محکمہ صحت : 26 کروڑ سے زائد کی خلاف ضابطہ ادائیگیاں
فیصل آباد(بلال احمد سے )سی ای او ہیلتھ سمیت محکمہ صحت کے 4اعلٰی افسروں نے قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا دیں۔ ایک سال کے دوران 26 کروڑ سے زائد کی ادائیگیوں کا کوئی ریکارڈ ہی مرتب نہیں کیا گیا۔
زیر التوا مالی ذمہ داریوں، ادویات اور لیب آئٹمز کی لوکل پرچیز میں مبینہ گھپلوں کے پیش نظر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔ سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر اسفند یار اور دیگر تین ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسروں نے سال 2022ء تا 23ء کے دوران مجموعی طور پر گزشتہ بر سوں کی زیر التوا مالی ذمہ داریوں، ادویات، سرجیکل اور لیبارٹریوں کیلئے سامان کی خریداری کی مد میں کمپنیوں کو 26 کروڑ 30 لاکھ 60 ہزار روپے (263.068 ملین) سے زائد کی ادائیگیاں کیں جس کا نہ ہی لائبیلٹی رجسٹر میں ریکارڈ درج کیا گیا نہ کسی متعلقہ اتھارٹی سے اس کی منظوری حاصل کی گئی اور نہ ہی مذکورہ ادائیگیوں کیلئے فنڈز کو خصوصی طور پر مختص کروایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق سی ای او ہیلتھ فیصل آباد نے سابقہ مالی ذمہ داریوں، ادویات اور سرجیکل سامان کی مد میں 21 کروڑ 31 لاکھ روپے کی ادائیگیاں کیں۔ ایم ایس تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سمندری نے 1 کروڑ 25 لاکھ، ایم ایس ٹی ایچ کیو جڑانوالہ نے 2 کروڑ11 لاکھ کی ادائیگیاں مقامی سطح پر ادویات کی خریداری اور لیبارٹری سامان جبکہ ایم ایس جنرل ہسپتال سمن آباد ڈاکٹرشہباز کی جانب سے 8 لاکھ 90 ہزار روپے کی بعد از مدت ادائیگیاں بجٹ کی عدم موجودگی کے باوجود کردی گئیں۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ افسروں نے موجودہ سال کا بجٹ خلاف ضابطہ گزشتہ برسوں کی ادائیگیوں کے لیے استعمال کیا اور اس حوالے سے کوئی بھی ریکارڈ فراہم نہ کرسکے ۔ سی ای او ہیلتھ آفس اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ دفاتر نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ ادائیگیاں پیپرا قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئیں جبکہ اعلی ٰحکام کی جانب سے فنڈز میں تاخیر کے باعث مالی ذمہ داریوں کے ادائیگیوں میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفس کی جانب سے جواب کو مسترد کردیا گیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ محکمہ صحت نے ادائیگیوں کیلئے الگ سے بجٹ مختص کیا اور نہ ہی کوئی ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے ۔ جس کے بعد خلاف ضابطہ ادائیگیوں میں ملوث حکام کیخلاف محکمانہ تحقیقات اور کارروائی کی سفارش کردی گئی ہے ۔