بہت سے فوجی اور سفارتی حلقے اس انتظار میں تھے کہ امریکی صدر بارک اوباما کے دورۂ بھارت سے قبل پاکستان کو ایک بار پھر کسی دہشت گردی میں ملوث کرنے کی حرکت ضرور کی جائے گی اور پھر وہی ہوا۔ 31 دسمبر2014ء کو بھارتی منصوبہ سازوں نے ''پاکستان سے آنے والی سمندری کشتی‘‘ کا سہارا لیتے ہوئے دنیا بھر کو اپنی جانب متوجہ کر لیا لیکن بہت جلد یہ کشتی ان کے جھوٹوں کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور قبل ا س کے کہ نئے سال کی خوشیوں میں مصروف پوری دنیا کی تفریح کو ''پاکستانی دہشت گردی‘‘ کی ''سفاکیت ‘‘سامنے لا کر غارت کیا جاتا‘ پنڈتوں کی غلطی نے بھارت کی سب تدبیریں خاک میں ملا دیں۔ نئے سال کی پہلی صبح ہونے سے بہت پہلے بھارت نے شور مچانا اور آئی جی آپریشن بھارتی کوسٹ گارڈز‘ کے آر نوتیال نے ٹی وی پر بتانا شروع کر دیا کہ مصدقہ بین الاقوامی ذرائع سے ملنے والی انفارمیشن پر پاکستان سے آنے والی ایک کشتی کو بھارتی کوسٹ گارڈز نے پوربندر گجرات کی بندر گاہ سے کوئی356 کلو میٹر دور روکنے کی کوشش کی‘ لیکن کشتی ہماری وارننگ پر رکنے کی بجائے تیز رفتاری سے آگے نکل گئی جس پر بھارت کے کوسٹ گارڈز نے ان کا پیچھا شروع کر دیا۔ بار بار کی وارننگ کے با وجود نہ رکنے پر کوسٹ گارڈز نے اس پر فائر کیا جس سے کشتی میں آگ لگی اور چند منٹ بعد وہ ایک دھماکے سے اڑ گئی۔ اس وقت ہم ایک اور کشتی کی تلاش میں ہیں جس کے بارے میں یقین ہے کہ وہ اس کشتی میں سوار لوگوں سے رابطے کا کام دے رہی ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ تباہ شدہ کشتی سے کیا ملا ہے؟ تو آئی جی نوتیال کا کہنا تھا کہ انتہائی خراب موسم کی وجہ سے کسی قسم کا ملبہ نہیں مل سکا۔
جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی‘ پورے بھارت میں اس پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ سب سے پہلے انڈین نیشنل کانگریس نے کہا ''نریندر مودی سرکار کی جانب سے پوربندر کشتی والی کہانی سوائے ایک سنسنی خیز ڈرامے کے اور کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ جو کچھ کہا جا رہا ہے‘ اس پر پوری دنیا میں بھارت کا مذاق اڑایا جائے گا‘‘۔ اور پھر وہی ہوا جس کا کانگریس نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ابھی 48 گھنٹے بھی نہیں گذرے تھے کہ بھارت نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ کراچی کی کیٹی بندر گاہ سے آنے والی یہ کشتی غالباََ سمگلروں کے کسی چھوٹے گروپ کی تھی ۔
بھارت کی یہ ساری کہانی سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں ہے۔ بھارت اور عالمی میڈیا سے چند سوالات ہیں ''کیا یہ ممکن ہے کہ 30 ہارس پاور انجن والی کوئی بھی کشتی بھارتی کوسٹ گارڈز کے جدید جہازوں سے تیز بھاگ سکے؟ میڈیاپر دکھائے جانے والے کلپس میںکشتی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اب بھارت کی سرکاری رپورٹ میں کہا گیا کہ کشتی دھماکے سے تباہ ہوئی۔ اگر ایسا ہی ہے تو کشتی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اس کا ملبہ دھماکے کی وجہ سے سمندر میں لازمی بکھرتا۔ آئی جی آپریشن بھارتی کوسٹ گارڈز کہتے ہیں کہ انتہائی خراب موسم کی وجہ سے کشتی میں موجود لوگوں کی لاشیں اور دوسرا سامان ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ سمندری موسم کی صورت حال سے با خبر دنیا بھر کے ادارے اس حقیقت کی گواہی دیں گے کہ اس رات متعلقہ سمندری حدود میں موسم مکمل طو ر پر صاف تھا۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھارت کاورژن مان بھی لیا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر خراب موسم میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں کوسٹ گارڈز کے جدید جہازوں سے آگے نکل جائیں؟۔ کیا یہ ڈرامہ امریکی صدر اوباما کی بھارت آمد سے پہلے پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے رچایا گیا تھا؟
واشنگٹن میںامریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈم البرائٹ کی کتاب ''The Might and the Almighty'' کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا تھا ''اپنی زندگی میں مجھے ہمیشہ اس بات کا افسوس رہے گا کہ کاش میں مارچ 2000ء میں اپنا مجوزہ دورۂ پاکستان و بھارت ملتوی کر دیتا‘‘ بل کلنٹن نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ میرے بھارت کے دورے سے چند گھنٹے پہلے بھارت نے متنازعہ کشمیر کے گائوں چائی سنگھ پورہ میں 36بے گناہ سکھوں کو اس لیے قتل کرا دیا کہ اس وحشیانہ قتل عام کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے بھارت میں مظاہرے شروع کرا دیئے جائیں تاکہ اس ما حول میں بھارتی قیا دت کشمیر پر ممکنہ اور مجوزہ سمجھوتہ پر بات کرنے سے احتراز کرسکے۔
بل کلنٹن کے دورۂ بھارت کے پہلے روز ہی مقبوضہ کشمیر کے گائوں چائی سنگھ پو رہ کے 36 سکھوں کے قتل عام کی خبریں دنیا کے ہر چینل اور اخبار میں طوفان کی طرح پھیل گئیں تو 22 مار چ 2000ء کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے قومی سلامتی کے مشیر برجیس مشرا نے فوری طور پر اکانومسٹ لندن کے نمائندہ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چائی سنگھ پورہ میں سکھوں کے قتل عام نے بھارت اور امریکہ کو اور قریب کر دیا ہے لیکن برجیش مشرا کے اس انٹرویو کے چھ سال بعدبل کلنٹن نے یہ کہہ کر ساری دنیا کو چونکا دیا کہ مجھے ساری عمر اس بات کا افسوس رہے گا کہ اگر میں بھارت کا یہ دورہ نہ کرتا تو شاید 36 بے گناہ سکھ آج اپنے خاندان والوں کے ساتھ زندہ ہوتے لیکن مجبوری یہ تھی کہ امریکی صدر ہونے کے ناتے دورہ میرے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
اپنے بھارتی دورے کے چھ سال بعد بل کلنٹن نے بھارت کی اس عیا ری اور درندگی کا پردہ چاک کیا ہے جس کے متعلق پاکستان پچھلی کئی دہائیوں سے ساری دنیا کو چیخ چیخ کر آگاہ کررہا ہے۔ سابق امریکی صدر نے وہ سچ چھ سال بعد بولا جس کا انہیں دوسرے دن یعنی 23 مارچ 2000ء کو ہی علم ہو چکا تھا کہ چائی سنگھ پورہ میں 36 کشمیری سکھوں کا قتل عام بھارتی فوج کا کیا دھرا ہے کیونکہ جب عالمی میڈیا کی ٹیم اس گائوں پہنچی تو اس حملہ میںبچ جانے والے سکھ سکول ٹیچر کنول جیت سنگھ نے سی این این کو بتایا کہ چالیس کے قریب بھارتی فوجی ہمارے گائوں میں آئے۔ انہوں نے گائوں کے مردوں کو باہر نکالا‘ ان کی دو قطاریں بنائیں اور گولیوں کی بارش کردی۔ ماسٹر کنول جیت سنگھ کہتے ہیں کہ ان بھارتی فوجیوں میں سے دو کو میں پہچانتا تھا کیونکہ ہر ماہ تنخواہ وصول کرنے کے لیے مجھے ان کے کیمپ کے پاس سے گزرنا ہوتا تھا۔یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ جس گائوں کی آبا دی کا کل دس فیصد مسلمان ہوں‘ اس گائوں میں تین کشمیری مجاہد کس طرح 90 فیصد آبا دی کے لوگوں کو اس طرح قتل کر سکتے ہیں۔ دوسرا بھارتی فوج کا کیمپ اس گائوں سے صرف دو کلو میٹر سے بھی کم فا صلے پر تھا جس کی کمان بریگیڈیئر آر کے کروال کر رہے تھے ،تویہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج اور تین لاکھ پیرا ملٹری فورسز تعینات ہونے کے با وجود بھارتی فوج اس قتل عام کے آٹھ گھنٹے بعد چائی سنگھ پورہ گائوں پہنچی؟ آج تو شاید چند مصلحتوں کی وجہ سے امریکی صدر اوباما چپ رہیں لیکن اپنی مدت صدارت کے چند سال بعد وہ بھی بل کلنٹن کی طرح ضرور کہیں گے کہ '' میری بھارت یاترا سے پہلے بھارت نے ایک اور کشتی الٹا دی؟ کاش‘ میں وہ دورہ نہ کرتا‘‘۔