تحریر : ڈاکٹر عائشہ صدیقہ تاریخ اشاعت     29-01-2015

تبدیلی کا چیلنج

یہ امر باعث ِ اطمینان کہ ریاست پنجاب میں کسی نہ کسی حد تک کارروائی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ انتہا پسندگروہوں کے ارکان کو پکڑا جا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پولیس، جسے چند ماہ پہلے تک ناکارہ فورس قرار دیا جاتا تھا،نے بھی ''صفائی ‘‘کی مہم شروع کردی ۔ اس کے نتیجے میں جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں لوگوں نے جرائم کی شرح میں کمی محسوس کرنا شروع کردی، جبکہ کچھ مخصوص گروہوں کے ارکان بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ 
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اچھے یا برے طالبان کی طرف سے فی الحال کسی ردِ عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑ ا۔ اس کا مطلب ہے کہ پنجاب میں ایسے گروہوں کو کچلنا کبھی بھی ناممکنات میں سے نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سے تجربہ کار صحافی حضرات بھی کہا کرتے تھے کہ چونکہ پنجاب میں فوجی آپریشن ممکن نہیں،اس لیے بہتر ہے کہ ان گروہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر محاذوں پر توجہ مرکوز رکھی جائے ۔ کسی نے بھی اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ پنجاب کو انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کی مشترکہ کوششوںسے جرائم پیشہ عناصر اور انتہا پسندوںسے پاک کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کھل کر کام کرنے دیا جائے اور ان کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں تو وہ نتائج دے سکتے ہیں۔ یقینا اگر ریاست چاہے تو انتہا پسندوں کا بلا خوف و خطر قلع قمع کر سکتی ہے۔ 
تاہم اس سے پہلے کہ ہم اس پیش رفت پر مطمئن ہوجائیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لوگوں کو ا س سے پہلے بھی اٹھایا گیا ، لیکن پھر اُنہیںاگر ہفتوں نہیں تو بھی کچھ مہینوںکے بعد رہا کردیا گیا۔ ہر ضلع میں مشتبہ افراد کی ایک فہرست موجود ہوتی ہے۔ جب بھی ملک میں سکیورٹی سے متعلق مسائل سراٹھاتے ہیں یا ماحول گرم ہوتا ہے تو ان افراد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک مرتبہ پھر یہی ڈرامہ دہرایا جارہا ہو؟اگرایسا ہوتا ہے تو بھی پولیس کو ان یا ان میں سے کچھ رہا کردہ افراد پر نظر رکھنا پڑے گی۔ ایسے گروہوں کی نگرانی کاعمل دشوار تر ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ صرف صلاحیت کا فقدان ہی نہیں بلکہ کچھ انتہا پسند گروہوںکے خلاف کیا جانے والا آپریشن او ر کچھ سے اغماض کی پالیسی بھی ہے۔ بہت سے لوگ دلیل دیتے ہیں کہ حکومت اور فوج نے ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جو ریاست کے لیے مشکلات پیدا نہیں کررہے تھے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے ، جیسا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے، بہت محتاط طریقے سے مرحلہ وار آگے بڑھا جائے ۔ چنانچہ منصوبہ یہ ہے کہ پہلے برے گروہوں کا خاتمہ کیا جائے اور پھر دیگر گروہوں کی طرف متوجہ ہوا جائے۔ یہ بات کہی نہیں جارہی، لیکن سول سوسائٹی نے کم ازکم یہی مراد لی ہے۔ تاہم یہ خام خیالی ہے۔ 
پہلی بات یہ ہے کہ ماضی میںہم نے دیکھا کہ انتہا پسندجنگجوئوں کے صبر کا پیمانہ بہت جلد لبریز ہوجاتا ہے اور وہ اپنے غیرمتحرک گروہ کو چھوڑ کر اُس گروہ کے ساتھ جاملتے ہیں جوپرتشدد کارروائیاں جاری رکھتا دکھائی دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان جنگجوئوں کو قیام ِ امن کے لیے نہیں بلکہ جہاد کے لیے بھرتی اور تیار کیا گیا ہوتا ہے، چنانچہ وہ اس کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اُن گروہوں، جن کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور وہ جنہیں اچھا سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے، کے درمیان نظریاتی طور پرکوئی فرق نہیں ۔ یہ گروہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست کے ساتھ الجھنے سے گریز کرتے ہیں اگر اُنہیں اپنا بچائو دکھائی دے۔ تاہم ان کی عملیت پسندی اُن سے تقاضا کرتی ہے وہ اپنی پوزیشن کو مستحکم کرتے رہیں تاکہ وقت آنے پر وہ اپنی نئی گروہ بندی کرنے کے قابل ہوجائیں۔ ایک بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ اُن کے پاس کارروائیاں کرنے کا اہم ترین جواز ان کے نظریات ہیں اور جو بھی حالات ہوں، ان کے نظریات اپنی جگہ پر موجود رہتے ہیں۔ جن محفوظ گروہوںکے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی ، اُنھو ں نے خود کواز سر ِ نو منظم کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کے مطبوعہ اور سوشل میڈیا پر ڈالے گئے موادپر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اُن کا آپشن ہے کہ وہ ریاست کو براہ ِ راست چیلنج کرنے سے گریز کریں لیکن وہ اپنے مقاصد سے روگردانی نہ کریں۔ 
پشاور سانحے نے لوگوں کو لرزہ کر کے رکھ دیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ بھی ممکن ہے کہ عام لوگ انتہا پسندوں کے نظریات کے چنگل میں پھنس جائیں کیونکہ یہ مذہب کے نام پر بات کرتے ہیں۔ بھلا توہینِ رسالت کی مذمت کرنے اور مذہب کی بات کرنے پر کس کو اعتراض ہوسکتا ہے؟ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ بہت سے انتہا پسند مذہب کی آڑ میں چھپ جاتے ہیں۔ ہمیں ایک بات میں بہت واضح رہنا ہوگا کہ انتہا پسندی دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ بہت دیر تک اپنی موجودگی برقرار رکھ سکتی ہے کیونکہ یہ براہ ِ راست تشدد نہیں پھیلاتی۔ چنانچہ اس کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں نکلتا۔ اسی طرح یہ بھی خام خیالی ہے کہ یہ گروہ کبھی بھی معاشرے کے مرکزی دھارے میں نہیں آسکیں گے۔ 
اس دلیل کے ساتھ ہمدردی ہی کی جاسکتی ہے کہ ہم نے کچھ گروہوں کو پریشان کن ہمسایوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بطور اثاثہ اپنے پاس رکھنا ہے۔دوسری طرف اس دلیل میں بہت جان ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر سیاسی حرکیات کی وجہ سے پاکستان کو ان گروہوں کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا بہت مہنگا پڑے گا۔ چنانچہ ان سے چھٹکارا پانے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔ یاد ر ہے کہ نظریاتی افکار کا پھیلائو بہت تیز ہوتا ہے۔ ایسے گروہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ حساس معاملات کو اچھالتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کرلیں اور ریاست اور سول سوسائٹی منہ دیکھتی رہ جائے گی اور یہ گروہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 
ان مسائل کا کوئی سادہ حل نہیں ہے۔ اگر ریاست دو بنیادی کام۔۔۔۔ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا اور یہ کھلے دل سے اعتراف کرنا یہ انتہا پسند غیر ملکی نہیں بلکہ ہمارے اپنے معاشرے کے پروردہ لوگ ہیں جن کے خلاف ہمیں لڑنا ہے۔۔۔نہیں بھی کرتی تو بھی اسے ان گروہوں کے بیانیے کو معاشرے میں پھیلنے اور حمایت حاصل کرنے سے روکنا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved