تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     31-01-2015

ازلی دشمن اور ٹی وی پروگراموں کی ریٹنگ

ٹاک شوز اور اخباری سرخیوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جو ہمیں برباد کرنے کے درپے ہے ۔بھارت ہر لمحہ ہماری سلامتی کے خلاف منصوبہ بندی کئے رکھتاہے ۔ہماری معیشت کی بربادی میں بھی بھارت کا ہاتھ ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی برپا کرنے میں تو بھارت کا براہ راست ہاتھ ہے ،اس ضمن میں امریکہ کو شواہد بھی فراہم کردئیے گئے ہیں جبکہ بھوک ،ننگ ،بے روزگاری ،غربت اور کرپشن کے پیچھے بھی بالواسطہ بھارت کا ہی ہاتھ ہے ۔یہ سب ریاستی اور حکومتی سطح پر عوام کو سالہاسال سے پڑھایا،سنایااور سمجھایاجارہاہے لیکن اس سارے جذباتی اور صحافتی تعویز گنڈے کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ بھارتی ڈراموں اور ان کے دیگر ٹی وی پروگراموں کو وطن عزیز میں سب سے زیادہ دیکھا جاتاہے۔ انٹرٹین منٹ چینلز کو موصول ہونے والے ریٹنگ چارٹس پر بھارتی پروگراموں کی پسندیدگی کے بلند ترین مینار اور چوٹیاںدیکھ کر اہل وطن کی طرف سے ا زلی دشمن بھارت کے ٹی وی پروگراموں کو دیکھنے کے شوق کا عالم ماپا جاسکتا ہے :
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے 
یہ بُت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے 
ایسانہیں ہے کہ بھارت دشمنی کا سودا صرف پاکستان میں بیچا جارہاہے اور بھارتی منڈی میں یہ پراڈکٹ بالکل نہیں بکتی۔ بھارتی مارکیٹ میں تو پاکستان دشمنی کی کلیرنس سیل سارا سال لگی رہتی ہے۔ دونوں طرف اس دھندے میں تیزی امریکی صدر اوباما کے بھارتی دورے کے بعد دیکھنے میں آئی۔بھارتی حکمران اور میڈیا امریکہ کے سیاہ فام صدر کی بھارت آمد کو خوش بختی اور خوشحالی سے یوں تعبیر کررہے ہیںجیسے ا ن کے ہاں سرسوتی اور لکشمی دیوی اکٹھے پھیرا ڈال گئی ہوں‘ حالانکہ ظاہری اور بصری روپ کی بات کی جائے تو بھارت آنے والے امریکی مہارتی کی شکل وشباہت سرسوتی اور لکشمی دیوی سے کم اور کالی ماتا سے زیادہ ملتی ہے ۔کالی ماتا کا مندر گجرات میں ہی ہے جہاں نریندر مودی نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرایاتھا ۔اس سانحے کے بعد امریکہ نے اعلان کیاتھاکہ نریندر مودی کبھی بھی امریکہ داخل نہیں ہوسکیں گے مگر جب موصوف وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ان پر نہ صرف امریکہ کے بند دروازے کھل گئے بلکہ انہیں سر آنکھوں پہ بٹھایا گیا۔عالمی سیاست اور معیشت کے ماہرین کاکہنا ہے کہ اوباما کا حالیہ دورۂ بھارت جہاں اپنے سرمایہ داروں کیلئے وسیع منڈیوں کی تلاش کے حوالے سے اہم حکمت عملی ہے وہاں اس ریجن میں اسلحہ کی نئی میراتھن دوڑ کی شروعات کا پیش خیمہ بھی ہے۔ اوباما کی بھارت یاترا کو‘ پاکستان کے نقطہ نظر سے غالب کے مصرعے میں یوں عنوان دیاجاسکتا ہے ع 
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
لیکن اگر اوباما کی آمد پر بھارت کی ڈینگوں، بڑھکوں اور خوشیوں کے گر دحاشیہ کھینچا جائے تو اس آسماں پر ہمیں نئے ستارے بنتے دکھائی دئیے ،پورے بھارت کی سیاسی اور صنعتی الیٹ اوباما کی آمد کو اپنے لئے خوش بختی قرار دیتی رہی ،بھارتی میڈیا یہ تاثر دے رہاتھاکہ عام بھارتی کی تقدیر اب بدل جائے گی، نئے زمانوں کا آغاز ہو چکا ہے ؎
زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے
بھارت اپنے طاقتور اور پُر اثر میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتارہتاہے کہ وہ آنے والے دنوں کی ایک سپر طاقت ہے۔ گذشتہ 15 برسوں میں ،میں کئی بار بھارت جاچکا ہوں۔ عام آدمی کے حالات وہاں بھی ہمارے جیسے ہی ہیںبلکہ آبادی کی کثرت کے باعث وہاں بے روز گاری ، غربت اور بھوک ننگ جابجادکھائی دیتی ہے۔ بھارت کی سوا ارب کی آبادی میں82 کروڑ سے زائد افراد دووقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں۔ عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق صر ف 36فیصد لوگوںکے پاس اپنے غسل خانے اور بیت الخلا ہیںجبکہ 64فیصد بھارتیوں کا ٹوائلٹ سرعام اور کھلے آسمان کے تلے ہے۔ نیودہلی بھارت کی راج دھانی اور ممبئی المعروف بالی وڈ میں لاکھوں لوگ ریل کی پٹڑیوں پر رفع حاجت کے لیے بیٹھے بھارت کے سپر پاور ہونے کااعلان کررہے ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 2007ء کے آغاز میں‘ میں نے ممبئی کے علاقہ لوکھنڈوالہ میں کچھ دن کے لئے قیام کیاتھا ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے دوست شعیب عالم اور مرحوم ہدایتکار جاوید فاضل لاہور اور ممبئی کے اشتراک سے ایک فلم ''میں اک دن لوٹ کے آئوں گا‘‘ بنانے ممبئی گئے ہوئے تھے ۔ مذکورہ فلم کے پروڈیوسر میرے دوست تھے اور ویسے بھی پاک بھارت مشترکہ فلم کے متمنی کی حیثیت سے فلم کی تکمیل کے اہم شعبوں میں سہولیات حاصل کرنے کے پیش نظر میںلاہور سے ہی بالی وڈ کی فلمی تنظیموںاور بعض دوسرے متعلقہ اہم افراد سے ٹیلی فونک رابطے میں تھا ،بعدازاں مجھے اس کام سے ممبئی جاناپڑا۔ میراں بلڈنگ کے چوتھے فلور میںپانی صبح 7سے 9بجے تک ہی آتاتھا۔ سوا9بجے اٹھنے والی استری اورپُرش ( عورت اور مرد) اشنان سے محروم ہوجایا کرتے تھے ۔ممبئی میں رات بھر محفلیں جمانے کے بعد میں صبح 9بجے اٹھ نہیں پاتاتھا‘ اس لیے نہانے کے لئے مجھے منرل واٹر کی بڑی بوتل خریدنے کے لئے آٹو رکشا پر جنرل سٹور جانا پڑتاتھا۔
بھارت اور پاکستان میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کو دونوں ملکوں کی سرکاروں نے کیابنیادی سہولتیں بہم پہنچائی ہیں؟اس سوال کے ساتھ ان بے کسوں کو قدرتی نعمتوں سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ بھارت کا شمار دنیا کے اسلحہ خریدنے والے چند ایک ممالک میں ہوتاہے۔ بھارت کی دیکھادیکھی اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان کو بھی اس دوڑ میں شامل ہونا پڑتاہے۔بھارت اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری الیٹ کو وقت کے بدلتے تقاضوں کا ادراک کرنا ہوگا۔دونوں ملکوں کی بڑھتی ہوئی آبادی تیزی سے وسائل کوہڑپ کررہی ہے۔ اگر ایسے میں دونوں جانب سے حقیقی معنوں میں سرنڈر نہ کیاگیاتو بھوک کا ایٹم بم دونوں ملکوں کو خاکستر کردے گا۔ 
دونوں ملکوں میں تنازعات کوہوا دینے میں جتنی توانائیاں صرف کی جاتی ہیں‘ اس سے نصف بھی اگر مسائل کو ختم کرنے کے لئے بروئے کار لائی جائیں تو عام انسان کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔دونوں ملکو ں کے عوام میں جغرافیائی ،مذہبی،معاشرتی ،سیاسی اور ثقافتی کشش موجود ہے۔ بھارت کی جنتاتو پاکستان کے چند ایک گلوکاروں سے متاثر ہوئی ہے ،دوسری طرف پاکستان کے عوام تو ایک طرف سرکاریں بھی بھارتی سٹارز کی پرستار ہیں۔جنرل محمد ضیا الحق ،جنرل پرویز مشرف تو بالترتیب شترو گھن سنہا اور رانی مکھر جی سے متاثر ہوئے۔ وزیر اعظم نوازشریف ہیمامالنی سمیت پورے بالی وڈ کو محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بالی وڈ ہمارے ہاں سب سے بڑا برانڈ سمجھاجاتاہے۔ پاکستانی ٹیلنٹ کو جب تک 
بالی وڈ کی پیکنگ نہ کی جائے انہیں کوئی بھی سٹار تسلیم نہیں کرتا ۔یہ بالی وڈکاکریز ہی ہے کہ پاکستانی گلوکار لاہور ،اسلام آباد اور کراچی ایک میوزک کنسرٹ کرنے کا معاوضہ 40لاکھ روپیہ وصول کرے۔ 
دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ لوگوں کے استعمال کی عام اشیا کی تشہیر دوسرے بلکہ ''ازلی دشمن ‘‘ ملک کے فلمی ہیروز اور ہیروئنیں کریں۔پاکستانی پراڈکٹس کی تشہیر سلمان خان، کرینہ کپور ، اوم پوری، سشمیتا سین، ارجن کپور اورسونم کپور سمیت دوسرے بھارتی سٹارز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کے بھارتی سٹارز تو ایک طرف ریٹائرڈ اور بوڑھی ہیروئنیں بھی پاکستانی پراڈکٹس کی تشہیر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ اولڈ ایج بینیفٹ کیٹ واک فیشن شوز صرف پاکستان میں منعقد ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں بھارتی میڈیا کے کریز کا اندازہ اس رجحان سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ بھارت میں منعقد کرائے جانے والے میوزک کے نان پروفیشنلز سنگرز کے مقابلوںپر مبنی ٹی وی پروگراموں ''سار ے گاما‘‘ اور ''انتاکشری ‘‘و غیرہ کے پاکستانی رنر اپ بھی بالی وڈ یاترا کے بعد پاکستانی مارکیٹ میں سٹارسنگرز سمجھے جانے لگتے ہیں۔یہ ہاف بوائلڈ سٹار سنگرز بھی ایک میوزک کنسرٹ کا 5سے 6لاکھ روپیہ ڈیمانڈکرتے ہیں ۔دلچسپ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں پائے جانے والے دیسی ساخت کے بل گیٹس انہیں یہ رقم بخوشی ادا بھی کررہے ہوتے ہیں۔لاہور میں ایک کینسر ہسپتال کے لئے سجائے گئے پنڈال میں نودولتیوں نے بھارتی اداکار عامرخان کی انٹری پر جس طرح کھڑے ہوکر تالیاں بجائی تھیں‘ اس سے ہمارے سٹار شان کا دل ٹوٹ گیاتھا۔
دلوں کوتوڑنے اور جوڑنے کے مظاہروں ،ممبئی دھماکوں اور سمجھوتہ ایکسپریس برپا کرنے سے بہتر ہے کہ دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگیوں کے سکھ کے لئے حقیقی معنوں میں آخری آپریشن کیاجائے جسے سول اورجمہوری حمایت حاصل ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved