے‘‘۔

 

بابے کے انہی فیصلوں کی وجہ سے گائوں والے آج بھی اُنہیں یاد رکھتے ہیں۔ مرنے سے پہلے بھی بابا جی نے اپنی مسائل شکن طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر ہدایت کی کہ جب وہ انتقال فرما جائیں تو ان کے لیے کوئی نئی قبر نہ کھودی جائے بلکہ اُنہیں اُن کے دادا کی قبر میں دفن کیا جائے۔ گائوں والے سمجھے شاید بابا جی نے یہ بات اپنے دادا کی محبت کی میں کی ہے تاہم ان کے مرنے کے بعد ان کے ایک قریبی ملازم نے راز سے پردہ اٹھایا کہ بابا جی کہتے تھے ''جب فرشتے آئیں گے تو میں کہہ دوں گا کہ میرا حساب کتاب ہو چکا ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں