وثیقہ نویس مافیا بے قابو، قومی خزانے کو نقصان، ادارے روک تھام میں ناکام
ملتان(جان شیر خان)رجسٹری برانچ اور لینڈ ریکارڈ سنٹر ملتان میں کرپشن عروج پر پہنچ گئی ،وثیقہ نویس شہریوں سے گین ٹیکس اور ایف بی آر کی فیسوں کی مد میں اپنی مرضی کا ریٹ وصول کرنے لگے جبکہ جائیداد کی کم مالیت دیکھا کر تمام ٹیکسز اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں،رجسٹری برانچ اور لینڈ ریکارڈ سنٹر میں موجود کلرکس اور آر او ڈیز وثیقہ نویسوں سے اپنا حصہ لیکر تمام رجسٹریاں پاس کر دیتے ہیں۔
کئی وثیقہ نویس سب رجسٹرار کے جعلی دستخط کیساتھ بھی رجسٹریاں پاس کراتے ہیں۔سابق سب رجسٹرار محسن نثار کے دور میں بھی وثیقہ نویس نے کئی رجسٹریاں سب رجسٹرار کے جعلی سائن کیساتھ پاس کرا کر کروڑوں روپے کمائے جس پر سابق سب رجسٹرار نے قانونی کارروائی کیلئے پولیس کو متعلقہ وثیقہ نویس کیخلاف استغاثہ بھی بھیجا تاہم ایف آئی آرز اور کیسز کے باوجود تاحال ملزم وثیقہ نویس رجسٹری برانچ اور لینڈ ریکارڈ سنٹر میں آر او ڈیز کیساتھ ملی بھگت سے رجسٹریاں پاس کراتا ہے اور اب تک ٹیکسز کی مد میں گورنمنٹ کے خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا چکا ہے ۔
اینٹی کرپشن اور متعلقہ محکمے کے افسر جعلی سائن اور گورنمنٹ کے ٹیکسز ادا کئے بغیر رجسٹریاں پاس کرانے والے تمام وثیقہ نویسوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کر سکے ۔قانون کی کمزور گرفت کے باعث رجسٹری برانچ اور اراضی سنٹر میں کام کرنے والے اہلکاروں اور وثیقہ نویسوں کا حوصلہ بلند ہو چکا ہے ۔کروڑوں روپے مالیت والی رجسٹریاں سب رجسٹرار کے جعلی سائن کیساتھ پاس ہو جاتی ہیں جس سے گورنمنٹ کی کوئی بھی فیس ادا نہیں ہوتی تاہم وثیقہ نویس گورنمنٹ ٹیکسز کی جعلی رسیدیں شہریوں کو دیکھا کر ان سے کروڑوں روپے بٹور لیتے ہیں اور عملے کی ملی بھگت سے سالوں سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ۔
شہر میں تین سے چار وثیقہ نویسوں کے علاوہ کسی کے پاس بھی وثیقہ نویسی کا لائسنس تک موجود نہیں تاہم اراضی سنٹر اور رجسٹری برانچ میں جعلی وثیقہ نویس دھڑلے سے جاتے ہیں اور کرپشن کی انتہا کرتے ہیں۔کئی وثیقہ نویسوں پر کیسز چل رہے ہیں لیکن ان کیسز کے باوجود وثیقہ نویس سرکاری دفاتر رجسٹری برانچ اور اراضی سنٹرز میں اپنی مرضی کے کام نکلواتے ہیں۔سابق کمشنر ملتان جاوید محمود بھی سب رجسٹرار کے جعلی دستخط کا نوٹس لیکر وثیقہ نویسوں کیخلاف کاروائی کا حکم دے چکے ہیں تاہم جعلی دستخط کرنے والے وثیقہ نویس کورٹ سے ضمانتیں لیکر دوبارہ رجسٹری برانچ کا رخ کرتے ہیں اور شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کیساتھ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا کام دوبارہ سے شروع کر دیتے ہیں۔