پاکستانی سیاست ‘ کھوٹ میں اتنی کھری ہے کہ ایک سچے سیاستدان کو ہضم نہیں کر پائی۔ چوہدری سرور نے غلط کہا کہ ان سے ایوان صدر یا وزیراعظم ہائوس نے استعفیٰ طلب نہیںکیا۔یہ استعفیٰ ان پر مسلط کیا گیا۔ وہ جس کام کے لئے یہاں آئے تھے‘ اس کی موجودہ نظام میں گنجائش ہی نہیں۔ وہ تعلیمی نظام کو بہتر بنا کر ‘ خواندگی میںاضافہ کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ وہ قبضہ گروپوں کو بے اثر دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسا ہم کر نہیں سکتے۔ دہشت گردی ختم کرنے کے خواہش مند تھے۔ حکومت کا حصہ بن کر ایسا کیا نہیں جا سکتا۔ فوج میں بھرتی ہونے کے لئے ان کی عمر نہیں رہ گئی۔ امن و امان کے معاملات میں ان کا عمل دخل نہیں تھا۔ اگر وہ پاکستان میں گورنری کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے‘ یہاں رہنے والے اپنے چند مخلص دوستوں سے مشورہ کر لیتے‘ تو انہیں یہ بھی بتایا جاتا کہ پاکستان میں رہ کر آپ خدمت کی سیاست کرنا چاہتے ہیں‘ توازراہ کرم واپسی کا خیال چھوڑ دیں۔ یہاں کسی کو خدمت کی ضرورت نہیں۔ صرف لوٹ مار کا کھیل ہے۔ جس میں حصہ لینے کاانہیں شوق نہیں۔ وہ برطانیہ میں رہ کر جائز کمائی سے خوشحال اور آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے عملی سیاست کا تجربہ برطانیہ میں کیا۔ جہاں و وٹ لینے کے لئے رائے دہندگان کو کردار سے متاثر کرنا پڑتا ہے۔عوام اور علاقوں کی ترقی و خوشحالی کے منصوبے بنانا پڑتے ہیں اور یہ منصوبے محض کاغذی نہیںہوتے۔ ان پر عملدرآمد بھی کیا جاتا ہے۔ ایک تلخ حقیقت البتہ انہوں نے ضرور بیان کی ہے کہ ''قبضہ گروپ ‘ گورنر سے زیادہ طاقتور ہیں۔‘‘ لیکن یہ بات تو انہیں برطانیہ میں رہ کر زیادہ اچھی طرح معلوم تھی۔ بیرونی ملکوں میںمقیم ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خاندان ایسے ہیں‘ جنہوں نے پاکستان واپسی کے لئے پلاٹ یامکان خرید رکھے ہیں، لیکن اب وہ ان کے پاس نہیں ہیں۔
یہاں ایسی جائیدادوں کی باقاعدہ منڈی ہے‘ جن کے مالک بیرون ملک رہتے ہیں۔ مارکیٹ میں ایسے ایجنٹ پھرتے رہتے ہیں‘ جو بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادیں تلاش کر کے‘ قبضہ گروپوں کے علم میں لاتے اور انعام پاتے ہیں۔ اس کے بعد قبضہ گروپوں کا کام ہے کہ جائیداد بنگلے کی صورت میں ہے یا پلاٹ کی صورت میں؟ اگر پلاٹ ہے‘ تو اس پر خانہ بدوشوں کو آباد کر دیا جاتا ہے۔ پراسرار طریقے سے چار دیواری بنا دی جاتی ہے یا ٹینٹ لگا دیا جاتا ہے۔ سال چھ مہینے انتظار کیا جاتا ہے کہ مالک کو خبر ہوتی ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں ہوتی‘ تو جعلی کاغذات بنا کر‘ بجلی یا پانی کا کنکشن لے لیا جاتاہے۔اس کا جو بل آتا ہے‘ اس کی باقاعدہ ادائی ہوتی رہتی ہے اور جب اصل مالک واپس آتا ہے‘ اوراپنے پلاٹ پر بیٹھے ہوئے غریبوں کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے‘ تو قبضہ گروپ کے غنڈے ''غریب پرور‘‘ بن کر سامنے آ جاتے ہیںاور اصل مالک کو مختلف جھگڑوں میں الجھاتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ پریشان ہو کر واپس چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان سے آنے والے دوست احباب سے درخواستیں کر کے اپنا دل بہلاتا رہتا ہے کہ اس کی پاکستان میں جائیداد پڑی ہے، اگر ہو سکے توقبضہ گروپ سے نجات دلا دیں۔ ظاہر ہے‘ یہ ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ دوتین مرتبہ پاکستان آ کر وہ بے چارہ خود کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اپنے پلاٹ کا قبضہ حاصل کرلے۔ مہینہ پندرہ دن کی جو چھٹی وہ لے کر آتا ہے‘ وہ جوتیاں چٹخاتے گزر جاتے ہیں۔ آخرکار تنگ آ کر‘ وہ اپنی جائیداد اونے پونے بیچ کر خدا کر شکر ادا کرتا ہے کہ ایک تہائی یا چوتھائی رقم واپس مل گئی۔ انیق ناجی نے چھ سات سال لندن میں رہ کر کچھ پیسے جمع کئے اور مجھے کہا کہ کسی اچھی کالونی میں پلاٹ لے دیں۔ ان دنوں ڈی ایچ اے اسلام آباد کے پلاٹوں کی ایڈوانس بکنگ شروع ہو ئی تھی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے کوٹہ رکھا گیا اور رعایت یہ دی گئی کہ وہ زرمبادلہ میں پوری رقم یکلخت جمع کرا دیں۔ انہیں جلد پلاٹ دے دیا جائے گا۔ پاکستان میں ڈی ایچ اے کا نام انتہائی معتبر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کا انتظام سابق فوجیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور عام شہرت یہی ہے کہ ڈی ایچ اے میں کی گئی سرمایہ کاری ضائع نہیں ہوتی۔انیق صاحب گزشتہ چھ سال سے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ انہیں کب پلاٹ ملے گا؟ لیکن ڈی ایچ اے والے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔دو سا ل تک تو ان کی طرف سے کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ پھر ملکیت کا ایک سرٹیفیکیٹ موصول ہوا۔ اس کے بعد کچھ پتہ نہیں کہ پلاٹ کہاں گیا؟ اس وقت 36ہزار پونڈ‘ پلاٹ کی پوری قیمت کے طور پر وصول کر لئے گئے تھے۔ ابھی تک کچھ پتہ نہیں کہ پلاٹ کہاں ہے؟ اور کب ملے گا؟ جب ایسا معتبر ادارہ ‘ بیرون ملک پاکستانیوں کی رقم ہضم کر جاتا ہے‘ تو پرائیویٹ کالونیوں میں کیا ہوتا ہو گا؟ اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ انیق کئی بار راولپنڈی جا کر انکوائریاں کر چکا ہے، لیکن مکمل قیمت ادا کرنے کے 6سال بعد بھی‘ اسے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا پلاٹ کہاں ہے؟ ڈی ایچ اے کو میں قبضہ گروپ بھی نہیں کہہ سکتا، لیکن خریداروں کا حال وہی ہو رہا ہے‘ جو رسوائے زمانہ نجی سوسائٹیوں میں کیا جاتا ہے۔
میں نے اپنے بچوں کے نام پر اسلام آباد میں 10کنال زمین خریدی تھی۔ یہ قریباً 15سال پہلے کا قصہ ہے۔سی ڈی اے کے نقشے میں اسلام آباد شہر کی جو حدود رکھی گئی ہیں‘ اگر کسی کی ملکیتی زمین ‘ان کے اندر واقع ہے‘ تو سی ڈی اے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ زمین پر قبضہ کر کے‘ مقررہ تناسب کے مطابق پلاٹ الاٹ کر دیتی ہے۔ جس کی ملکیت ہو‘ اس سے ترقیاتی اخراجات وصول کر کے‘ پلاٹ دے دیا جاتا ہے۔ جہاں پر یہ زمین واقع تھی‘ اس کا قبضہ سی ڈی اے حاصل کر چکی ہے۔ معلومات حاصل کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ آپ اپنی زمین کا 60فیصد حصہ واپس لے سکتے ہیںاور باقی زمین کے عوض آپ کو ایک کنال کا پلاٹ دیا جائے گا۔ جب تک صحت نے اجازت دی‘ میں سی ڈی اے کے چکر لگاتا رہا۔ اب میری صحت ہی جواب دے گئی ہے اور بیٹے دونوں اپنی تعلیم مکمل کر کے سرکاری ملازمتوں میں جا چکے ہیں،لیکن وہ سی ڈی اے سے نہ تو اپنی واپس ہونے والی زمین ڈھونڈ پائے ہیں اور نہ ہی پلاٹ کا کچھ پتہ ہے۔ معلومات حاصل ہونے پر یہ عقدہ کھلا کہ زمینوں پر قبضہ گروپوں کے کارندے بیٹھ گئے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جس زمین کے بدلے پلاٹ ملنا تھا‘ وہ سی ڈی اے ہضم کر گئی اور جو زمین ہمیں واپس ملنا تھی‘ وہ قبضہ گروپوں نے ہتھیا لی ہے۔ مجھے کوئی چارہ کار نظر نہیں آ رہا کہ بیٹوں کی زمین کس طرح واپس مل پائے گی؟ جب سی ڈی اے جیسا سرکاری ادارہ اور ڈی ایچ اے جیسی معتبر اتھارٹی‘ پاکستان میں رہنے والوں کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہے‘ تو بیرون ملک پاکستانی اپنی جائیدادوں کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں؟ پاکستان‘ قبضہ گروپوں کی ملکیت ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میںبیٹھے ہیں‘ تو کسی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ورنہ آپ کی جتنی بھی جائیداد ہے‘ وہ قبضہ گروپوں کی ملکیت ہے۔ وہ جب چاہیں‘ اس پر قبضہ کر کے‘ آپ کو محروم کر سکتے ہیں۔ سنا ہے‘ سابق گورنر چوہدری سرور نے پاکستان میں قیام کے لئے اپنا ایک گھر خرید لیا ہے۔ وہ کچھ دنوں کے لئے برطانیہ جا رہے ہیں۔ اگر وہ اپنے گھر پہ مسلح گارڈ چھوڑ کر جائیں گے‘ تو شاید و اپس آ کر اس میں رہ سکیں، لیکن اگر وہ گھر کو خالی چھوڑ گئے‘ تو میرا خیال ہے‘ جن قبضہ گروپوں کی طاقت کے سامنے ‘ لاچار ہو کر انہوں نے گورنری سے استعفیٰ دیا ہے‘ ہو سکتا ہے‘ وہ ان کی کوٹھی پر قبضہ کر کے‘ پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزام کو درست ہی ثابت کر دیں۔جب چوہدری صاحب گورنر بننے کے بعد بڑے بڑے ارادوں کا اظہار کیا کرتے تھے کہ وہ تعلیم کے لئے کیا کچھ کریں گے؟ عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کے انتظامات کریں گے۔ غریبوں کا علاج کرنے کے لئے صحت کے مراکز بنائیں گے، تو مجھے ان کی بے خبری پر حیرت ہوتی تھی کہ وہ کہاں رہ کر‘ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ جہاں عبدالستار ایدھی کے گھر ڈاکہ پڑ جاتا ہو‘ وہاں کس کی رقم اور جائیداد محفوظ رہ سکتی ہے؟ اگر آپ اپنی جائیداد اور پیسے کو قبضہ گروپوں سے بچانا چاہتے ہیں‘ تو اتنی طاقت حاصل کر لیں کہ قبضہ گروپ ‘آپ سے کچھ چھیننے کا حوصلہ نہ کر سکیں۔یوںلگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں صرف بحریہ ٹائون کی سکیمیں ہی ایسی ہوں گی‘ جہاں رقم ادا کر کے‘ پلاٹ یا گھر کا قبضہ مل سکتا ہو۔ جب سی ڈی اے اور ڈی ایچ اے جیسے معروف ادارے بھی زمین اور پیسہ غصب کر لیتے ہوں‘ تو وہاں کونسی جائیداد محفوظ رہ سکتی ہے؟