تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-01-2015

سب ٹھیک ہے!

ایک شخص ٹرین میں کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں ایک سٹیشن پر ٹکٹ چیکر بھی آ دھمکا۔ ٹکٹ مانگنے پر اس نے ایک ہی ٹکٹ دکھایا تو ٹکٹ چیکر بولا: 
''ان چار پانچ بچوں کے ٹکٹ کدھر ہیں؟‘‘ 
''یہ تو ابھی بہت چھوٹے ہیں‘‘ وہ بولا۔ 
''اتنے چھوٹے بھی نہیں ہیں‘ نکالو ان کے ٹکٹ کے بھی پیسے‘‘ ٹکٹ چیکر کہنے لگا۔ اس پر شخص مذکور جھگڑنے لگا۔ اتنے میں ایک بڑے سے صندوق پر اس کی نظر پڑی تو چیکر نے پوچھا ''یہ کس کا ہے؟‘‘ تو شخص مذکور نے کہا ''میرا ہے‘‘۔ اس پر چیکر نے کہا کہ ''اسے بھی بغیر ٹکٹ لے جا رہے ہو‘ اسے تو بریک میں رکھوانا چاہیے تھا۔ میں اسے نیچے پھینکتا ہوں‘‘ چیکر صندوق کو دروازے کی طرف گھسیٹتے ہوئے بولا۔ 
''ارے‘ کیا غضب کرتے ہو‘‘ اس نے کہا، ''تم میری بیوی کو زخمی کرنا چاہتے ہو؟‘‘ 
میاں برادران اقتدار کی جس ٹرین پر سفر کر رہے ہیں بعض لوگوں کے بقول ان کے پاس اس کے ٹکٹ نہیں ہیں‘ حتیٰ کہ جملہ سازو سامان کے بھی نہیں‘ جبکہ ان کے بے ٹکٹ ہونے کا شور سب سے زیادہ عمران خان مچا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ لطیفہ ایک بار بڑے میاں صاحب ہی نے کہیں سنایا تھا کہ ایک صاحب اپنے پانچ سات بچوں اور بیوی کے ہمراہ ٹرین پر کہیں جا رہے تھے اور بہت پریشان دکھائی دے رہے تھے تو ساتھ بیٹھی سواری نے ان سے اس پریشانی کی وجہ پوچھی تو وہ بولے: 
''ایک تو میری ساس مر گئی ہے اور ہم اس کی تعزیت کے لیے جا رہے ہیں‘ دوسرے ہمارے ٹکٹ بڑی لڑکی نے ناراض ہو کر لیٹرین میں جا کر پھاڑ کر پھینک دیئے ہیں۔ تیسرے میرا بٹوہ چھوٹے لڑکے نے چلتی گاڑی سے باہر پھینک دیا اور چوتھے ہم غلط گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں پریشان نہیں تو اور کیا ہوں گا؟‘‘ تاہم اس سے تقریباً ملتے جلتے واقعات کے باوجود میاں صاحب پریشان ہرگز نہیں ہیں کیونکہ حکومت کا اصل بوجھ تو انہوں نے آرمی چیف کے کندھوں پر ڈال رکھا ہے۔ حتیٰ کہ اہم غیرملکی دورے بھی وہی کر رہے ہیں اور تقریباً وزیراعظم کا پروٹوکول بھی انہیں وصول کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ اس میں تھوڑا سا نقصان بھی ہے کہ وہ جو ایسے دورے کیا کرتے تھے‘ زیادہ تر ان کے کاروبار ہی سے متعلق ہوا کرتے تھے‘ مگر اب یہ سلسلہ بھی تقریباً موقوف ہے۔ لیکن کاروبار تو ماشاء اللہ ملک کے اندر اور باہر ویسے کا ویسا ہی چل رہا ہے جبکہ حکومت کے جملہ یعنی بقایا کام انہوں نے حکومت میں شامل اپنے اقربا اور کچھ محبِ وطن بیوروکریٹس کے سپرد کر رکھے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھے ہیں کیونکہ اس ذاتِ پاک پر ان کا یقین غیر متزلزل ہے۔ وزرا سر پھینک کر کام کرتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کی آپس میں بول چال اس لیے بند ہے کہ اپنا اپنا کام یکسوئی سے کرتے رہیں اور مفت کی گپ بازی میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ خود وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے لاتعداد قلمدانوں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور اسی لیے وزارت خا رجہ اور دفاع کے لیے کسی مکمل وزیر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی جبکہ وزیر خزانہ قریبی رشتے داری کی وجہ سے زیادہ قربانی دے رہے ہیں کہ لاتعداد کمیٹیوں کی سربراہی انہیں زیب دے رہی ہے جبکہ کئی کمیٹیوں سے ان کا کوئی محکمانہ تعلق ہی نہیں بنتا۔ 
احتساب اور جواب دہی کا عمل بھی وافر مقدار میں برسرِ کار ہے چنانچہ حالیہ پٹرول بحران کے ذمے دار ملازمین کو بغیر کسی چارج شیٹ کے فارغ کردیا گیا ہے تاکہ انکوائری وغیرہ سے وقت کے ضیاع سے بچا جا سکے‘ اور کسی وزیر کو اس سلسلے میں کسی بدمزگی سے دوچار نہیں کیا گیا تاکہ وہ تندہی سے کام کرتے رہیں۔ جہاں بھی کسی بڑے سکینڈل کا انکشاف ہوتا ہے تو اس کا کھوج لگانے والے کو اس کی سزا معطلی یا تبادلے کی صورت میں ضرور مل جاتی ہے کیونکہ حکومت سکینڈل بازی میں یقین نہیں رکھتی۔ جبکہ کرپشن پر حکومت اپنے عدم اطمینان کا اظہار باقاعدگی سے کرتی رہتی ہے۔ 
بڑی بڑی کارپوریشنوں وغیرہ کے سربراہ لگانے سے پرہیز کیا گیا ہے تاکہ حکومت کا کام بھی چلتا رہے اور ان اداروں کا بھی۔ سربراہ حضرات ویسے بھی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں جبکہ ان کی جگہ کام کرنے والے نائبین سے معاملہ کرنا حکومت کے لیے ویسے بھی آسان رہتا ہے اور اس طرح یہ ادارے زیادہ فعالیت کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔ قوم کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے کچھ مشکل فیصلے بھی حکومت کو کرنا پڑے ہیں مثلاً پولیس کا تقریباً چوتھائی مقتدر حضرات کی اپنی‘ ان کے جملہ لواحقین اور آگے ان کے ملنے والوں کی سکیورٹی پر مامور کردیا گیا ہے تاکہ عوام اپنی سکیورٹی کے حوالے سے خود بھی ذمہ داری کا احساس کریں اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ وزراء اپنے فرائض سرگرمی سے ادا کر رہے ہیں جن میں ان کا دانہ دُنکا چُگنا بھی شامل ہے۔ شفافیت کا حکومت خاص خیال رکھتی ہے کیونکہ جس منصوبے میں جہاں جہاں بھی کوئی گڑبڑ ہوتی ہے‘ صاف نظر آتی ہے اور اسے چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ علاوہ ازیں اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا حکومت بڑی بے جگری سے مقابلہ کر رہی ہے جن میں وہ سازش بھی شامل تھی پٹرول بحران کے سلسلے میں جس کی بُو وزیر خزانہ نے بروقت سونگھ لی تھی۔ نیز حکومت سچ بولنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں جو وزیر بجلی و پانی کے اس بیان سے ثابت ہے کہ بجلی بحران تین سال تک باقی رہے گا کیونکہ حکومت غلط بیانی سے اپنی ساکھ کمزور نہیں کرنا چاہتی۔ غرض آرمی چیف کے بعد وزیراعظم نے حکومت کا بقایا بوجھ خود اور صرف خود اٹھا رکھا ہے اور کابینہ سمیت پارلیمان کو بھی اس سلسلے میں زحمت نہیں دی جاتی؛ چنانچہ عوام اگر پھر بھی حکومت سے خوش نہیں ہیں تو ان سے خدا ہی سمجھے۔ 
آج کا مطلع 
جرم دل کی سزا نہیں دیتا 
کیوں کوئی فیصلہ نہیں دیتا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved