تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-01-2015

کرنے کا ایک کام!

ایک شخص کو اس کے دوست نے بتایا کہ فلاں آدمی تمہارے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلاتا رہتا ہے۔ ''کوئی بات نہیں‘‘ موصوف نے جواب دیا، ''لیکن اسے بتا دو کہ اگر اس نے میرے بارے میں سچی باتیں پھیلانا شروع کردیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا!‘‘ 
جھوٹ سچ کا تنازع ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎ 
جھوٹ سچ کو دیکھ لیتے‘ یہ تمہارا کام تھا 
بات سن لیتے کبھی‘ اتنا ہی سارا کام تھا 
محاورے میں جھوٹے پر سو بار بلکہ ہزار بار لعنت بھی بھیجی گئی ہے جو بادی النظر میں ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ کسی کے پاس بھی اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ یہ کام ہزار بار کرنے کا تردد مول لیتا پھرے‘ البتہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بار لعنت بھیج کر اُسے ہزار سے ضرب دے دے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دروغ گو را حافظہ نباشد؛ بلکہ یہ بھی کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے؛ حالانکہ کوئی بھی جھوٹی کہانی اچھا خاصا سفر کر سکتی ہے اور وہ پائوں کی محتاج ہوتی ہی نہیں‘ اس کے مقابلے میں سانچ کو آنچ نہیں پر اس لیے یقین نہیں کیا جا سکتا کہ اچھے بھلے سچ کو محض قافیہ ملانے کی خاطر سانچ کردیا گیا ہے یعنی اس لفظ کو بگاڑا ہی اتنا گیا ہے کہ اسے مزید کسی آنچ کی ضرورت ہی نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے جتنے منہ اتنی باتیں۔ جن میں
زیادہ تر جھوٹی ہی نکلیں گی؛ تاہم جھوٹ بول کر اس پر قائم رہنے کے لیے صاحبِ کردار ہونا ضروری ہے۔ یعنی دروغ برگردن راوی۔ اور‘ راوی بے چارے کو اس میں خواہ مخواہ گھسیٹ لیا گیا ہے جبکہ اس کی اپنی حالت یہ ہے کہ پانی کی بجائے ایک عرصے سے اس میں خاک اُڑ رہی ہے؛ تاہم اگر دیواروں کے کان ہو سکتے ہیں تو دریائے راوی بھی‘ جھوٹ سچ کچھ بھی بول سکتا ہے۔ 
آدھا سچ وہ ہوتا ہے جس میں آدھا جھوٹ شامل ہو حالانکہ جس طرح ایک مچھلی سارے جل کو گندا کر سکتی ہے اس طرح آدھا جھوٹ آدھے سچ کو بھی لے کر بیٹھ جائے گا؛ تاہم جھوٹ اور سچ کا نتارہ کرنے کے لیے عدالتی نظام موجود ہے کہ دونوں فریقوں میں سے سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟ اگرچہ اکثر اوقات سچا فریق بھی کسی نہ کسی حد تک جھوٹا ضرور ہوتا ہے۔ اب عمران خان کے خلاف جسٹس افتخار محمد چودھری کا دس ارب روپے کے ہرجانے کا مقدمہ ہی دیکھ لیجیے جس کے بارے میں تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ عمران خان نے جسٹس موصوف کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنا شروع کردیئے ہیں جبکہ دونوں ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ میں نے ایک بار شرارتاً لکھا تھا کہ شہزاد احمد، منیر نیازی کو شاعر نہیں مانتے اور منیر نیازی کی رائے میں شہزاد احمد شاعر نہیں ہیں؛ تاہم یہ دونوں اس قدر معتبر شخصیات ہیں کہ دونوں میں سے کسی کی بات کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا جبکہ جسٹس صاحب اور عمران خان دونوں ہی انتہائی معتبر شخصیات ہیں اس لیے کوئی کیا کہہ سکتا ہے؛ تاہم دونوں فریق زوروں پر ہیں اور اس عدالتی جنگ کے لیے دونوں اپنی اپنی کمر کسے ہوئے ہیں اور ہم دونوں کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں! 
ایسے مقدمات کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ملزم یا الزام الیہٖ کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی بجائے مستغیث یعنی مدعی کو اپنا کیس ثابت کرنا پڑتا ہے اور دوسرے یہ کہ خلاف روایت‘ دوران جرح مستغیث سے ہر طرح کا سوال پوچھا جا سکتا ہے‘ یعنی ایسا سوال بھی جو انتہائی ذاتی ہو اور عدالت عام حالات میں اس کے پوچھنے کی اجازت نہیں دیتی‘ حتیٰ کہ اس کے کردار اور گھریلو زندگی کے بارے میں بھی سوال پوچھے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے عام طور پر لوگ ایسے مقدمات دائر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اور‘ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عزیزی ارسلان افتخار بھی بڑھ بڑھ کر بیان دے رہے اور فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں حالانکہ بہت سے سوالات ان کے بارے میں بھی پوچھے جائیں گے اور وہ گرد ایک بار پھر اڑائی جائے گی جو چیف جسٹس صاحب کے عہدۂ ملازمت کے وقت اڑائی گئی تھی۔ 
جہاں تک عمران خان کا سوال ہے تو وہ ایک تو اس مقدمے میں مدعا الیہٖ ہیں اور جرح میں ان سے کوئی ایسا ویسا سوال نہیں پوچھا جا سکتا۔ نیز وہ ایک سیاسی شخصیت ہیں اور اہلِ سیاست ایسی باتوں اور الزامات کو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ لیکن جسٹس صاحب کا معاملہ سراسر مختلف ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ رہے ہیں اور ایسے مقدمات میں مستغیث پر عموماً گند ہی اچھالا جاتا ہے جبکہ یہ صورت حال عام آدمی کے لیے بھی انتہائی ناگوار ہوگی۔ جسٹس صاحب نے عمران خان کے الزامات کی کھل کر تردید کردی تھی اور ہمارے خیال میں یہی کافی تھا اور اپنی پوزیشن کے پیش نظر انہیں اس حد تک جانے کی ضرورت نہیں تھی جبکہ اس مقدمے کی سماعت ان جج صاحبان کے لیے بھی زیادہ خوشگوار نہیں ہو سکتی جن کے سامنے ان کے سابق چیف جسٹس سے ایسے سوالات بھی پوچھے جائیں گے جن کے لیے کوئی حد بھی مقرر نہیں ہے۔ شاید اس کے ذمہ دار عمران خان خود بھی ہوں جنہوں نے صاحبِ موصوف کے خلاف اپنے الزامات کو بار بار دہرانا بھی ضروری سمجھا‘ بلکہ ان کی شدت میں اضافہ ہی کرتے چلے گئے۔ 
سو‘ یہ صورتِ حال انتہائی ناپسندیدہ ہے اور اسے آگے بڑھنے سے روکنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ کارروائی عالمی تناظر میں بھی ایک بہت بُرا تاثر چھوڑے گی‘ اس لیے ضروری ہے کہ اس صورت حال سے بچنے اور اس میں سے نکلنے کی کوئی سبیل کی جائے۔ سیاستدانوں کا تو یہ وتیرہ ہے اور وہ جس پر جی چاہے‘ طرح طرح کے الزامات لگاتے ہی رہتے ہیں اور اسی لیے انہیں کوئی خاص اہمیت بھی نہیں دی جاتی جبکہ چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی ان کے مرتبے میں کوئی فرق نہیں آتا؛ چنانچہ کوشش یہی کی جانی چاہیے کہ بیچ بچائو کے ذریعے اس تاریخ کو ختم کرایا جائے۔ عمران خان معذرت کر لیں اور جج صاحب اسے قبول کر لیں۔ جسٹس ریٹائرڈ رمدے اور جناب نجم سیٹھی بھی! 
آج کا مطلع
بھلے کرتا رہے‘ انکار سے بھی کچھ نہیں ہوتا 
اب اپنی راہ کی دیوار سے بھی کچھ نہیں ہوتا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved