پرویز مشرف سے ڈونلڈ ٹرمپ تک!

تحریکِ انصاف جس بے تابی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئی تھی‘ اُسی شتابی کے ساتھ رخصت ہو گئی۔ 23 دسمبر کو شروع ہونے والا سلسلۂ مذاکرات‘ تین نشستوں کے بعد 23 جنوری کو ختم ہو گیا۔ کبھی کرکٹ کے ایک بے ہنر کھلاڑی کے بارے میں لطیفہ نما سی حکایت سنا کرتے تھے۔ وہ اپنی باری آنے پر بلّا اٹھائے میدان میں اُترنے لگتا تو سلگتا ہوا سگریٹ منہ سے نکال کر کسی دوسرے کھلاڑی کو تھماتے ہوئے کہتا ''ذرا پکڑ‘ میں ابھی آیا‘‘۔ بالعموم وہ پہلی یا دوسری گینڈ پر آؤٹ ہوکر پویلین کو لوٹتا اور دوست سے اپنا اَدھ جلا سگریٹ واپس لے کر کش لگانے لگتا۔ پی ٹی آئی کا بھی پارلیمنٹ کے ''کانسٹیٹیوشن روم‘‘ میں مذاکرات کی میز پر آنے اور جانے کا عالم کچھ ایسا ہی تھا۔
بلاشبہ پی ٹی آئی کے لیے برسوں پر محیط اپنے بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے ''چوروں‘ ڈاکوؤں‘ لٹیروں اور ناپاک‘‘ لوگوں سے ہاتھ ملانا اور سلام دعا کرنا کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔ وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے پہ کیوں مجبور ہوئی؟ عمران خان نے دل پر بھاری پتھر رکھ کر کوچۂ رقیب میں سر کے بل جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ بات کوئی معمہ نہیں رہی۔ مارچ 2022ء میں امریکی سائفر لہرانے سے‘ نومبر 2024ء میں اسلام آباد پر لشکر کشی کی '' فائنل کال‘‘ تک‘ پونے تین برس پر محیط بے سمت مہم جوئی کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ پی ٹی آئی مشکلات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی اور اسے درپیش مسائل کا جنگل گھنا ہوتا گیا۔
''فائنل کال‘‘ کی شرمناک ہزیمت کے بعد‘ بے حکمتی‘ بے تدبیری اور بے ہنری کی بے ثمری سے جنم لیتی اعصاب زدگی کے کسی اذیتناک لمحے میں عمران خان نے اڈیالا جیل سے حکم جاری کیا کہ ''جاؤ‘ حکومت سے مذاکرات کرکے کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرو‘‘۔ زبان و بیان کے ہنر میں طاق پی ٹی آئی راہنماؤں میں سے کسی نے نہ کہا کہ ''سر! اس سے تو ہمارا چوتھائی صدی پر محیط بیانیہ فنا ہو جائے گا۔ ہم کہیں کے نہ رہیں گے‘‘۔ دست بستہ مریدانِ خاص نے لب بستگی شعار کی اور گردنیں جھکا دیں۔ اڈیالا جیل سے جاری اعلان کے مطابق ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل پا گئی۔ کمیٹی نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے پے در پے رابطے کیے۔ سپیکر نے وزیراعظم سے بات کی۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں پر مشتمل 10 رُکنی کمیٹی تشکیل پا گئی۔ پی ٹی آئی نے صرف صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ ناصر عباس کو اپنی کمیٹی کی زینت بنایا۔ اپوزیشن کی دیگر تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ وہی جماعتیں ہیں‘ پی ٹی آئی جن کی دہلیز پر کھڑی ''کوئی ہے؟‘‘ کی آوازیں لگا رہی ہے۔ مذاکرات کی پہلی نشست 23 دسمبر کو ہوئی جس میں طے پایا کہ پی ٹی آئی اپنے تحریری مطالبات اگلی نشست میں پیش کر دے گی۔ دو جنوری کو ہونے والی دوسری نشست میں یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ 16 جنوری کو‘ تیسری نشست میں (آغازِ مذاکرات سے 24 دن بعد) فردِ مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھی گئی۔ طے پایا کہ سات ایّامِ کار (Seven Working Days) میں ''چارٹر آف ڈیمانڈز‘‘ کا باضابطہ تحریری جواب دیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ تین اجلاس کیے۔ وکلا سے مشاورت کی ۔ اپنے مؤقف کے خد و خال تراشے۔ 'سات ایامِ کار‘ میں ابھی پانچ دن باقی تھے کہ 23 جنوری کو اڈیالا جیل کے پھاٹک سے باہر آتے ہوئے قائم مقام چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی نے فرمانِ امروز جاری کر دیا کہ ''بانی نے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ آج سے مذاکرات ختم‘‘۔
کسی مجبوری کے سبب مذاکراتی میز پر آ بیٹھنے کے باوجود عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھی۔ ان کی بہن علیمہ خان تواتر کے ساتھ یہ پیغام دہراتی اور سمندر پار پاکستانیوں کو اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجنے پر اُکساتی رہیں۔ عمران خان کا 'ایکس‘ اکاؤنٹ بدستور بارود پاشی کرتا رہا۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم کو منہ بھر کے گالی دی۔ 31 روزہ مذاکرات کے دوران میں ناتراشیدہ‘ اَن گڑھ اور زہرناک ٹویٹس کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ حکومتی کمیٹی ایک بار بھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائی۔ صرف اس لیے کہ کوئی بات پی ٹی آئی کی نازک مزاجی پر گراں نہ گزرے اور اس جمہوری مشق کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن پی ٹی آئی پادر رکاب ہی رہی۔ جسے پنجابی میں ''پبّاں بھار‘‘ کہتے ہیں۔ سو بانی کا حکم آتے ہی اس برق رفتاری کے ساتھ مذاکراتی کمرے سے نکلی جیسے اس کا دم گھٹنے لگا ہو۔ اب جبکہ ''سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے‘‘ کوئی کمیٹی رہے نہ رہے‘ کھیل ختم ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی مکالمے‘ مباحثے‘ مذاکرے اور افہام و تفہیم کے بازیچۂِ بے آب و رنگ سے الجہاد ‘الجہاد‘ مارو یا مر جاؤ‘ آتشیں اسلحہ ‘غلیلوں ‘ کیلوں والے ڈنڈوں اور پٹرول بموں والے ''ہوم گراؤنڈ‘‘ کی طرف واپس جا رہی ہے۔ 'پانی پت‘ کے تمام معرکوں میں ناکام رہنے والے علی امین گنڈا پور سے ''علمِ جہاد‘‘ چھین کر جنید اکبر کے حوالے کر دیا گیا ہے جنہوں نے ''ہومیو پیتھک‘‘ حکمت کار کو مسترد کرتے ہوئے ''ہر چہ بادا باد‘‘ کے جنگی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے 31 روزہ مذاکراتی وقفہ صرف نئی صف بندی کے لیے تھا یعنی ''آگے چلیں گے دَم لے کر‘‘۔
پی ٹی آئی دو خصوصیات کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ پہلی خصوصیت یہ کہ وہ دنیا بھر کی روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس مذاکرات ‘مکالمے اور سنجیدہ گفتاری کے لیے بنی ہی نہیں۔ بحث و تمحیص‘ افہام و تفہیم اور جمہوری اقدار و روایات جیسے اجزائے ترکیبی سرے سے اُس کے مادۂ تولید اور جوہرِ تخلیق (Genes/ DNA) میں ہیں ہی نہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھتی ہے تو بھی یوں جیسے انگاروں پر لوٹ رہی ہو۔ لگی بندھی مذاکراتی کمرے میں آتی ہے تو اس قدر ہراساں جیسے کسی عقوبت خانے میں دھکیل دی گئی ہو۔ ہنگامہ و پیکار اور فتنہ و فساد اُس کا خصوصی ہنر ہے۔ وہ اسی جو لاں گاہ میں آسودہ رہتی ہے چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔
پی ٹی آئی کی دوسری منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے '' نظریے‘‘ یا ''عوامی مقبولیت‘‘ کے بجائے تکمیلِ آرزو کیلئے ہمیشہ کسی مقتدر شخصیت کی طرف دیکھتی اور اُس کے دستِ شفقت کی محتاج رہتی ہے۔ یہ کہانی 26 برس قبل پرویز مشرف سے شروع ہوئی۔ شجاع پاشا‘ ظہیر الاسلام‘ فیض حمید‘ قمر جاوید باجوہ‘ آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار سے ہوتی ہوئی عمر عطا بندیال پہ آ ٹھہری۔ وردی اُتر جانے کے باوجود فیض حمید کا فیضان جاری رہا یہاں تک کہ وہ خود اپنے کارہائے نمایاں کے آہنی جال میں پھنس گئے۔ پھر اپنے پیروکاروں اور خود اپنے لیے یہ سراب تخلیق کیا گیا کہ جلد جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بننے جا رہے ہیں۔ اُس کے فوراًبعد یہ ''جعلی نظام‘‘ تحلیل ہو جائے گا اور عمران خان اڈیالا جیل سے براہِ راست وزیراعظم ہاؤس آ بیٹھیں گے۔ ایسا نہ ہوا۔ پبلک ریلیشننگ کی کمپنی چلانے والے ایک بے سروپا امریکی اہلکار‘ رچرڈ گرینل نے جانے کس ترنگ میں آکر دو تین ٹویٹ کیے تو پی ٹی آئی کا چہرہ نئی نویلی دلہن کی طرح دمکنے لگا۔ وہ آس تو ٹوٹ گئی لیکن طاقِ آرزو میں آج بھی 'ڈونلڈ ٹرمپ‘ نامی ایک چراغ ٹمٹا رہا ہے۔
مشرف سے ٹرمپ تک‘ ہمیشہ کسی امپائر کی اُنگلی کی متلاشی پی ٹی آئی پر کسی بیوہ جیسی بے سروسامانی کا ایسا بے برگ و بار موسم اُس کی چھبیس سالہ زندگی میں کبھی نہ آیا تھا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں