راہِ ہدایت
اس وقت کہ جب ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں تھیں اورجب ہفتے کا دن نہ ہوتاتوان کے سامنے نہ آتیں اسی طرح ہم ان لوگوں کو انکی نافرمانیوں کے سبب آزمائش کرتے تھے ۔ (سورۃالاعراف:آیت163)

پاکستان کی سعودیہ کو پی آئی اے اور ایئرپورٹس کی نجکاری میں جوائنٹ وینچر کی پیشکش


اسلام آباد: (دنیا نیوز) خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل نے سعودی عرب کو قومی ایئر لائنز پی آئی اے اور ائیرپورٹس کی نجکاری میں جوائنٹ وینچر کی پیشکش کر دی۔


اشتہار

اسلام آباد،لاہور (دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر بڑا اضافہ کردیا،پٹرول 4.53،ڈیزل 8.14 روپے لٹر مہنگا ہوگیا، یکم اپریل کو بھی پٹرول کی قیمت 9.66روپے بڑھائی گئی تھی۔

لاہور(اے پی پی،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا ہے حکومت بجلی چوری کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہی ہے ،بجلی کے زیادہ بل بھیجے گئے ، لیسکومیں83 کروڑ یونٹس کی اووربلنگ ہوئی،عوام کو فوری ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ لاہور میں عامر تانبا کے قتل کی کڑیاں بھارت سے ملتی ہیں ،بھارت پاکستان میں قتل کی وارداتوں میں براہ راست ملوث رہا ہے ۔

لاہور،مری (اے پی پی)وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور قائد ن لیگ نواز شریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس ہوا جس میں مری کے مسائل، ضروریات اور ڈویلپمنٹ پراجیکٹس پر بریفنگ دی گئی۔

واشنگٹن،اسلام آباد(دنیانیوز، مانیٹرنگ ڈیسک) آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلینا جارجیوا نے کہا پاکستان کیلئے نئے قرض کیلئے مذاکرات طویل اور مشکل ہوسکتے ہیں۔

متفرقات

انسانی آنکھ کی پتلی

انسانی آنکھ کی پتلی

دور ِ جدید میں سائنس کی ترقی جہاں انسانی زندگی کیلئے دیگر بہت سی آسانیاں پیدا کر رہی ہے، وہاں صحت کے شعبے میں بھی کئی قابل قدر جدتیں ہوئی ہیں اور کئی ایسی تحقیقات جاری ہیں جن کی کامیابی انسانی اعضاء کی کارکردگی میں انقلابی تبدیلی لانے کا سبب بنے گی۔ آنکھ ہی کولے لیں، جو انسانی جسم کا ایک حساس ترین عضو ہے مگر کچھ جدید تحقیقات کی مدد سے ہماری آنکھ کی کارکردگی میں نمایاں بہتری کا امکان نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں آسڑیلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز اور امریکہ کی شہرہ آفاق سٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات قابل ذکر ہیں جن سے انسانی بینائی میں انقلابی تبدیلی کا امکان ہے۔نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے سائنسدان ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کی مدد سے انسانی آنکھ کے ریٹینا (پردۂ چشم) میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکے گا۔''نیورو پروستھیٹکس‘‘ (Neuro prosthetics)دنیا بھر میں ایک ابھرتا ہوا سائنسی میدان ہے، جس میں ایسے آلات کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے جو اعصاب سے منسلک ہو کر غیر فعال انسانی اعضا ء کو دوبارہ فعال کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال ''کوکلیئر امپلانٹ‘‘(cochlear implant) ہے جسے عشروں سے سماعت کی بحالی کیلئے کان میں نصب کیا جا رہا ہے۔ اسی تصور سے متاثر ہو کر یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے محققین ایسے آلات کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جن کی مدد سے نابینا یا عمر رسیدہ افراد کی بصارت کو بحال کیا جا سکے گا، تاہم آنکھ کی ساخت اور حساسیت کے باعث اس عمل میں کئی پیچیدگیاں حائل تھیں۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنسدان ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے ان مسائل کا حل سولر پینل کی صورت میں نکالا ہے۔ اس تحقیق سے امید پیدا کی جارہی ہے کہ جلد ہی نابینا اور معمر افراد کی بصارت کو بحال کرنا ممکن ہو جائے گا۔ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے اس تحقیق کے بارے جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انسانی آنکھ کے ریٹینا یا پردۂ چشم میں کچھ خاص سیل ہوتے ہیں جنہیں ''فوٹو ریسیپٹرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ '' فوٹو ریسپیٹرز‘‘ بیرونی ماحول سے آنکھ میں پڑنے والی روشنی کو سگنلز میں تبدیل کر کے دماغ تک بھیجتے ہیں۔ڈاکٹر رؤمر کے مطابق ان ہی ''ریسیپٹرز‘‘ کی مدد سے ہم دن اور رات میں مختلف رنگوں یا اندھیرے کا احساس کرتے ہیں۔ بصارت کے زیادہ تر مسائل جیسا کہ عمر کے ساتھ بینائی کم ہونا وغیرہ ان فوٹو ریسیپٹرز میں خرابیوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کان میں سماعت کیلئے لگائے جانے والے آلے کی سرجری'' کوکلیئر امپلانٹ‘‘ کئی عشروں سے کی جا رہی ہے، اسی طرز پر آنکھ میں خراب فوٹو ریسیپٹرز کو فعال کرنے کیلئے بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے پر سائنسدان ایک طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے کا ایک قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ ریٹینا میں وولٹیج پلس بنانے کیلئے الیکٹروڈز استعمال کیے جائیں، لیکن اس کیلئے آنکھ میں وائرنگ کرنا ہو گی، جو ایک انتہائی پیچیدہ سرجری ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سولر پینل آنکھ کی پتلی کے ساتھ نصب کیے جائیں تو یہ سورج کی روشنی کو الیکٹرک پَلس میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ پلسز دماغ تک پہنچ کر وہاں ایسا سگنل پیدا کرتی ہیں جس سے بصارت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے سولر پینلز پورٹیبل ہیں اور آنکھ میں ان کو لگانے کیلئے کیبلز یا وائرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس تکنیک پر دنیا بھر میں کئی سائنسدان کام کر رہے ہیں مگر زیادہ تر محققین نے اپنے تجربات کیلئے سیلیکون سے بنے آلات استعمال کیے ہیں جبکہ ان کی توجہ کا مرکز دیگر سیمی کنڈکٹر مرکبات جیسے گیلیئم آرسینائڈ اور گیلیئم انڈیم فاسفائیڈ پر ہے، جن کی خصوصیات کو باآسانی اور حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے محقق ڈاکٹر رؤمر بتاتے ہیں کہ یہ مرکبات اپنی افادیت اور سستے ہونے کے باعث سولر پینل انڈسٹریز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق دماغ میں نیورونز کو متحرک کرنے کیلئے زیادہ وولٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ گیلیئم آرسینائڈ کے تین سولر سیلز سے اتنا وولٹیج پیدا کیا جاسکتا ہے جو دماغ تک سگنل یا پلس پہنچا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ان کی ٹیم نے لیبارٹری میں دو سولر سیلز کو تقریبا ایک مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر ایک دوسرے کے اوپر لگایا ہے جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کا مزیش کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں انہیں بصارت کیلئے درکار پکسل سائز میں لانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی ان سولر پینلز کو باحفاظت الگ کرنے کیلئے مناسب تکنیک بھی استعمال کرنی ہو گی۔ڈاکٹر رؤمر کہتے ہیں کہ جب ان کی ٹیم دو سولر سیلز کے ساتھ ان تمام مراحل کو کامیابی سے عبور کر لے گی تو اس کے بعد پھر تین سولر سیلز جوڑنے پر کام کیا جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جانوروں پر مرحلہ وار ٹیسٹنگ کے بعد جب یہ ڈیوائس انسانوں کیلئے دستیاب ہو گی تو اس کا ممکنہ سائز دو مربع ملی میٹر تک ہو گا۔ اس سے قبل امریکہ میں بھی سائنسدانوں نے ایک ایسی مصنوعی آنکھ تیار کی ہے جو سولر پینل کی طرح روشنی سے چارج ہوتی ہے۔ سائنسدان پہلے بھی مصنوعی یا مشینی آنکھ تیار کر چکے ہیں مگر انہیں بیٹری سے چارج کرنا پڑتا ہے۔اس مصنوعی آنکھ میں ریٹینا کو ٹرانسپلانٹ کر کے مریض کی قوتِ بصارت کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی سٹینفوڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی تیار کردہ اس ''بائیونک آئی‘‘ کے بارے میں تحقیق سائنسی جریدے ''نیچر فوٹونکس‘‘ میں رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اس آنکھ میں خصوصی شیشوں کی جوڑی کی مدد سے انفراریڈ شعاعوں جیسی روشنی کو آنکھوں میں بھیجا جاتا ہے جس سے ٹرانسپلانٹ کیے گئے ریٹینا کو توانائی ملتی ہے اور وہ ایسی معلومات مہیا کرتا ہے جن سے مریض دیکھ سکتا ہے۔ اکثر لوگوں کی آنکھوں میں بڑھاپے سے ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن سے وہ خلیے مر جاتے ہیں جو کہ آنکھ کے اندر روشنی کو وصول کرتے ہیں۔ آگے چل کر یہی علامات اندھے پن میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔تاہم اس مصنوعی ریٹینا میں آنکھوں کے پیچھے کی وریدیں مرتعش رہتی ہیں جن سے کئی بار آنکھوں کے مریضوں کو دیکھنے میں مدد ملتی ہے ۔سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے مطابق اس طریقہ میں ٹرانسپلانٹڈ ریٹینا سولر پینل کی طرح کام کرتا ہے جسے آنکھ کے پیچھے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو کیمرے سے منسلک شیشوں کا ایک جوڑا آنکھ کے سامنے ہونے والی تمام چیزوں کو ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں انفراریڈ کے تقریباً برابر شعاؤں میں بدل کر ریٹینا کی جانب بھیجتا ہے۔اس مصنوعی ریٹینا کا ابھی انسانوں پر تجربہ نہیں کیا گیا ہے مگر چوہوں پر اس کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ 

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

''جب بھی میں کتاب کھولتا ہوں فوراً سستی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا بدن تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے‘‘۔ اکثر طالب علم اس بات کی شکایت کرتے ہیں اور ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس اس کے مداوے کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں!علاج اس کا بھی کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں......وجوہاتموقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگائو اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ اس سے رتی بھر مطمئن نہ ہو۔اس کے علاوہ موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں مثلاً ذیابیطس وغیرہ میں بھی بندہ ہر وقت بہت سستی محسوس کرتا ہے اور سویا سویا رہتا ہے۔ نوجوانوں میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں ان کی پسند کا کام نہ ملے۔ انہیں ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جن میں ان کی ذرا دلچسپی نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے اپنا کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افراتفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں، ان میں اس کی خاصی شکایت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت بندہ سست اور پژمردہ ہو تا ہے اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی نیند آ جاتی ہے۔علاج اور بچائوجو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل باتوں پہ عمل کریں۔ اس سے اس طرح کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔(1)۔ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کیلئے تازہ ہوا، مناسب آرام، باقاعدہ ورزش وغیرہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسم صحت مند ہوگا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور آپ جو کام کریں گے آپ کا ذہن آپ کا پورا ساتھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے مندرجہ بالا امور کا خیال رکھا جائے۔ ان میں کوئی چیز کم ہے تو اس کمی کو پورا کر نے کی کوشش کریں۔(2)۔روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ جو اپنا کام باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ بہت کم پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدگی کو زندگی کا شعار بنائیں۔ جو کام آج کرنا ہے اسے آج ہی کریں۔ اس سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوں گے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنیں گی اور کبھی بھی پڑھائی کرتے وقت اونگھ یا نیند آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔(3)۔بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ''سٹڈی فوبیا‘‘ ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی میں لگ جائیں۔ انشاء اللہ کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوگا۔ (4)۔ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی بھی آپ بہت زیادہ پریشانی اور ذہنی دبائو کا شکار ہوں تو اس دوران ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنے آپ کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کیلئے آرام کریں، باہر گھومیں پھریں۔ چائے کا ایک کپ نوش کریں اور اس کے بعد جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر Relax کریں اور اب ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف لگیں۔(5)۔بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کیلئے بعض دوائوں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اصل میں تمام دوائیں کیمیکل اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں اور جب یہ جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جسم پر کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور چھوڑتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز بہت ضروری ہے۔(6)۔اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں اور فکر و پریشانی کی صورت میں زیادہ کھا یا پی کر سکون اور فرار ڈھونڈتے ہیں اور یوں ہر وقت سسترہتے ہیں اور اونگھتے رہتے ہیں۔(7)۔امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم اپنی خوراک کو صحیح رکھیں۔ زیادہ چٹ پٹے اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس سے آپ تندرست اور توانا اور فریش رہیں گے اور اونگھ یا نیند کبھی تنگ نہیں کرے گی۔٭...٭...٭ 

آج کا دن

آج کا دن

اپالو10کی لانچنگ16 اپریل 1972ء کو امریکی خلائی مشن ''اپالو10‘‘ اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ یہ چاند پر اترنے والا پانچواں مشن تھا۔ ''اپالو‘‘ ناسا کا ایک خلائی پروگرام تھا جس میں متعدد خلائی جہاز چاند پر بھیجے گئے۔ اس مشن کا مقصد چاند کی سطح پر لمبے عرصے کیلئے قیام کرنا،سائنسی معلومات اکٹھی کرنا،لونر کا استعمال کرنا اور تصاویر لینا شامل تھا۔اپالو کے ذریعے ماہرین نے چاند پر ایک ایسی جگہ کوتلاش کیاجس کے متعلق کہا گیا کہ یہاں آتش فشاں پھٹا ہے ۔لبنان پراسرائیلی حملہ1996ء میں آج کے روز اسرائیل نے ہیلی کاپٹروں سے لبنان پر میزائل فائر کئے، جس کے نتیجے میں متعدد لبنانی شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے اسرائیل کی حدود سے 8کلومیٹر دور اس وقت ایک ایمبولینس پر میزائل داغا جب وہ اقوام متحدہ کی ایک چوکی سے گزر رہی تھی۔ اس گاڑی میں 13 افراد سوار تھے۔ یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ''آپریشن گریپس آف ریتھ‘‘ کے نفاذ کے اعلان کے فوراً بعد کیا گیا ۔باگا کا قتل عامباگا کا قتل عام 16 اپریل 2013ء کو بورنو ریاست کے گاؤں باگا، نائیجیریا سے شروع ہوا۔ اس قتل عام میں 200 سے زیادہ شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کروڑوں مالیت کی املاک نذر آتش کر دی گئیں۔ تقریباً 2 ہزار سے زائد گھر اور کاروباری مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ مہاجرین، شہری حکام اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نائیجیریا کی فوج پر قتل عام کا الزام لگایا۔ فوجی حکام نے باغی گروپ بوکو حرام کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔ایکواڈور میں زلزلہ2016ء میں آج کے دن ایکواڈور میں شدید زلزلہ آیا۔اس زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی، یہ ایکواڈور میں آنے والے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھا۔جن علاقوں میں زلزلے کا مرکز تھا وہاں ہلاکتوں کی تعداد 75فیصد سے زیادہ تھی۔مانتا کا مرکزی تجارتی شاپنگ ڈسٹرکٹ'' تارکی‘‘ سمیت متعدد عمارتیں گر تباہ ہو گئیں۔  

شاہ جہانی تخت وتاج کے وارث عالمگیر کا جلوس

شاہ جہانی تخت وتاج کے وارث عالمگیر کا جلوس

عالمگیر نے شجاع اور داراشکوہ کو آخری بار شکست دی تو اس نے اپنے کو شاہ جہانی تخت و تاج کا وارث سمجھا، اس لئے وہ اپنی جنگی مہم سے دہلی واپس آیا تو باضابطہ تخت نشینی کی رسم ادا کی، اس موقع پر وہ دہلی میں داخل ہونے سے پہلے دہلی کے نواح خضر آباد میں ٹھہرا، نجومیوں نے دہلی کے اندر داخل ہونے کیلئے جو نیک ساعت مقرر کی تھی، اسی وقت پہلے نفیری، طنبورے، نقارے، برنجی، ڈھول اور شہنائی بجانے والے داخل ہوئے۔ اس کے بعد ہاتھیوں کی قطاری بڑھیں، ان پر طلائی اور نقرئی جھولیں پڑی تھیں۔ یہ جھولیں مخمل اور زربفت کی تھیں جن میں قیمتی آب دار موتی ٹکے ہوئے تھے، ہاتھی کے دونوں طرف زریں گھنٹے لٹک رہے تھے، جن کی آواز فضا میں گونج رہی تھی، ان کے پائوں میں نقرئی زنجیریں تھیں، جن کی جھنکار دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ ہر ایک ہاتھی پر شاہی پرچم لہرا رہا تھا، پھر سواروں کا دستہ بڑھا، ان کے گھوڑوں کی پیٹھ پر نقرئی و طلائی زین، ارتک اور گجم وغیرہ تھے، ان کی لگاموں میں جواہرات لگے ہوئے تھے۔ ان سواروں کے پیچھے ہتھنیوں اور سانڈنیوں کی صفیں تھیں۔ ان کے بعد پیدل فوجیوں کی ایک کثیر تعداد تھی جن کے ہاتھوں میں ننگی شمشیریں چمک رہی تھیں، ان کے پیچھے امرا تھے اور ان کے بعد ایک بلند ترین قامت ہاتھی تھا، اس پر سخت رکھا تھا اور اسی پر ابو المظفر محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر بادشاہ غازی جلوہ افزوز تھا، اس کے دائیں بائیں اور پیچھے مسلح فوجیں صف بستہ اور آراستہ ہو کر آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہی تھیں۔ ہاتھیوں کی پیٹھ پر سے چاندی اور سونے مجمع پر پھینکے جا رہے تھے، یہ شاہی جلوس بازار سے ہو کر لال قلعہ کے لاہوری دروازہ تک پہنچا جہاں سب لوگ پاپیادہ ہو گئے اورنگزیب دیوان عام میں جا کر بیٹھا پھر دیوان خاص آیا، دونوں دیوان آراستہ ہو کر فردوس نظر اور جنت گاہ بنے ہوئے تھے، اس وقت تک تیموری سلطنت ایشیا کی متمول ترین سلطنت بن چکی تھی، اس لئے زینت و آرائش کا جتنا سامان ممکن ہو سکتا تھا دونوں دیوان میں نظر آ رہے تھے۔ دیوان عام کے ستونوں اور چھتوں کو ایران اور گجرات کے مغرق کم خواب، مخمل زربفت اور مشجر سے آراستہ کیا گیا تھا۔ محرابوں میں طلائی زنجیروں کے ساتھ قندیلیں لٹکی ہوئی تھیں۔ دروں میں ریشمی اور مخملی پردے پڑے تھے اور اسی دیوان میں تخت طائوس رکھا ہوا تھا، اس کے چھ بڑے بڑے بھاری بھاری طلائی پایوں میں زمرد اور ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ اس تخت میں موردم کو چنور کئے ہوئے تھے۔ اسی لئے ان میں نیلم، یاقوت، ہیرے، لعل، زمرد، پکھراج اور دوسرے رنگ برنگ کے جواہرات موروں کی دم کو اصلیت کا رنگ دینے کیلئے جڑے ہوئے تھے۔ تخت کے اوپر ایک زری کا شامیانہ تھا جس کے بارہ ستون تھے۔ یہ بیش قیمت جواہرات سے جگمگا رہے تھے۔ شامیانہ کی جھالر موتیوں کی تھی،دونوں مور کے بیچ میں ایک طوطا بھی اصلی قدو قامت کا ایک ہی زمرد میں تراشا ہوا تھا۔ تخت کے دونوں جانب دو شاہی چتر تھے جن میں قرمزی مخمل کے نہایت عمدہ کار چوبی کام کے موتیوں کی جھالریں تھیں۔ ان کی ڈنڈیاں آٹھ فٹ لمبی ٹھوس سونے کی تھیں۔ ان پر بھی جواہرات جڑے ہوئے تھے، بارہ مرصع ستونوں پر مغرق محرابیں اور جڑاو مینا کاری کی چھت پڑی تھی، چھت سے پائے تک کا حصہ خالص کندن اور آب دار جواہرات سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا، اس کی روکار کی محراب پر ایک بھاری طلائی درخت بنا ہوا تھا، جس کو سبزہ و الماس سے سر سبز اور لعل و یا قوت سے گل رنگ کیا گیا تھا، اس کے اِدھر اُدھر دونوں اطراف میں تسبیحیں لئے اس طرح کھڑے تھے گویا اب ناچنے کو ہیں، چاروں طرف زرنگار چتر تھے، جن میں موتیوں کی جھالر جھلملاتی تھی، اس کے گرد چوکیاں اپنے اپنے رتبے سے سجی ہوئی تھیں، تخت کے گرد پاس ادب کیلئے کئی کئی گز تک حاشیہ چھوڑ کر سونے کا خوش نما کٹہرا لگا ہوا تھا جس کی مینا کار جالیاں مرغ نظر کو شکار کرتی تھیں، طلائی سخت پر شاہی اسلحہ ڈال دیئے گئے تھے۔ ان میں مرصع شمشیریں پھول کٹارا وغیرہ تھے، طلائی کٹہرے کے بعد ایک نقرئی کٹہرا تھا، جس پر کمخواب کا شامیانہ چوڑے چوڑے زریں جھالروں کا بنا ہوا تھا، دیوان کے تمام ستونوں پر کم خواب اور زری بوٹی کے ساٹن لپٹے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے شامیانے تھے جو ریشمی ڈورویں سے تنے ہوئے تھے۔ ان شامیانوں میں ریشم اور کلابتوں کے پھندنے تھے، فرش پر بیش قیمت قالین بچھے تھے، صحن میں جا بجا اسپک نصب تھے، اس کے گرد قناتیں لگی تھیں، جن پر چاندی کے پتروں کے خول چڑھے ہوئے تھے۔دیوان خاص کے رنگ برنگ کے سبز، زرد، نیلے، سرخ، گلابی، کشمشی اور زعفرانی پتھروں اور ان پر غیر معمولی پچے کاری اور نقش و نگار سے قدرتی تزئین و آرائش پیدا ہو رہی تھی، اس روز اس کو اور بھی زیادہ سجایا گیا تھا۔ در و دیوار، ستون و مرغول، محراب و فرش سب ہی آراستہ و پیراستہ تھے۔ نجومیوں نے تخت نشینی کی نیک ساعت کا اعلان کیا تو آفتاب طلوع ہونے سے تین گھنٹے پندرہ منٹ کے بعد اورنگزیب دیوان عام میں ایک پردے کے پیچھے سے نمودار ہوا اور تخت پر جلوہ افروز ہو گیا۔ یکا یک نقارہ کی صدا بلند ہوئی، شادیانے بجنے لگے، طنبورہ، قانون، ارغنوں، چنگ، زمزمے اور ترانے کی آواز بھی فضا میں گونجنے لگی۔ اہل نشاط نے رقص بھی کیا، امراء نے بڑھ کر سیم و زرنچھاور کرنے شروع کر دیئے تخت کے پاس چاندی، سونے اور جواہرت کا انبار لگ گیا ،جس نے جو چاہا اٹھا لیا، خطیب نے خطبہ پڑھا، خطبہ میں اورنگزیب کے خاندانی فرمانروائوں کے نام بھی لئے گئے اور ہر نام پر خطیب کو ایک خلعت عطا کیا گیا اور جب خود عالمگیر کا نام آیا تو خطیب کو سب سے زیادہ بیش قیمت خلعت دیا گیا اور روپے انعام میں دیئے گئے۔ پھر امراء نے بڑھ کر اظہار تعظیم کیا اور ان میں سے ہر ایک کو رنگا رنگ خلعت دیئے گئے۔ دربار کی فضا بخور، ارگجہ اور عود کے دھوئیں سے معطر کی جا رہی تھی، مشک برابر چھڑ کے جا رہے تھے، پان تقسیم ہو رہے تھے، اسی روز عالمگیر کے نام سے سکہ جاری ہوا اور اس پر یہ شعر کندہ کیا گیا۔سکہ زد در جہاں چو بدر منیرشاہ اورنگ زیب عالم گیرسکہ کے دوسری طرف دارالضرب، سنہ جلوس اور اورنگزیب کا پورا نام اور لقب درج ہوا دبیروں نے اس تخت نشینی کے فرامین تمام صوبوں میں فوراً جاری کئے۔شعراء اور فضلا نے تخت نشینی کی طرح طرح کی تاریخیں پیش کیں اسی روز عالمگیر نے حکم دیا کہ نو روز شہوار کی بدعت ختم کردی جائے کیونکہ یہ اسلامی تہوار نہ تھا، مسکرات اور نشہ آور چیزوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی اور اس کیلئے محتسب مقرر ہوئے اور بہت سے غیر شرعی ٹیکس بھی اٹھائے گئے، یہ جشن کئی ہفتہ تک جاری رہا۔عالمگیر سے پہلے یا اس کے بعد تخت نشینی کی تقریب اتنے پرشکوہ طریقہ پر کبھی نہیں ہوئی، عالمگیر کے بعدجتنے بادشاہ تخت پر بیٹھے، انہوں نے اس شاہی روایت کی پابندی کی لیکن جوں جوں ان کے زوال کے آثار بڑھتے گئے، ان کی تقریبوں میں شان و شوکت کی بھی کمی ہوتی گئی یہاں تک کہ سلطنت کا چراغ ٹمٹمانے لگا اور وہ جب سنبھالا لے رہی تھی تو بہادر شاہ ظفر تخت نشیں ہوا۔ 

ڈاکٹر جمیل جالبی اردوادب کی کثیر الجہت شخصیت

ڈاکٹر جمیل جالبی اردوادب کی کثیر الجہت شخصیت

ڈاکٹر جمیل جالبی ان بزرگان ادب میں شمار ہوتے ہیں جن کی تشہیر و تکریم ان کی زندگی میں بھی بہت زیادہ کی گئی

اشعار کی صحت!

اشعار کی صحت!

کالموں میں لکھے گئے غلط اشعار کا تعاقب کرنا اور پھر تحقیق کے بعد درست شعر تلاشنا کسی صحرا نوردی اور آبلہ پائی سے کم ہر گز نہیںہوتا۔ نوآموز قلم کاروں کو کیا دوش دیں کہ ہمارے بزرگ صحافی بھی اکثر و بیشتر اپنے کالموں میں نہ صرف غلط اشعار لکھتے ہیں بلکہ ان ہی غلط اشعار کو اپنی تحریروں میں دہراتے بھی رہتے ہیں۔ کلاسیکل شعراء کے کلام پر جس طرح ستم ڈھایا جا رہا ہے، اس سے ادب کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ کے وہ اشعار بھی غلط لکھ دیئے جاتے ہیں جو زبان زدِ عام ہیں۔

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی ٹوئنٹی سیریز:کیویز کی آج شاہینوں کے دیس آمد

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی ٹوئنٹی سیریز:کیویز کی آج شاہینوں کے دیس آمد

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم 5 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کیلئے آج اسلام آباد پہنچ رہی ہے جبکہ گرین شرٹس کا قومی ٹی ٹوئنٹی سکواڈ بھی آج اسلام آباد رپورٹ کرے گا۔ کیویز کیخلاف شاہینوں کے امتحان کا آغاز چار روز بعد 18 اپریل سے پنڈی کرکٹ سٹیڈیم سے ہو گا۔

ٹوٹا ہاتھی کا گھمنڈ

ٹوٹا ہاتھی کا گھمنڈ

پیارے بچو!دور دراز کسی جنگل میں ایک دیو قامت ہاتھی رہا کرتا تھا۔جسے اپنی طاقت پر بے حد گھمنڈ تھا۔جنگل میں جب وہ چہل قدمی کرنے کیلئے نکلتا تو آس پاس گھومتے چھوٹے جانور اس کے بھاری بھرکم قدموں کی گونج سے ہی اپنے گھروں میں چھپ جایا کرتے تھے۔

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا
2023-09-16

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت
2023-09-02

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے
2023-08-16

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز