تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-02-2015

مہنگائی کا جِن

مہنگائی کو جِن سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ کیوں نہ دی جائے؟ بڑھتے بڑھتے قیمتیں جو قد نکالتی ہیں وہ جِنّات کو شرمندہ کرنے کی کوشش ہی تو معلوم ہوتی ہے! عام آدمی بے چارہ تنخواہ یا اُجرت ملنے پر جب بازار کا رُخ کرتا ہے اور کچھ خریدنا چاہتا ہے تو مہنگائی دیکھ کر سوچتا ہے کہ ہو نہ ہو، یہ جِنّات کا کام ہے! 
ہر دور کی حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دعوے کئے ہیں اور مُنہ کی کھائی ہے۔ اور یہ شکست وہ ہے کہ بخوشی کھائی جاتی ہے۔ خوشی خوشی کیوں نہ کھائی جائے؟ اِس شکست ہی میں تو حکومت سے وابستہ افراد کی فتح مضمِر ہوتی ہے! 
احسن اقبال منصوبہ بندی و ترقیات کے وزیر ہیں۔ مگر اپنے میدان یا دائرۂ کار سے ہٹ کر بھی کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔ ایسا نہ کریں تو خود کو پاکستانی کیسے ثابت کریں! ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بندی کا دائرہ اُنہوں نے مہنگائی تک وسیع کردیا ہے۔ منصوبوں اور ترقیات کے بارے میں تو اُن کی زبانِ مبارک سے ہم نے کچھ کم کم ہی سُنا ہے۔ ہاں، کئی دوسرے موضوعات کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے حوالے سے بھی وہ حکومت کے وکیلِ صفائی کا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ احسن اقبال نے (شاید ہم وطنوں کے ساتھ ساتھ جِنّات کی بھی تفریحِ طبع کے لیے) کہا ہے کہ مہنگائی کے جِن کو 2018ء تک بوتل میں بند کرکے دم لیں گے۔ 
احسن اقبال کے بیان یا دعوے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست دانوں پر حالات سے کوئی سبق نہ سیکھنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ ہوسکتا ہے سیاست دان تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے میں دلچسپی نہ لیتے ہوں مگر ماضیٔ قریب سے کوئی نہ کوئی سبق سیکھنا وہ ضرور پسند کرتے ہیں۔ مصلحت غالباً یہ ہوتی ہے کہ مخالفین جو غلطیاں کرکے بزمِ اقتدار سے نکالے گئے ہیں اُنہیں دہرانے سے بچ کر حکومت کو بچایا جاسکے! 
2008ء میں جب پیپلز پارٹی چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی تو راجا پرویز اشرف کو پانی و بجلی کی وزارت سونپی گئی۔ دیگر ''اوصافِ حمیدہ‘‘ کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی ڈیڈ لائن دینے کے حوالے سے بھی شہرت پائی۔ پہلے اُنہوں نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ 2008ء کے آخر تک ختم ہوجائے گی۔ میڈیا والوں کو ڈگڈگی مل گئی جو اِتنی بجائی گئی کہ پرویز اشرف پریشان ہو اُٹھے۔ جب پہلی ڈیڈ لائن گزر گئی تو موصوف نے لوڈ شیڈنگ کو اپنی طرف سے ''ایکسٹینشن‘‘ دے دی۔ فرمایا کہ اب لوڈ شیڈنگ کی بساط 2009ء کے آخر تک لپیٹ دی جائے گی۔ یہ ڈیڈ لائن بھی سِتم ظریف نکلی یعنی دبے پاؤں آئی اور چُپکے سے گزر گئی۔ بے چارے وزیر پانی و بجلی بہت شرمندہ ہوئے اور کچھ دن مخالفین کے ساتھ ساتھ میڈیا والوں سے بھی مُنہ چُھپاتے پھرے۔ دو مرتبہ مُنہ کی کھانے کے بعد راجا پرویز اشرف نے اپنے ''ماضیٔ انتہائی قریب‘‘ سے خاصا سبق سیکھا اور ڈیڈ لائن دینے سے توبہ کرلی۔ 
ایک بار ہم نے ٹی وی پر جنگلی حیات سے متعلق دستاویزی فلم میں دیکھا تھا کہ ایک شیر نے ہاتھی کے بچے کو گھیر لیا اور اُس کا شکار کرنے کی کوشش کی۔ دونوں میں بہت دیر تک دھینگا مُشتی ہوتی رہی۔ مانا کہ شیر کو خاصا بڑا اور حُکمرانوں جیسا طاقتور جبڑا عطا ہوا ہے مگر جناب، ہاتھی کی کھال! ہاتھی کی کھال میں اُترنے کے لیے خنجر کے دانت درکار ہیں! شیر نے جب اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لیا اور کوئی مثبت نتیجہ برآمد کرنے میں ناکام رہا تو تھک ہار کر توبہ کرلی۔ اُدھر ہاتھی کا بچہ بھی اُٹھا اور بدن سے مِٹّی جھاڑتا ہوا دوبارہ اپنے جُھنڈ سے جا مِلا۔ 
بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا مہنگائی کے جِن کو بوتل میں بند کرنے کا معاملہ، دونوں کا معاملہ ہاتھی کے بچے جیسا ہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کو ختم نہ ہونا تھا سو نہ ہوئی۔ مگر لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کی ناکام ڈیڈ لائنز دینا راجا پرویز اشرف کے لیے نیک شگون ثابت ہوا۔ جو بجلی کا بحران ختم کرنے میں یکسر ناکام ثابت ہوا وہ بالآخر وزیر اعظم کی کُرسی پر جلوہ افروز ہوا۔ یُوں تو (یافت کے اعتبار سے) اب پانی و بجلی کی وزارت بھی ایسی کہ وزارتِ عظمٰی غور کرے تو شرما جائے! یہی کمال کیا کم ہے کہ جس منصوبے سے ایک ٹکے کی بھی بجلی نہ مِل پائی اُس پر اربوں روپے یُوں نچھاور کردیئے گئے جیسے بارات میں دُولھا کے سَر پر وار کر کڑک کرنسی نوٹ لُٹائے جاتے ہیں! 
جب راجا پرویز اشرف وزیر اعظم بنے (یعنی بنائے گئے) تو دُنیا حیران رہ گئی۔ جو ایک وزارت نہ چلا سکا اُس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دے دی گئی! ع 
اِس طرح ہی ہوتا ہے مملکت کے کاموں میں! 
اور ہم آپ کون ہوتے ہیں کچھ سمجھنے والے یا سمجھنے کی کوشش کرنے والے؟ ع 
رُموز مملکتِ خویش خُسرواں دانند! 
ایسا لگتا ہے کہ احسن اقبال بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ ہو یا مہنگائی، کِسے ختم ہونا ہے؟ مہنگائی کے جِن کو بوتل میں بند کرنے کی جو ڈیڈ لائن احسن اقبال نے دی ہے وہ بھی بالآخر گزر ہی جائے گی۔ اور پھر شاید کسی کو خیال آجائے کہ ناکام ڈیڈ لائن دینے کے صِلے یا انعام کے طور پر اُنہیں وزارتِ عُظمٰی دے دی جائے! ہوسکتا ہے کہ احسن اقبال کے ذہن میں بھی یہی بات آئی ہو کہ شاید ناکام ڈیڈ لائن اُن کے لیے اہلیت کا ثبوت بن جائے! 
راجا پرویز اشرف کو پانی و بجلی کی وزارت دی گئی تھی۔ ملک میں دونوں ہی چیزیں مفقود تھیں۔ احسن اقبال منصوبہ بندی و ترقیات کے وزیر بنائے گئے ہیں۔ ملک میں کبھی منصوبہ بندی نہیں رہی تو ترقیات کا کیا سوال؟ قابلِ رحم کارکردگی پر احسن اقبال یہ کہہ سکتے ہیں کہ خام مال ہی نہیں تھا تو پروڈکٹ کہاں سے بنتی؟ 
پیپلز پارٹی والے جیالے ہیں، جذبات کی رَو میں تیزی سے اور بہت دُور تک بہہ جاتے ہیں۔ وہ جب بولنے پر آتے ہیں تو سوچنے اور سمجھنے سے تعلق ختم کربیٹھتے ہیں۔ ن لیگ والوں کو اللہ نے سوچنے اور سمجھنے کی تھوڑی بہت صلاحیت ضرور دی ہے اِس لیے وہ پُھونک پُھونک کر قدم اُٹھاتے ہیں۔ بولتے ہیں تو اچھی طرح تول کر۔ احسن اقبال نے مہنگائی کے جِن کو بوتل میں بند کرنے کی ڈیڈ لائن 2018ء دی ہے۔ یعنی تقریباً سوا تین سال بعد کی۔ مہنگائی کے جِن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے احسن اقبال نے اِتنا وقت شاید اِس لیے لیا ہے کہ جِن کو دبوچنے میں بھی تو وقت لگے گا۔ اور پھر اُس جِن کو بند کرنے کے لیے اُتنی ہی بڑی بوتل بھی تو درکار ہوگی۔ 2018ء کی ڈیڈ لائن ممکنہ طور پر یہ سوچ کر دی گئی ہے کہ تب تک لوگ بھول بھال چکے ہوں گے کہ مہنگائی دراصل جِن ہے اور اُسے بند کرنے کا وعدہ فرمایا گیا ہے! یہ حکومت جس طور چل رہی ہے یا چلائی جارہی ہے اُسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 2018ء کے آنے تک اِس ملک کے لوگ اِن حکمرانوں کو بھول بھی چکے ہوں گے! 
بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ مہنگائی کا جِن بھی ''نوٹس مِلیا، ککھ نہ ہِلیا‘‘ کے مِصداق کھا پی کر پروان چڑھتا رہے گا۔ اُسے بوتل میں بند کرنے کی ڈیڈ لائن بھی بالآخر گزر ہی جائے گی۔ جہاں اِتنی پُرمزاح قیامتیں گزری ہیں وہاں ایک ڈیڈ لائن اور سہی! 
اب تو حسرت سی ہے کہ deadlines کا سلسلہ ختم ہو اور ہمیں کہیں سے کوئی liveline عطا ہو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved