ہم ایک عجیب ملک بن کر رہ گئے ہیں ۔ یہاں کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں کسی اہم عہدے پر فائز شخص نے کبھی اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے ازخود یہ سوچ کر اپنا عہدہ چھوڑا ہے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام رہا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے جس طرح تیل بحران کا جواز پیش کیا ہے‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم اخلاقیات کی کس گہرائی میں جاگرے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اسحاق ڈار نے‘ جو ڈپٹی وزیراعظم ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر اس وقت وزیراعظم ہائوس میں کوئی پرندہ (میری مراد ہے کوئی وزیر یا بیوروکریٹ) پر تک نہیں مارسکتا۔ جو لوگ حکمرانوں کو جانتے ہیں انہیں علم ہے کہ انہیں سنجیدہ اجلاسوں اور باتوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف گپ شپ کے شوقین ہیں۔ سنجیدگی کے تمام کام انہوں نے اسحاق ڈار کے ذمے لگا رکھے ہیں جن کے اثاثے بھی نواز شریف کی طرح اس سال بڑھ گئے ہیں ۔ شاید وہ کہیں گے کہ ان کے اپنے بیٹے علی نے انہیں چالیس کروڑ روپے کے قرض حسنہ میں سے بیس کروڑ روپے واپس کر دیے ہیں۔ اگر یہ بات ہوتی تو پھر ان کے اثاثے اس وقت نوے کروڑ ہونے چاہئیں تھے‘ نہ کہ ستر کروڑ جو انہوں نے اپنے گوشواروں میں دکھائے ہیں۔ یہ ایک طویل کہانی ہے کہ ہم لوگ اپنے ہی ملک کو دھوکا دینے کے لیے کیا کیا کرتب کرتے رہتے ہیں‘ کیونکہ ہمیں علم ہے ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
سابق اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان طاہر محمود نے ایک دفعہ بتایا کہ انہوں نے پنجاب کی تگڑی پارٹی کے نوے کروڑ روپے کے بلز روک لیے کیونکہ وہ جعلی تھے۔ اس پر انہیں پیپلز پارٹی کے ایک بڑے صاحب نے بلا کر کہا کہ ادا کردیں۔ انہوں نے انکار کر دیا‘ جس پر پنجاب میں تعینات ایک افسر نے جو اس وقت شہباز شریف کے ساتھ پنجاب میں کام کر رہے تھے‘ نے بڑی شاباش دی۔ وہ افسر اچھی شہرت رکھتے تھے۔ اسحاق ڈار نے انہیں ایف بی آر کا افسر لگا دیا۔ ایک دن انہی صاحب نے طاہر محمود کو فون کیا کہ مہربانی کر دیں‘ وہ نوے کروڑ روپے کے بلز کلیئر کر دیں۔طاہر محمود ہکا بکا رہ گئے کہ کیسے ایک اہم سیٹ پر تعیناتی نے اس افسر کا دل بدل دیا تھا۔ بہرحال کسی اور نے وہ نوے کروڑ کے بل کلیئر کر دیے۔
یہ ہے آج کا پاکستان‘ جہاں کسی کو کوئی خوف نہیں۔ سب کو پتہ چل گیا ہے کہ جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لو۔ میرے جیسے چند لوگوں کو رات کے کھانے پر بلا لو، انہیں تھوڑی سی اہمیت دو اور بس۔ وہ عمر بھر آپ کا دفاع کرتے رہیں گے۔ وہ لوگوں کو جمہوریت کے فوائد گنوائیں گے اور بتائیں گے کہ جناب دنیا بھر کی جمہوریتوں میں کرپشن چلتی ہے‘ اس لیے صبر کریں اور ان لٹیروں کو ہرگز کچھ نہ کہیں وگرنہ جمہوریت کا بستر گول ہوجائے گا۔ سیاستدان میرے جیسے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں‘ خود کروڑوں روپے کماتے ہیں‘ بچے بیرون ملک شفٹ کرتے ہیں اور میرے جیسوں کے گھر آموں کا ٹوکرا‘ کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا کیک یا پھر اس کے کہنے پر کسی افسر کا تبادلہ۔ یہ ہے وہ قیمت جو ہم جمہوریت بچانے کے لیے وصول کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے۔ کوئی صحافی آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ ورجینیا کے گورنر کو پچھلے دنوں دو سال کی سزا ہوئی ہے کیونکہ وہ اور اس کی بیگم تحائف اکٹھے کررہے تھے۔ تحائف سے یاد آیا‘ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ جب جنرل آصف نواز امریکہ آئے اور ان کی ملاقات پینٹاگون میں ڈک چینی سے ہوئی تو وہ ڈک چینی کے لیے ایک انتہائی قیمتی قالین کا تحفہ لائے جسے دیکھ کر ڈک چینی کی آنکھوں میں چمک ابھری۔ پوچھا‘ مالیت کیا ہوگی۔ اس سے پہلے کہ جنرل آصف بولتے، عابدہ حسین بول پڑیں کہ چار ہزار ڈالر۔ عابدہ حسین کو پتہ تھا کہ ڈک چینی کو قالین پسند آیا تھا
لیکن ان کی گفٹ رکھنے کی لمٹ چار ہزار ڈالر تھی اور اس سے زیادہ اسے بحق سرکار جمع کرانا پڑے گا۔ عابدہ حسین کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں جنرل نواز اس سے زیادہ قیمت نہ بتادیں۔
یہ بھی کوئی نہیں بتائے گا کہ نیویارک کے سپیکر کو گرفتار کر لیا گیا ہے کیونکہ موصوف پر کرپشن کے الزامات تھے اور یہ بھی نہیں بتائے گا کہ اگر جمہوریت میں احتساب نہیں ہے تو وہ آمریت سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں جو جتنا مال کماتا ہے وہ اتنا ہی نیب‘ ایف آئی اے اور پولیس کے لیے معزز ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان کرپٹ سیاستدانوں کے آگے وہی بیوروکریٹس بچھے بچھے جاتے ہیں جنہوں نے ان کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے وزیراعظم گیلانی کے ایک وزیر‘ جن کا تعلق فاٹا سے تھا‘ کی منی ایکسچینج منی لانڈرنگ میں ملوث تھی۔ ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ نے انہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ایک خط وزیراعظم گیلانی کو لکھا گیا۔ گیلانی صاحب کو اپنی جمہوریت خطرے میں نظرآئی اور کچھ دن بعد طارق کھوسہ ڈی جی ایف آئی اے نہیں رہے۔ وہ وزیر کھل کر مال کماتے رہے اور شکر ادا کرتے رہے کہ جمہوریت بچ گئی۔
نہ پیپلز پارٹی دور میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی‘ نہ اب ہورہی ہے۔ جو بھی نیب کا چیئرمین لگا ‘وہی عدالت میں ملزم کا وکیل بن گیا۔ فصیح بخاری سے لے کر قمرالزماں چوہدری تک سب حکمرانوں کا دفاع کرتے آئے ہیں۔ وجہ سب کو معلوم ہے۔
تیل کا اتنا بڑا بحران آیا‘ مگر کسی ادارے کو توفیق نہ ہوئی کہ تھوڑی سی تفتیش ہی کر لی جاتی کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ مجھے ذاتی طور پر پتہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی اپنے قریبی دوستوں کو بتاتے رہے‘ اس بحران کے پیچھے اسحاق ڈار کا ہاتھ ہے۔ وہ استعفیٰ دینے کے لیے بھی تیار تھے لیکن ان کی ہمشیرہ نے انہیں منع کر دیا۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ جب سب اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں تو تمہیں کیا پڑی ہے ہیرو بننے کی۔ شاہد خاقان کو یہ بھی خبر تھی کہ اس کے بعد کس نے وزیر بننا ہے‘ لیکن اتنی جرأت نہ ہوسکی کہ پریس کانفرنس میں کھل کر وہ نام لیتے جو اپنے دوستوں کے سامنے لیتے رہے کہ اس کی وزارت کے خلاف سازش کررہا تھا ۔
یہ حکمران کبھی اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دینے کی روایت کا جنم نہیں ہونے دیں گے کیونکہ انہیں علم ہے اگر یہ سلسلہ ایک دفعہ چل پڑا تو رکے گا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض حسین پیرزادہ بھی اپنے دل کی بھڑاس نکال کر دوسرے دن مکر جاتے ہیں ۔ وہ ہر دفعہ فرماتے ہیں کہ سیاست گندی ہوچکی ہے اور وہ اگلا الیکشن نہیں لڑیں گے‘ مگر ہر دفعہ الیکشن لڑتے ہیں۔ تین دفعہ تو میں سن چکا ہوں کہ اگلا الیکشن نہیں لڑوں گا مگر... یہ رہ گیا ہے ہمارا کردار۔ چنانچہ ملک بڑی تیزی سے نیچے جارہا ہے کیونکہ یہاں کسی کو قانون کا خوف نہیں رہا۔ یہاں ڈاکو ڈاکے مار کر ہمارے منہ پر قہقہے لگاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں نئے ارب پتی پیداکیے تھے لیکن حکمران خاندان سمجھدار ہے‘ یہ اپنے خاندان کے علاوہ کسی کو مال نہیں کمانے دیتا۔
شریف خاندان کا ایک شخص بیروزگار رہ گیا تھا ‘ اس کے روزگار کا بھی اہتمام کر دیا گیا ہے۔ کیپٹن صفدر کو چھ ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کا مالک بنا دیا گیا ہے۔ وہ ایک کمیٹی کے سربراہ ہوں گے جو ہر ایم این اے کو دو کروڑ روپے کی گرانٹ دے گی ۔ دو کروڑ روپے سے ترقیاتی فنڈز کے نام پر ان کا منہ بھر دیا جائے گا۔ اب یہ ایم این ایز پر ہے کہ وہ ماضی کی طرح لکی مروت میں دو کروڑ روپے کا فنڈز کرپٹ ٹھیکداروں کو بیچ کر بیس فیصد کمیشن کے حساب سے چالیس لاکھ روپے نقد کماتے ہیں یا اپنے علاقے کے ٹھیکیدار کے ساتھ مل کر دو کروڑ روپے میں سے ایک کروڑ روپے ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے ایک نیم خواندہ ایک ایم این اے کے بارے میں مشہور ہوچکا ہے کہ شہر میں ڈاک خانے کا جو ریجنل دفتر بننا ہے‘ اس میں گیارہ امیدواروں سے ابھی سے تین تین لاکھ روپے لے چکے ہیں۔ یوں تینتیس لاکھ روپے کھرے کیے اور جمہوریت بی بی کو بچالیا۔ سندھ کے ایک اہم وزیر نے خود بتایا ہے کہ اسے سندھ سروس پبلک کمشن کی اسسٹنٹ کمشنر کی سیٹ کے لیے سفارش کو کہا گیا تو اس نے جواب دیا کہ یہ سارا کام ایک شخصیت خود دیکھ رہی ہے۔ ریٹ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے طے ہوا ہے۔ میں اتنا کرا سکتا ہوں کہ ''ادی‘‘ سے دس لاکھ روپے کم کرا دوں۔
یہ ہے وہ جمہوریت جو ہمارے اوپر نازل ہوگئی ہے۔ عذاب کی طرح۔ جس میں نہ کوئی قدیم دور کے بادشاہوں کی طرح غلطی ماننے کو تیار ہے اور نہ ہمارا قانون ان کے خلاف حرکت میں آنے کوتیار ہے۔اوپر سے شاہد خاقان عباسی فرماتے ہیں کہ بھکاریوں، عوام اور میڈیا نے تیل کابحران پیدا کیا۔ اب اگر فقیر اتنے ہی طاقتور ہوگئے ہیں کہ وہ حکومت کو جھکا سکتے ہیں تو پھر بہتر ہے کہ حکمران کوئی اور کام ڈھونڈ لیں اور حکومت ان فقیروں کے سپرد کر دیں۔ شاید وہ عام بھکاری ان شاہی بھکاریوں سے بہتر ثابت ہوں۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک پٹرول بلیک کر کے چند روپے جب کہ شاہی بھکاری لمبا مال کماتا ہے اور معزز بھی ٹھہرتا ہے۔ ہاں ایک قدرِ مشترک ہے کہ دونوں لوٹتے عوام کو ہی ہیں۔