یہ مجید امجد صدی ہے اور اس بے مثال شاعر کی دریافت در دریافت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس سلسلے کی اولین کتابوں میں ناصر شہزاد‘ ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر سید عامر سہیل کی تصنیفات ہیں جبکہ یہ ڈاکٹر سید عامر سہیل کی اس موضوع پر دوسری کتاب ہے۔ ڈاکٹر خواجہ ذکریا اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا اس سلسلے میں نہایت قابل قدر کام اس کے علاوہ ہے۔ کوئی ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل یہ تحفہ کتاب پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی لاہور نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 350 روپے رکھی گئی ہے‘ اور جس میں مجید امجد کے سوانح‘ شخصیت اور نظم نگاری کا فکری اور فنی جائزہ لیا گیا ہے۔ خوبصورت اور دیدہ زیب سرورق محمد جاوید کے موقلم کا نتیجہ ہے جبکہ اسے مصنف نے اپنی امی اور ابا کے نام سے منسوب کیا ہے۔ مصنف نے پی ایچ ڈی بھی مجید امجد ہی کے حوالے سے کی جبکہ اس موضوع پر ڈاکٹر وزیر آغا کے بعد یہ دوسری مبسوط کتاب ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے پیش لفظ بعنوان ''اپنے لیکھ یہی تھے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 2000ء میں‘ میں نے اس موضوع پر کام کا آغاز کیا۔ تلاش و جستجو کے سفر میں ساہیوال‘ جھنگ‘ لاہور‘ کراچی اور بہت سے ایسے شہروں کا سفر درپیش رہا جہاں موضوع کے بارے میں مواد یا معلومات ملنے کا امکان تھا۔ مجید امجد کے قریبی احباب‘ ملنے والے اور جو شخص کسی بھی تعلق سے ان سے وابستہ رہا‘ میں نے اُس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی... مجید امجد کی سروس بک‘ مجید امجد کے نام اہل خانہ اور دوستوں کے خطوط‘ محکمانہ ڈائریاں‘ علم فلکیات کے موضوع پر نامکمل مسودہ وغیرہ سے مدد حاصل کی۔
ہمارے دوست ڈاکٹر تبسم کاشمیری اپنے دیباچہ میں مجید امجد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کے ادبی مرکز لاہور سے دور ساہیوال میں بیٹھ کر وہ کس طرح سے اپنی روایتی شاعری کے تجربے سے بلند ہوتا ہے اور کس انداز سے اپنی زبان کی لسانی تشکیل کرتا ہے اور پھر کس اسلوب سے اپنی شاعری کو خیال‘ فکر‘ تصورات اور جمالیات کے تشکیلی عمل سے گزارتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اس کے تجربے کا جوہر تھا یا اس پر لاہور میں جنم لینے والی نئی شاعری کی روایت کا عکس پڑا تھا۔ مسئلہ کچھ بھی ہو‘ اس نے اپنی شاعری کو جدید شاعری کی روایت سے بہت بلند کر کے دیکھا اور یہی وہ بات ہے‘ جو اسے اس دور کا ایک بڑا شاعر بناتی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت نے مجید امجد کی شاعری پر تنقید کا ایک نیا باب کھول دیا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ کتاب مجید امجد پر کتابِ حوالہ کی حیثیت کر جائے گی‘‘۔
کتاب کا پہلا باب مجید امجد کے سوانح اور شخصیت پر ہے جس میں قدم قدم پر مصنف کی غیر معمولی کاوشوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ دوسرا باب مجید امجد کی شعری تخلیقات کے تحقیقی احاطے پر مشتمل ہے۔ تیسرا باب مجید امجد کی نظم نگاری اور چوتھا باب مجید امجد کی شاعری کے فنی اسالیب سے بحث کرتا ہے جبکہ پانچواں باب حاصلِ بحث پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر سید عامر سہیل چونکہ خود شاعر بھی ہیں اس لیے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے مجید امجد کی شاعری کے اندر داخل ہو کر یہ معرکہ سر کیا ہے اور اس شاعری کا کوئی گوشہ بھی ان کی تخلیقی رسائی سے دور نہیں رہا۔ کتابیات کے سلسلے میں انہوں نے جن منابع سے
فیض حاصل کیا ہے‘ ان میں تحقیقی‘ تنقیدی و تخلیقی کتب‘ غیر مطبوعہ تحقیقی مقالات بحوالہ مجید امجد‘ ملاقاتیں‘ انٹرویوز‘ خطوط‘ دستاویزات‘ رسائل کے مجید امجد نمبر‘ اہل خانہ (بیگم مجید امجد‘ اقبال بیگم‘ سجاد احمد) خط بنام مجید امجد‘ احباب و دیگر (شالاط‘ جعفر طاہر‘ تخت سنگھ‘ شیر محمد شعری‘ وزارت اطلاعات و نشریات‘ مجید امجد کے خطوط بنام احباب (صفدر سلیم سیال‘ منیر فاطمی) مجید امجد کی تخلیقات (قلمی) کے عکس۔
مجید امجد کے آبائو اجداد‘ مجید امجد کی خاندانی زندگی‘ اس کے دوست احباب‘ جن کی تعداد بہت کم رہی اور اس کا افسوسناک سفرِ آخرت جیسے موضوعات کے حوالے سے مصنف نے جس جانفشانی اور ژرف نگاہی سے کام لیا ہے وہ اپنی جگہ نہایت قابلِ قدر ہے کیونکہ شاعر کی زندگی کے یہی گوشے ابھی تک گمنامی میں تھے۔ اسی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ مجید امجد اپنی ملازمت کے آغاز میں کچھ عرصہ غالباً بطور انسپکٹر فوڈ میرے شہر اوکاڑہ میں بھی تعینات رہے‘ لیکن یا تو وہ اس وقت تک قابلِ لحاظ حد تک مشہور نہیں ہوئے تھے یا میرے اندر شاعری کے جراثیم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے‘ اس لیے کبھی شرف ملاقات حاصل نہ ہوا۔
مجید امجد نے اگرچہ چند غزلیں بھی لکھیں لیکن ان کی ساری توجہ نظم گوئی پر ہی رہی۔ شاید اسی لیے وہ اتنی جلدی شہرت بھی حاصل نہ کر سکے۔ علاوہ ازیں‘ وہ رسائل میں چھپنے چھپانے کے بھی کچھ اتنے
شوقین نہ تھے اور مراکز سے دوری کا بھی اس میں بہرحال ایک کردار تھا۔ ساہیوال میں ہونے والی ملاقاتوں کا احوال کہیں اور لکھ چکا ہوں جو مجید امجد کی شاعری کا پوری طرح احاطہ کرتا ہے جبکہ ان کی صحبت سے فیض پانے والوں میں میرے علاوہ منیر نیازی‘ نذیر ناجی‘ جعفر شیرازی‘ محمد امین اکبر‘ اکرم خان قمر‘ اسرار زیدی‘ معیز الدین احمد‘ ناصر شہزاد‘ حاجی بشیر احمد بشیر‘ گوہر ہوشیارپوری‘ اشرف قدسی‘ یٰسین قدرت‘ قیوم صبا‘ مراتب اختر اور کئی دوسرے شامل ہیں۔
یہ کتاب پڑھ لینے کا مطلب ہے کہ آپ نے مجید امجد سے بھرپور ملاقات کر لی کیونکہ مصنف نے اس بارے جانکاری حاصل کرنے میں اس کا پورا پورا حق ادا کردیا ہے جبکہ مجید امجد کی شاعری کا تجزیہ غیر معمولی اور غیر روایتی ہے۔ میرے خیال میں اس کتاب کا پیپر بیک ایڈیشن بھی شائع ہونا چاہیے تاکہ طلبہ سمیت زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔ ویسے تو مجید امجد صدی ابھی جاری ہے اور اس شاعر پر ابھی بہت کام ہوگا کیونکہ ایسی شاعری کی پرتیں آہستہ آہستہ ہی کھلتی ہیں اور اس شاعری نے ابھی اور بہت سی زمینوں کو سیراب کرنا ہے۔
آج کا مطلع
روز روز دل کی یہ حالت ہوتی رہنی چاہیے
مجھ سے اگر پوچھیں تو محبت ہوتی رہنی چاہیے