تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     31-01-2015

باز اور مینڈک

پشاور کا حادثہ ہوا تو ہمیں خبر ملی کہ اس کا ذمہ دار افغانستان میں ہے۔ ہم نے کیا کیا ؟ ہم نے اپنے سپہ سالار کو بلا تاخیر افغانستان بھیجا اور مطالبہ کیا کہ ہمارے مجرم کو ہمارے حوالے کیا جائے‘ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم خود اسے تلاش کریں گے۔
فرض کیجیے افغان حکومت انکار کر دیتی۔ وہ کہتی کہ پہلے ہمیں ثبوت فراہم کیے جائیں۔ کسی کو ثالث مقررکیا جائے۔ کوئی بین الاقوامی عدالت مجرم کے خلاف فیصلہ سنائے، اس کے بعد ہم اسے آپ کے حوالے کریں گے۔ فرض کیجیے کہ اس جواب کے بعد پاکستان کے پاس طاقت ہوتی تو وہ کیا کرتا؟وہی جو امریکہ نے کیا۔ذرا9/11 کی یاد ذہن میں تازہ کر لیجیے! افغانستان پر امریکی حملے کے اسباب آپ کو مل جائیں گے۔ میرا احساس ہے کہ افغانستان کے طالبان نے اس وقت حالات کا ادراک نہیں کیا۔ یوں وہ ایک ایسی طاقت کا ہدف بن گئے، جو ان کی دشمن نہیں تھی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کو خود طالبان کے ایک اہم فردنے بیان کیا۔
چند سال پہلے، ایک باخبر آدمی نے مجھے بتایا کہ کوئٹہ میں، ان کی ملاقات طالبان کے ایک اہم راہنما سے ہوئی۔ بھلے وقتوں میں وہ ملا عمر کے محافظوں میں تھے۔ انہوں نے یہی سوال ان کے سامنے رکھا: امریکہ تو آپ کا دشمن نہیں تھا۔ آپ نے کیوں اسے اپنا دشمن بنا لیا ؟ انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں ایک قصہ سنایا : ایک باز کسی حادثے میں زخمی ہوا اور کسی دریا کے کنارے آ گرا۔ وہاں ایک مینڈک رہتا تھا۔ اس نے باز کی تیمارداری کی اور اسے دوبارہ اڑنے کے قابل بنا دیا۔ باز اس پر مینڈک کا بہت شکر گزار تھا۔ دمِ رخصت اس نے کہا کہ وہ احسان کے بدلے میں یہ چاہتا ہے کہ اگر مینڈک پر کوئی مشکل آئے تو وہ بھی اسی طرح جواباً اس کے کام آئے۔ مینڈک نے کہا کہ میں یہاں زمین پر رہتا ہوں اور تم بلند فضاؤں میں اڑتے ہو۔ میری تکلیف کی خبر تم تک کیسے پہنچے گی؟ اس کا جواب یہ ڈھونڈا گیا کہ ایک دھاگہ باز اپنے پاؤں سے باندھے گا اور اس کا دوسرا سرا مینڈک اپنے پاؤں سے۔ جب مینڈک کسی مشکل میں ہو گا ، وہ اس دھاگے کو کھینچ لے گا اور باز با خبر ہو جائے گا کہ اس کا دوست کسی مشکل میں ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ جیسے جیسے باز پرواز کرتا، مینڈک زمین پر ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتا۔ طالبان کے راہنما نے بتایا : بس ہمارے پاؤں میں بھی ایسا ہی دھاگہ بندھا ہوا ہے۔
افغان طالبان اور القاعدہ کی دوستی باز اور مینڈک کی دوستی تھی۔ افغان طالبان کو امریکہ سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔امریکہ کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ ان کی حکومت کے لیے حالات کو ساز گار بنا رہا تھا۔ اس دوران میں 9/11 کی افتاد آ پڑی۔ افغان طالبان اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔ انہوں نے ذمہ داران کو پناہ دی اور یوں باز کے ساتھ دوستی نبھانا چاہی۔ اگر اس موقع پہ طالبان خود کو القاعدہ سے الگ کر لیتے تو افغانستان اس عذاب سے بچ سکتا تھا۔ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان بھی۔ روایت یہ ہے کہ اس وقت جب پاکستانی وفد انہیں سمجھانے گیا، بعض سمجھانے والے انہیں مشورہ دیتے رہے کہ ڈٹے رہو! وہ ''مشیر‘‘ معلوم نہیں، آج کہاں ہیں؟ کہتے ہیں تبلیغی جماعت کے ساتھ ہیں۔ کاش وہ بھی اپنی یادداشتیں لکھیں اور اس قوم کو حقیقت بتائیں کہ کس نے طالبان کو کیا مشورہ دیا۔
افغان طالبان کا نقطہ نظر کبھی عالم گیر نہیں رہا۔ وہ کبھی عالمی خلافت کے علم بردار نہیں تھے۔ پاکستان تحریک طالبان اگرچہ ملا عمر کو امیر المومنین سمجھتی ہے لیکن اس کے شواہد موجود نہیں ہیں کہ انہوں نے کبھی خود اس کا دعویٰ کیاہو ۔ وہ عالم اسلام کی تمام حکومتوں کو جائز سمجھتے اور ان کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے۔ یہی نہیں، وہ غیر مسلم حکومتوں کے حق اقتدار کو بھی چیلنج نہیںکرتے۔ اس کی ایک تازہ مثال افغان طالبان کا چین کے ساتھ رابطہ ہے۔ چین کے بارے میں القاعدہ اور دوسری پُرتشدد تحریکوں کا موقف دوسرا ہے۔ سنکیانگ میں جو مزاحمتی تحریک جاری ہے، یہ بات بار ہا بیان ہوئی کہ ان کی تربیت بھی وزیرستان میں ہوتی رہی ہے، جو ان عالمی جنگجوؤں کا مرکز بن چکا تھا۔ اس کے باوصف طالبان نے چینی حکومت سے رابطہ قائم کیا ہے اور اب چین اور افغانستان کے مابین براہ راست تعلقات بھی قائم ہو رہے ہیں۔ چین بھی اسی نقطہ نظر کا حامی ہے کہ طالبان بھی افغانستان کے سیاسی نظام کا حصہ بن جائیں۔
میرا احساس یہ ہے کہ آج وقت نے ساری دنیا کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ ان غلطیوں کی تلافی کرے جن کی بنیاد 9/11کے واقعے نے رکھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے اس کا ادراک کر لیا ہے۔ پاکستان میں، بظاہر خیال یہی ہے کہ ''سٹرٹیجک ڈیپٹھ‘‘ سے نجات پر تمام ذمہ داران متفق ہیں۔ اس پالیسی سے رجوع کاایک مطلب یہ ہے کہ ہم نے افغانستان کی آزادانہ حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔اسی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اب چین افغانستان سے براہ راست رابطہ کر رہا ہے۔ بھارت کے خواب اگرچہ شرمندہ تعبیر نہیںہو رہے لیکن اس کی سلامتی بھی اسی میں ہے کہ وہ افغانستان کے باب میں حقیقت پسند ہو جائے اور یہ جان لے کہ پاکستان نے اگر اپنی سابق پالیسی سے رجوع کیا ہے تو اسے بھی ان خوابوں پر اصرار نہیں کرنا چاہیے جو اس نے چند برس پہلے دیکھے اور اس کے تحت وہ افغانستان میں سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار بن گیا۔
افغان طالبان بھی اگر بدلتے حالات میں اپنی نئی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں تو یہ ان کے لیے نیک شگون ہو گا اور ہمارے لیے بھی۔ ہمیں اس خام خیالی سے بھی نکلنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ افغانستان سے بھاگ گیا اور اب طالبان کا دور آ گیا ۔ امریکہ جو چاہتا تھا، وہ بڑی حد تک ہو گیا۔ اس نے اپنے خلاف مزاحمت کے ایک بڑے مرکز کو ختم کر دیا۔ جو لوگ اس دہشت گردی کی جنگ کو امریکہ کی جنگ سمجھتے تھے، انہیں اب اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ جنگ دراصل پاکستان، افغانستان اور عالم اسلام کے خلاف تھی۔ 9/11کے بعد افغانستان اور پاکستان برباد ہو گئے۔ ہمارے کم و بیش ساٹھ ہزارافراد قربان ہو گئے۔ اس کے بر خلاف 9/11 سے 2014ء تک ، امریکی سرزمین پر صرف42 افراد دہشت گردی میں مارے گئے۔ ان میں وہ سکھ بھی شامل ہیں جنہیں مسلمان ہونے کے شبے میں مار ڈالا گیا۔
کیا افغان طالبان کو اس خسارے کااندازہ ہے جو انہوں نے اور ہم سب نے اٹھایا ؟ اُن کے وفد کا دورۂ چین یہ بتا رہا ہے کہ وہ خود کو القاعدہ سے الگ کر رہے ہیں۔ اب انہیں بھی عالمی جہادی تحریکوں سے براہ راست خطرات لاحق ہیں۔ افغانستان میں بھی دولت اسلامیہ کے ابو بکر بغدادی کی خلافت کا اعلان ہو رہا ہے۔جو لوگ طالبان سے ناراض ہیں،انہیں اب ایک متبادل میسر آگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد اگر افغان طالبان ان کو خلیفہ نہیں مانیں گے تو ان کو اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔افغانستان میں مجاہدینِ اسلام کے مابین ایک نیا تصادم، گل بدین احمد شاہ مسعود کی طرح۔ اب وقت آ گیا کہ افغان طالبان مینڈک باز کے ساتھ اپنی دوستی کے خاتمے کا اعلان کریں اور ہمت کر کے اس دھاگے کواعلانیہ کھول دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved