تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-01-2015

چینیوں نے کچھ نہیں سیکھا

لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ اُنہیں چین ترقی یافتہ دکھائی دیتا ہو۔ مگر سچ پوچھیے تو ہم اب تک چین کو خاصا ''پس ماندہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ کون سی ''قباحت‘‘ ہے جو چین میں عام نہیں؟ کرپشن برائے نام ہے، تعلیم عام ہے، لوگ محنتی اور ایمان دار ہیں، وقت کی پابندی مزاج اور نفسی ساخت کا حصہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چین کے لوگ اب بھی اپنی سرزمین سے، اپنی مِٹّی سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اور اِس محبت ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ انفرادی یا ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اب آپ ہی ہی بتائیے ع 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں! 
فی زمانہ اِتنی ساری ''عِلّتوں‘‘ کے ساتھ کوئی قوم ''ترقی‘‘ کرسکتی ہے؟ 
کل ہی یہ خبر پڑھی کہ مشرقی چین کے شہر نانجنگ میں ایک جعلی بینک کھولا گیا جو ایک سال تک کام کرتا رہا اور متعلقہ اتھارٹیز کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ بینک سرکاری بینکوں جیسا دکھائی دیتا تھا۔ اسٹاف بھی باقاعدگی سے آتا تھا اور طے شدہ ملبوس میں ہوا کرتا تھا۔ اِس بینک میں 200 افراد نے کھاتے کُھلوائے۔ ایک بزنس مین نے تو گھر بیٹھے سُود کے مزے لُوٹنے کے لیے 19 لاکھ ڈالر جمع کرادیئے۔ بینک نے کم و بیش 3 کروڑ 20 لاکھ بٹورے۔ بھانڈا یُوں پُھوٹا کہ 19 لاکھ ڈالر جمع کرانے والے بزنس مین کو دیئے جانے والے منافع کی شرح گھٹادی گئی۔ وہ تِلمِلا اُٹھا اور متعلقہ اتھارٹی سے شکایت کردی۔ اتھارٹی نے جب تحقیقات کی تو معاملہ یُوں اُبھرا جیسے بھرے ہوئے گٹر سے ڈھکن ہٹادیا گیا ہو۔ کیس پولیس کو سونپا گیا تو معلوم ہوا کہ امدادِ باہمی کے ایک ادارے نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بینک قائم کر رکھا تھا! ادارے کے پاس ایک طرف تو بینکنگ کا لائسنس نہیں تھا اور دوسری طرف اُس نے سرکاری بینکوں سے زیادہ شرح سے منافع دینے کا لالچ دے کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ گویا امدادِ باہمی کے ادارے نے بینک کھولا تو لوگوں نے بھی ''امدادِ باہمی‘‘ کا خوب مظاہرہ کیا اور اپنی کمائی جمع کرانے پہنچ گئے! 
آپ سوچیں گے یہ تو دیدہ دِلیری ہے کہ جعلی بینک قائم کرکے لوگوں کی خُون پسینے کی کمائی بٹور لی گئی۔ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ خیال بھی گردش کر رہا ہو کہ چینی معاشرے میں چَھل اور فریب اِس قدر ہے کہ جعلی بینک تک کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو یہ آپ کی سادہ لوحی ہے، اور کچھ نہیں۔ 
چینی معاشرے کو مَکر و فریب سے اَٹا ہوا قرار دینے سے پہلے ذرا چینی معاشرے کی دقیانسی سوچ اور ''ذہنی پس ماندگی‘‘ پر تو غور فرمائیے کہ وہاں آج بھی لوگوں کی کمائی لُوٹنے کے لیے جعلی بینک چلانا پڑتا ہے! چینیوں نے شاید اب تک سیکھا ہی نہیں کہ لوگوں کی جمع پُونجی کِس طور بٹوری جاتی ہے۔ ہم اِس معاملے میں، اللہ نظرِ بد سے بچائے، بہت آگے ہیں مگر کوئی ہماری ''شرافت‘‘ دیکھے کہ اِس ''خصوصیت‘‘ پر کبھی غرور نہیں کیا! 
پاکستان وہ ملک ہے جہاں لوگوں کی جیب خالی کرانے اور اُنہیں چُونا لگانے کے لیے جعلی بینک نہیں کھولنے پڑتے! اِس کام کے لیے باضابطہ اور قانونی طور پر کام کرنے والے بینک اور دیگر مالیاتی ادارے موجود ہیں! اور یہ بھی ریاستی مشینری کا احسان ہے کہ اُس نے کچھ با اثر لوگوں کو جعلی کام کے ذریعے ضمیر پر بوجھ بڑھانے سے بچالیا ہے۔ باضابطہ مالیاتی ادارہ کھولیے اور خوب مال بنائیے۔ دِل کو تسلّی بھی رہے گی کہ کوئی غلط کام نہیں کر رہے۔ بس یہ ہے کہ متعلقہ شخصیات کو اُن کا حصہ دیتے رہیے۔ 
کبھی کبھی لوگ بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے بنتے تھک جاتے ہیں یا بیزاری محسوس ہونے لگتی ہے تب ''منہ کا ذائقہ‘‘ بدلنے کے لیے سرمایہ کار کمپنیوں کا استقبال کرتے ہیں اور اپنی محنت کی کمائی اُن کے حوالے کرکے سُکون کا سانس لیتے ہیں! 1986ء کے آس پاس چند سرمایہ کار کمپنیاں اچانک نمودار ہوئیں اور بہت کچھ سمیٹ کر اچانک غائب ہوگئیں۔ اِن نام نہاد سرمایہ کار کمپنیوں نے ثابت کیا کہ کسی کو بے وقوف بنانا کوئی کمال نہیں۔ ذرا سے لالچ کے دانے پھینکیے اور پنچھی دام میں پھنسے ہی پھنسے۔ جو خود کو دانش کی دنیا کا طُرّم خاں سمجھتے تھے اُنہیں بھی ہم نے نام نہاد سرمایہ کار کمپنیوں کے جال میں پھنس کر بے بسی سے پھڑپھڑاتے دیکھا۔ جو کسی حقیقی ضرورت مند کو دیکھ کر جیب سے پُھوٹی کوڑی تک نکالنے کے روادار نہیں اُنہیں ہم نے، محض لالچ کے ہاتھوں، لاکھوں روپے خوشی خوشی ڈبوتے دیکھا! 
ایک سرمایہ کار کمپنی نے ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری پر ماہانہ سات ہزار روپے منافع ادا کرنا شروع کیا۔ لوگ دیوانہ وار اُس کمپنی کی طرف لپکے۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ کوئی بھی تجارتی بینک بہت تیر مار لے مگر تب بھی نو دس فیصد سالانہ سے زیادہ منافع نہیں دے سکتا۔ ایسے میں کوئی بھی ادارہ، جس کا سَر پیر بھی کم ہی لوگوں کو معلوم ہو، ایک لاکھ روپے پر سالانہ 84 ہزار روپے یعنی 84 فیصد منافع کیسے دے سکتا ہے! پاکستان کیا، پوری دنیا میں کہیں بھی کسی کاروبار میں اِتنا منافع کمانے کی صلاحیت نہیں۔ مگر ہزاروں افراد بے وقوف بن گئے۔ شاید یہی اُن کا مقدور تھا۔ لالچ کا ایسا ہی انجام ہوا کرتا ہے۔ جب کوئی لالچ کے گڑھے میں گِرتا ہے تب تباہی اُس کی قسمت میں لِکھ دی جاتی ہے۔ اور ؎ 
اپنی قسمت سے ہے مَفر کِس کو؟ 
تیر پر اُڑ کے بھی نِشانے لگے! 
خیر، وہ دور ابھی گیا نہیں۔ یہ قوم آج بھی فریب کھانے کو تیار ہے۔ اگر کِسی میں صلاحیت ہے تو آزما دیکھے، مایوسی نہ ہوگی۔ ذرا نم ہو تو یہ مِٹّی اب بھی بہت زرخیز ہے!
ہمارے بیشتر، بلکہ تقریباً تمام ہی تجارتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے قوم کو سادگی اور قناعت کی راہ پر ڈالنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اِن بینکوں میں کچھ جمع کر رکھیے تو مُنافع کے نام سے دیا جانے والا سُود اِتنا کم ہوتا ہے کہ وصول کرتے ہوئے اپنے آپ سے شرم محسوس ہوتی ہے اور بینک والوں کی ''بے بضاعتی‘‘ پر ترس آتا ہے! بینک والوں کو اچھی طرح احساس ہے کہ سُود حرام ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی محض جذباتی ہوکر سُود کھائے۔ یہی سبب ہے کہ وہ کم سے کم سُود دیتے ہیں تاکہ کھاتہ داروں کے معدے میں حرام کے لُقمے کم سے کم جائیں! 
یہی تجارتی بینک جب قرضے دیتے ہیں تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ قرضہ لینے والا بزنس مین زیادہ نہ کما پائے۔ مبادا مغرور ہوجائے! بینک زیادہ سے زیادہ سُود وصول کرتے ہیں یعنی زیادہ سے زیادہ عذاب اپنے سَر لیتے ہیں! ایسا ''ایثار‘‘ آپ کو کہاں ملے گا؟ 
تجارتی بینکوں سے قرضے لینے والے سُود ادا کرتے کرتے عِجز و اِنکسار کی تصویر بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں زندگی سے بیزاری دیکھ کر بے اختیارانہ یاد آتا ہے ؎ 
جگہ دِل لگانے کی دُنیا نہیں ہے 
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے
جو لوگ بینک سے قرضہ لے کر زندگی میں کچھ کرنے کی ٹھانتے ہیں اُن کا سفر ''... نہائے گی کیا، نچوڑے کیا‘‘ کی منزل پر ختم ہوتا ہے! اگر بینکوں سے قرضے لینے کے رُجحان کو پروان چڑھایا جائے تو لوگوں کے مزاج میں سادگی اور قناعت پسندی پنپتی جائے گی۔ یعنی بینکوں سے معاشرے کی اِصلاح کا کام بھی لیا جاسکتا ہے! 
ہمارے حکمرانوں، تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی چین میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں۔ حیرت ہے کہ ہمارے ''ہنر مندوں‘‘ نے اب تک چین کے لوگوں کو ''ترقی‘‘ کے اصلی تے وڈے گُر نہیں سِکھائے یا شاید چینی ہی سیکھ نہیں پائے! یعنی اِس معاملے میں پاکستان اور چین اب تک ایک پیج پر نہیں آسکے ہیں! اب تک تو چینیوں کو ہم سے بہت سے ''کمالات‘‘ سیکھ لینے چاہیے تھے۔ پس معلوم ہوا کہ چینیوں نے زمانے میں ''پنپنے‘‘ کی باتیں اب تک نہیں سیکھیں اور پُرانی ڈگر ہی پر ٹامک ٹوئیاں ما رہے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved