تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     31-01-2015

انسداد دہشت گردی میں صوبوں کا کردار

27جنوری کو مری میں ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ وفاقی حکومت سے مل کر دہشت گردی کے خلاف 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے؛ تاہم مرکزی حکومت اس مقصد کے لیے اُن کی ہر قسم کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ اسی نوعیت کی بات وزیر اعظم جنوری کے آغاز میں بھی کہہ چکے ہیں‘ جس میں انہوں نے صوبائی حکومتوں پر زور دیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف وہ کسی بھی اقدام سے احتراز نہ کریں‘ بلکہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں۔
دہشت گردی کسی ایک سیاسی جماعت‘ طبقے یا مخصوص علاقے کا مسئلہ نہیں‘ بلکہ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور ملک کا کوئی بھی حصہ اس سے محفوظ نہیں‘ اس لیے اس کے خلاف جنگ میں عوام کے تمام طبقوں اور سیاسی قوتوں‘ خواہ ان کا تعلق مرکز سے ہو یا کسی بھی صوبے سے‘ کو حصہ لینا چاہیے۔ اگر وزیر اعظم کے ان بیانات کو اس پیرائے میں لیا جائے تو یہ ناصرف جائز مطالبہ ہے‘ بلکہ دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کی کامیابی کے لیے ایک لازمی شرط بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے آئینی اور قانونی پہلو بھی ہیں۔ پاکستان میں رائج وفاقی نظام کے تحت امن و امان کے قیام کی ذمہ داری شروع سے ہی صوبوں پر عائد رہی ہے۔2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد امن و امان اب مکمل طور پر ایک صوبائی مسئلہ ہے‘ اس لیے جب مرکزی حکومت کی طرف سے صوبوں پر ان کی اس اہم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے زور دیا جاتا ہے تو اس سے عام طور پر یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ مرکزی حکومت ایک سیاسی مسئلے کو محض آئینی اور قانونی تناظر میں پیش کر کے اپنا بوجھ صوبوں پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سابق (پیپلز پارٹی کی) حکومت کے دور میں اس قسم کی روش نمایاں طور پر دیکھنے میں آتی تھی۔رحمان ملک‘ جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت (2008-2013ء) میں وزیر داخلہ تھے‘ کو جب ملک کے بعض حصوں خصوصاً بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ہولناک واقعات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ تو وہ بڑی آسانی سے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے تھے کہ لاء اینڈ آرڈر صوبائی حکومتوں کا مسئلہ ہے۔ اس قسم کے بیانات دیتے وقت وہ بھی اٹھارہویں آئینی ترمیم کا سہارا لیتے تھے۔موجودہ حکومت نے بھی کراچی کی صورت حال میں اصلاح کی ذمہ داری سندھ حکومت پر ڈال رکھی ہے۔ دیگر حلقے بھی کراچی میں امن و امان کی متواتر بگڑتی ہوئی صورتحال اور بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہی ڈالتے ہیں۔اس کے مقابلے میں صوبائی حکومتیں اپنے ہاں دہشت گردی میں اضافے کو مرکزی حکومت کی بعض پالیسیوں یا ناکامیوں کا نتیجہ قرار دیتی ہیں۔ مثلاً صوبہ خیبر پختون خوا میں‘ جہاں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے‘ لاکھوں افغان مہاجرین اور غیر قانونی افغان باشندوں کی موجودگی کو دہشت گردی کا موجب قرار دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو یہ بھی شکایت ہے کہ شمالی وزیرستان سے دس لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے ناکافی امداد بھی صوبائی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوںکو بری طرح متاثر کر رہی ہے‘ کیوں کہ ان دونوں عوامل کی وجہ سے ان کی حکومت کو ناقابل برداشت بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
وفاقی حکومت امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈالتی ہے تو اسے تین امور کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ سب سے پہلے یہ کہ دہشت گردی ایک آئینی یا قانونی مسئلہ نہیں ہے‘ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا صوبوں کے پاس ضروری وسائل ہیں؟ اور تیسرے یہ کہ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کی صلاحیت میں اضافہ کر نے کے اب تک جو وعدے کیے ‘ انہیں کس حد تک پورا کیا گیا ہے؟
یہ صحیح ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت متعدد وزارتیں اور کارپوریشنز مرکز سے صوبوں کو منتقل کی گئی ہیں لیکن صوبوں کو شکایت ہے کہ اس عمل میں اختیارات اور وسائل کی بجائے ‘ صوبوں کو ذمہ داری منتقل کی گئی ہے۔صوبوں کا موقف ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو جو فوائد حاصل ہونے کی توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی طرف سے مرکزی حکومت پر واضح کیا جا رہا ہے ‘ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے صوبوں کو جو وسائل میسر ہیں‘ وہ ناکافی ہیں‘ اور جب تک ان کو مطلوبہ وسائل مہیا نہیں کیے جاتے‘ صوبے موثر طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ سکتے۔
مثلاً امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے پاس سب سے بڑا ذریعہ پولیس ہے ۔ لیکن سازو سامان ‘ تربیت اور جذبے کے اعتبار سے پاکستان پولیس کی جو حالت ہے‘ وہ ناگفتہ بہ ہے ۔پاکستانی پولیس 
میں اصلاحات پر ایک ادارے''ایشیا سوسائٹی انڈی پینڈنٹ کمیشن برائے پاکستان پولیس ریفارمز‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کے کسی صوبے کی پولیس دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘ کیوں کہ موخر الذکر ‘ اول الذکر کے مقابلے میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے علاوہ‘ منصوبہ بندی اور ترکیب میں بہت آگے ہیں۔ پولیس نہ تو مناسب ہتھیاروں سے لیس ہے نہ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تربیت حاصل ہے اور نہ ہی ان کا انٹیلی جنس سسٹم معیاری ہے۔ دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا تو بڑی دور کی بات ہے امن و امان کے قیام اور دیگر فرائض سرانجام دینے کے لیے بھی اُن کی تعداد کم ہے۔ ہمارے حکمران بھی ان خامیوں کا اعتراف کرتے ہیں‘ لیکن انہیں دور کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرتے؛ مثلاً سانحہ پشاور کے بعد 23دسمبر کو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے ایک بیان میں اس بات کا اعتراف کیا کہ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے انسداد دہشت گردی میں موثر کردار ادا کرنے کے لیے نہ تو ان کے پاس مناسب ہتھیار ہیں اور نہ انہیں ضروری تربیت دی گئی ہے۔ اس کے لیے کافی وقت درکار ہے۔اس لیے چاروں صوبوں میں تقریباً 10,000فوجی جوان اور افسر تعینات کئے جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ چودھری نثار نے خود تسلیم کیا کہ فوج کو اور بھی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ اُن کا بنیادی فریضہ سرحدوں کی حفاظت ہے اور اس وقت وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی براہ راست مصروف ہیں۔
اس لیے انسداد دہشت گردی کی مہم میں جہاں صوبائی حکومتیں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں‘ وہاں وفاقی حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔لیکن گزشتہ ایک دہائی کے ریکارڈ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کی طرح‘ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے بھی دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر سنجیدہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔مثلاً سابق حکومت نے2009ء میں نیشنل کاونٹر ٹیرزم اتھارٹی (NACTA) تو قائم کر دی تھی لیکن اس کے دور میں یہ فیصلہ تک نہ ہو سکا کہ یہ ادارہ وزارتِ داخلہ کے ماتحت کام کرے گا‘ یا وزارتِ دفاع کے۔ بالآخر موجودہ دور حکومت میں فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین ہوں گے‘ لیکن ابھی تک وزیراعظم نے اس ادارے کے کسی ایک اجلاس کی بھی صدارت نہیں کی اور نہ ہی اس ادارے کے لیے ضروری فنڈز مہیا کئے گئے ہیں۔ اسی طرح موجودہ حکومت نے گزشتہ برس بڑی دھوم دھام سے نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا تھا‘ لیکن یہ پالیسی ابھی تک صرف اعلان تک ہی محدود ہے ۔ اس پالیسی کو عملی شکل دینے کے لیے نہ تو ابھی تک کوئی حکمت عملی وضع کی گئی اور نہ ہی اس کے تحت اقدامات کے لیے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔
آخر اِس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس سلسلے میں گزشتہ دسمبر میں پشاور میں اپنے قیام کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جو تجاویز پیش کی تھیں‘ وفاقی حکومت کو اُن پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔اُن کی رائے میں صوبائی حکومتوں پر ساری ذمہ داری ڈالنے کی بجائے‘ وفاقی حکومت کو چند ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جو دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بہت اہم ہیں۔ مثلاً پاک افغان سرحد کے آر پار لوگوں کی بلا روک ٹوک آمدو رفت کو کنٹرول کیا جائے‘ پولیس کا انٹیلی جنس سسٹم مضبوط کیا جائے‘ اس کے لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ فنڈز بھی مہیا کرے اور سامان بھی کیونکہ صوبوں کے پاس اتنے وسائل نہیں۔ 
وفاقی حکومت انٹیلی جنس شیئرنگ پر زور دیتی ہے لیکن سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر مثلاً آئی بی کو بھی مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved