"RS" (space) message & send to 7575

جہاد ریاست کے تابع

افغانستان میں علما کونسل غیرمعمولی حد تک مذہبی اور سماجی اتھارٹی کی حامل ہے۔ یہ کونسل ملک کے ہزاروں علما‘ دینی سکالرز اور مشائخ پر مشتمل ہے‘ جن کی رائے کو شریعت کی تعبیر اور قومی مسائل پر اجتماعی فیصلہ سازی کیلئے حتمی سمجھا جاتا ہے۔ ان علما کا گہرا سماجی اثر و رسوخ حکومت اور عوام کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے اور کوئی بھی پالیسی جو مذہبی اصولوں سے متصادم ہو‘ ان کی رضامندی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ علما کونسل کی جانب سے منظور کی گئی قراردادیں خاص طور پر قومی خودمختاری‘ اخلاقیات اور بین الاقوامی تعلقات جیسے اہم معاملات پر دراصل قومی پالیسی بیان کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان فیصلوں کو محض مذہبی فتویٰ نہیں بلکہ ملک کی اجتماعی خواہش اور شرعی اصولوں پر مبنی سیاسی مؤقف سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ماضی میں اسامہ بن لادن کی حوالگی کے وقت دیکھنے میں آئی۔ جب بیرونی قوتوں نے افغان طالبان سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو افغان علما نے متفقہ طور پر فتویٰ جاری کیا کہ اسلامی روایات کے تحت مہمان کو بیرونی دشمن کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے نے طالبان حکومت کے انکار کو مضبوط مذہبی جواز فراہم کیا‘ اور اس نے پوری قوت کے ساتھ اس فیصلے کو نافذ کیا۔ افغانستان نے اگرچہ اس فیصلے کی بھاری قیمت بھی چکائی مگر علما کے فیصلے کی پاسداری کو قومی فرض سمجھا۔ برسوں بعد افغان علما کی طرف سے ویسا ہی فیصلہ اب بھی سامنے آیا ہے۔
پاکستان میں افغان سرزمین سے ہونیوالی دہشتگردی کا چیلنج دونوں ملکوں کے تعلقات میں طویل عرصے سے ایک کانٹا بنا ہوا ہے۔ سرحد پار سے عسکریت پسند عناصر کی دراندازی‘ حملے اور شرانگیزیاں نہ صرف پاکستان کے اندرونی امن و امان کیلئے خطرہ ہیں بلکہ پاک افغان تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچا چکی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کیلئے اگرچہ ماضی میں سفارتی اور مذہبی سطح پر کئی کوششیں کی گئیں‘ جن میں پاکستانی علما کے وفود کا کابل جا کر مذاکرات کرنا بھی شامل ہے‘ مگر بوجوہ یہ کوششیں مستقل اور ٹھوس نتائج لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ افغان قیادت بشمول افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ متعدد بار یہ واضح کر چکے کہ امیر کے حکم کے بغیر کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑنا شرعاً جائز نہیں اور مختلف گروہوں میں شامل ہو کر بیرونِ ملک جہاد کے نام پر عسکری سرگرمیاں کرنیوالے حقیقی مجاہد نہیں ہیں۔ یہ بیانات مذہبی رہنمائی ضرور فراہم کرتے ہیں‘ تاہم زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ افغان سرزمین پر موجود شدت پسند عناصر نے ان مذہبی احکامات کو کماحقہ اہمیت نہیں دی اور اپنی شرانگیزیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ حالانکہ طالبان کے پہلے دور حکومت میں امیر کے حکم کے خلاف جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘ لیکن حالیہ دور ماضی سے بہت مختلف ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف اقدامات سمیت امیر کے متعدد احکامات پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد نہیں ہو سکا جسکا واضح مطلب یہ ہے کہ طالبان کی موجودہ قیادت ماضی جیسا کنٹرول نہیں رکھتی۔
حالیہ کشیدگی کے بعد قطر اور ترکیہ کی کوششوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ بعدازاں سعودی عرب نے بھی اپنا حصہ ڈالا مگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان چاہتا تھا کہ افغان علما اور سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ ایک متفقہ فتویٰ جاری کریں جس میں قرار دیا گیا ہو کہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ ہو۔ ایسے ماحول میں کابل میں منعقد ہونے والے ایک ہزار علما کی متفقہ قرارداد انتہائی مثبت پیش رفت ہے۔ اس قرارداد نے نہ صرف پاکستان کے دیرینہ اور جائز مطالبے کی توثیق کی ہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف حکومتی پالیسی کو ایک مضبوط مذہبی بنیاد بھی فراہم کر دی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اسے دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ اب افغان قیادت بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ یہ یقینا پاکستان کے مؤقف کی جیت ہے۔ اس اہم قرارداد کے ذریعے افغان علما کونسل نے اپنی حکومت سے واضح اور دوٹوک مطالبات کیے ہیں۔ ان مطالبات میں سرحد پار عسکریت پسندی کی مکمل ممانعت شامل ہے‘ یعنی کسی بھی عسکریت پسند عنصر کو سرحد عبور کرکے دوسرے ملک میں عسکری سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ افغان حکومت کے رہبر (سپریم لیڈر) کے حکم کی روشنی میں کسی بھی شخص یا گروہ کو بیرونِ ملک عسکری سرگرمیوں کیلئے جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی صورت میں کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے اور اگر کوئی عنصر اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو افغان حکومت کو اس کے خلاف مؤثر کارروائی کا اختیار حاصل ہے۔ علما کی یہ متفقہ قرارداد افغان حکومت کیلئے پالیسی اور آئندہ کی حکمت عملی ہے جس کی تائید افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ان الفاظ میں کی ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے اور جو کوئی بھی خلاف ورزی کرے گا‘ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں بھی افغان امیر یا کسی مخصوص شخصیت کی جانب سے شدت پسند عناصر کے خلاف بیانات آتے رہے ہیں‘ جنہیں یہ گروہ یا تو نظریاتی طور پر مسترد کر دیتے یا اپنے مفادات کی خاطر ان کی تعبیر بدل دیتے تھے لیکن اس بار یہ فیصلہ ایک ہزار علما و عمائدین کی متفقہ قرارداد کی شکل میں سامنے آیا ہے جو ایک مذہبی فتویٰ اور اجتماعی رائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ علما کونسل کی یہ قرارداد صرف حکومتی مشورہ نہیں بلکہ افغان معاشرے کی ایک وسیع مذہبی اور سماجی رائے کی نمائندگی کرتی ہے‘ جسے نظر انداز کرنا عسکریت پسند عناصر کیلئے اب مذہبی اور معاشرتی دونوں سطحوں پر مزید مشکل ہو جائے گا۔ یہ قرارداد اس بات کا بین ثبوت ہے کہ افغانستان کے سنجیدہ مذہبی اور سماجی حلقے دہشت گردی کے مسئلے کی شدت اور اس کے دونوں ممالک کے تعلقات پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس اجتماعی مذہبی حکم کی روشنی میں افغان حکومت کو اب سرحدوں کی نگرانی‘ عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کیلئے ٹھوس‘ عملی اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کا حوصلہ اور مذہبی جواز ملے گا۔
کابل میں افغان علما کا اکٹھ تھا جبکہ اسلام آباد کنونشن سینٹر میں وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کیساتھ ملک بھر سے آئے علما کا اجتماع تھا۔ دونوں ممالک میں ایک ہی وقت میں علما کا اعلیٰ سطح اجتماع محض اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ وسیع تر مشترکہ مقصد کیلئے تھا۔ پاکستانی علما نے قومی علما مشائخ کانفرنس کے موقع پر جہاں فوج کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی‘ وہاں یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ آنیوالے دنوں میں شدت پسند عناصر کے خلاف گھیرا مزید تنگ ہونے جا رہا ہے۔ چونکہ شدت پسند عناصر مذہبی شناخت رکھتے اور اسلامی تعلیمات کی خود ساختہ تعبیرات سے ناپختہ ذہنوں کو گمراہ کرتے ہیں اس لیے علما کی رائے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ قومی سلامتی اور خودمختاری کیلئے جس سطح کا قومی اتفاقِ رائے درکار ہوتا ہے اس کیلئے ماحول بنایا جا رہا ہے تاکہ جو بھی قدم اٹھایا جائے اس میں قوم کے ہر حلقے کی حمایت حاصل ہو۔ پاکستان کے مذہبی حلقوں میں مفتی تقی عثمانی کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘ قومی علما کانفرنس کے موقع پر بھی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بالخصوص ان کا نام لیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کی سرپرستی میں پاکستانی علما کی شوریٰ کا اجتماع ہونے جا رہا ہے۔ علما کے کراچی میں ہونیوالے اجتماع کے بعد ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں اور جہاد و قتال کے حوالے سے ایک نیا فتویٰ آ سکتا ہے۔ دہشتگردی کے بڑھتے خطرات کے پیشِ نظر افغانستان اور پاکستان نے علما کی حمایت کے ذریعے اہم قدم اٹھایا ہے کہ ریاست کی اجازت کے بغیر اسلام میں جہاد کی گنجائش نہیں‘ تاہم عملی طور پر اس پر عملدرآمد کس قدر ممکن ہے‘ یہ دونوں ملکوں کیلئے واقعی بہت بڑا چیلنج ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں