تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     29-01-2015

بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو

آغا ناصر براڈ کاسٹنگ کی دنیا کا معتبر نام ہیں۔وہ پی ٹی وی کے بانیوں میں سے ہیں۔اپنی آپ بیتی ''ہم جیتے جی مصروف رہے‘‘ میں انہوں نے ادیبوں ‘دانشوروں کی ایک دلچسپ محفل کا تذکرہ کیا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس محفل میں فیض بھی موجود تھے۔ ملک کے دگرگوں حالات پر سب لوگ اپنے وسوسوں اور خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ سماجی عدم انصاف رہا تو ملک کیسے چلے گا؟ کسی نے رائے دی کہ جمہوریت بحال نہ ہوئی تو پاکستان کا کیا بنے گا۔
فیض حسب عادت سب کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے‘ پھر سگریٹ کا ایک کش لگایا اور بولے‘ ''اس سے زیادہ خوفناک صورت حال یہ ہے کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہو گا اور یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا‘‘۔ فیض نے کہا کہ اس خوفناک سکوت اور جمہور کا اظہار ایک نظم ''شام‘‘ میں بھی ہوا ہے۔ جس کے چند مصرعے یوں ہیں۔
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامن شام
اب کبھی شام بجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا
ہر بڑے شاعر کی شاعری میں کچھ فیصد مستقبل کی پیشین گوئی‘ کا عنصر ضرور ہوتا ہے۔ وہ آنے والے وقت کی تصویر دیکھ سکتا ہے۔ دانشوروں کی اس محفل میں فیض نے جس خدشے کا اظہار کیا‘ یوں لگتا ہے کہ ہم اس وقت اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ بنیادی ضرورتوں کے لیے عوام کا ذلیل و خوار ہونا‘بجلی‘ گیس اور
پٹرول‘ کے بحران در بحران لیکن پھر بھی ملک کا چلتے رہنا۔ صحت کا ناکارہ نظام ‘ آئے دن بچوں کی اموات‘ امن و امان کی بدتر صورت حال۔ تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کہ سکولوں کی دیواریں نہیں اور سرکار کی طرف سے سکولوں کی سکیورٹی ہائی الرٹ کرنے کے احکامات جاری ہو چکے ہیں۔ایسے حالات میں ملک کے استحکام اور ترقی کے وژن سے عاری رہنمائوں اور لیڈروں، بے حس اور نااہل سیاستدانوں کے مضحکہ خیز فیصلے عوام کو بھگتنا ہی پڑتے ہیں۔مثلاً خیبر پختونخوا حکومت نے سکیورٹی اقدامات کے طور پر فیصلہ کیا کہ سکولوں میں اساتذہ اسلحہ لے کر جائیں گے اب وہاں خواتین اساتذہ کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ اس کی توجہیہ یہ پیش کی گئی کہ کسی بھی حملے کی صورت میں اساتذہ اپنے اسلحے کو استعمال کر کے دہشت گردوں کو مصروف رکھیں گے تاکہ اس دوران میں ریسکیو فورسز پہنچ جائیں۔ کیا بات ہے ہماری پلاننگ کی۔! استاد کا کام پڑھانا ہے۔ اگر اس نے سکیورٹی کا کام سنبھالنا ہے تو علم دینے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کو بلا لیں۔ ترکھان کا کام لوہار سے لوہار کا کام ترکھان سے لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایسا ہی خیال وزیر اعظم کے ترجمان مصدق ملک کو دیکھ کر بھی آتا ہے جو بنیادی طور پر فارماسسٹ ہیں۔ مگر توانائی بحران پر بھی خوب لیکچر جھاڑتے نظر آتے ہیں۔ سنا ہے کہ موصوف کو وزیر اعظم نواز شریف نے اس لیے اپنا خصوصی ترجمان مقرر کیا کہ ان کے بارے میں یہ شہرت ہے کہ وہ مخاطب کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ایسی کہ سائبیریا میں فریزر بیچ سکتے ہیں لیکن وہ بھی مجیب الرحمن شامی صاحب کے سامنے دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں پٹرول کے بدترین بحران پر حکومت کا دفاع کرنے میں ناکام نظر آئے۔چلیں ان کا لہجہ تو پھر معذرت خواہانہ ہی تھا مگر اس بحران کے اصل ذمہ دار وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی کارکردگی بھی ایک ''مثال‘‘ہے۔ جنہوں نے پٹرولیم بحران کا ذمہ دار میڈیا اور عوام کو ٹھہرا دیا۔ پٹرول پمپوں پر قطاروں میں لگے‘ ہاتھ میں بوتلیں تھامے‘ ضرورت کے ہاتھوں مجبور لوگوں کو آرام سے بھکاری کہہ دیا۔ عوام تو خیر حکومت کی مہربانیوں سے مسائل کی دلدل میں اس طرح غرق ہیں کہ انہیں فرصت ہی نہیں کہ یہ سوچیں کہ ان کے منتخب ایک عوامی نمائندے نے ‘جنہیں قسمت نے وزیر پٹرولیم بنا دیا ہے، انہیں بھکاری کہہ کر ان کی ''عزت افزائی ‘‘کی ہے۔منیر نیازی نے غلط تو نہیں کہا تھا ؎
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے نامعتبر اس شہر میں اس نے کیا
پٹرول بحران نے حقیقتاً پہیہ جام کر کے رکھ دیا تھا۔ پٹرول بحران نااہلی اور بدترین نالائقی کی کہانی ہے اور وزیر موصوف جو عوام کو بھکاری کہنے والے وزیر اس کے مرکزی کردار ہیں۔مگر وزیر اعظم کی ''تھپکی‘‘نے ثابت کر دیا کہ باپ کو نالائق بچے سے زیادہ پیار ہوتا ہے۔فیض نے جو بات کم و بیش تیس برس پیشتر کہی اس میں کس قدر سچائی تھی کہ سب سے خوفناک صورت حال وہ ہو گی جب یہاں کچھ ہی بھی نہیں ہو گا اورپھر بھی یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ سو پٹرول بحران بھی پوری شدت کے ساتھ پیدا ہوا، یہ ملک چلتا رہا‘ حکومت چلتی رہی۔ عوام پہلے سے زیادہ مضبوط قوم بن کرکسی نئے بحران سے نمٹنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں۔!
پے درپے حالات کی بدترین صورت دیکھنے کے بعد‘ اب پاکستانی عوام کی قوت مدافعت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہم چھوٹی موٹی خبروں کا نوٹس ہی نہیں لیتے۔مثلاً بلوچستان‘ ڈیرہ بگٹی میں کالی کھانسی کی وبا سے صرف 16دن میں 13بچے ہلاک ہو گئے مگر اس خبر سے عوام یا ذمہ داران میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوئی۔باہر کے اخبارات نے اس خبر کو نمایاں جگہ دی کیونکہ دنیا بھر میں کالی کھانسی سے بچائو کی ویکسین کامیابی سے بیماری کا علاج کر رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں ہر وہ بیماری جو دنیا میں ختم ہو چکی ہے‘ پھر سے جڑ پکڑ رہی ہے۔ صحت کا نظام منہدم ہو چکا ہے۔ یا پھر یوں کہنا بہتر ہو گا کہ صحت کا بنیادی ہیلتھ یونٹ اپنی صحیح اور کارآمد شکل میں کبھی یہاں پر وان نہیں چڑھایا گیا۔ بلوچستان کی جس پسماندہ تحصیل ڈیرہ بگٹی میں یہ وبا پھوٹی ہے۔ وہاں بیس ہزار کی آبادی کے لیے ایک ہیلتھ یونٹ موجود ہے۔ جو تمام بچوں کو ویکسین دینے سے قاصر ہے ‘ حکومت اور سماج دونوں کی بے حسی اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ تھر میں سینکڑوں بچے مر گئے۔ اب بھی ہر روز اخبار میں دو چار بچوں کے مرنے کی خبر چھپی ہوتی ہے ۔ مگر اس سے نہ تو حکمرانوں کی کرسی ہلتی ہے‘ نہ ذمہ داران کے ضمیر پر کوئی بوجھ پڑتا ہے۔ یاد آیا کہ یہ خبر بھی میں نے کسی اخبار میں پڑھی تھی کہ سرکار نے مری کا پُرانا گھر سیاسی سرگرمیوں کے لیے مختص کر دیا ہے اور چھانگلہ گلی مری میں اپنے خاندان کے لیے‘ 20کنال پر مشتمل ایک شاندار محل تعمیر کروایا ہے۔!!
بات فیض سے شروع ہوئی تھی چلئے فیض ہی کے شعر پر ختم کرتے ہیں ؎
بولو کہ شورِ حشر کی بنیاد کچھ تو ہو
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved