تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری بڑے مشفق اور ملنسار شخص ہیں۔ ہمارے دوستانہ تعلقات ایک عشرے پر محیط ہیں۔ ملک میں جب بھی کبھی مذہبی حوالے سے کوئی معاملہ اٹھتا ہے تو اعجاز چوہدری مجھ سے ضرور مشاورت کرتے اور میرے مشوروں کو اہمیت بھی دیتے ہیں۔
چند روز قبل چوہدری صاحب لارنس روڈ پر واقع مسجد سے متصل میرے دفتر میں ملاقات کے لیے تشریف لائے اور مجھ سے نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشات پر گفتگو کی۔ خاندانی نظام کو بچانے کے لیے وہ بھی میری طرح نظریاتی کونسل کی سفارشات سے متفق تھے۔ ہم دونوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ طلاق کے احسن اور سنت طریقے پر عمل پیرا ہونے سے دو خاندان ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں اور اس طریقے سے جوکوئی بھی طلاق دے گا پورے غورو خوض اور سوچ سمجھ سے دے گا اور اس کے بعد پچھتاوے کے امکانات بھی باقی نہیں رہیں گے۔
اعجاز صاحب نے اس موقع پر مجھے 28جنوری کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے علماء کنونشن میں خطاب کی دعوت بھی دی۔ اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ گستاخانہ خاکوں، ملک میں جاری فرقہ واریت اور دہشت گردی پر خان صاحب تمام مکاتب فکر کے علماء کی آراء کو سننے کے لیے آ رہے ہیں ۔ اس لیے میں بھی اس کنونشن میں ضرور پہنچوں اور اپنا اور اپنی جماعت کا مؤقف بیان کروں۔ 27جنوری کی شام کو میں اپنے قریبی رفقاء کے ہمراہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گیا ۔ رات قریبی دوست کے ہاں قیام کیا۔ اگلے روز ہم سعودی سفارتخانے کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں جانے کا مقصد سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کی وفات پر تعزیت کرنا تھا۔ سفارتخانے کے عملے نے پر تپاک استقبال کیا اور تعزیت کے موقع پر بھی روایتی عرب مہمانداری کو برقرار رکھا۔
مختلف شخصیات یکے بعد دیگرے سفارتخانے کے تعزیتی رجسٹر پر اپنے تاثرات قلمبند کر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میری باری آئی میں نے بھی اپنے تاثرات کو قلمبند کیا۔ اس کے بعد سفارتخانے کے عملے سے بالمشافہ تعزیت کی اور مستقبل کے حوالے سے نیک تمناؤں اور خواہشات کا اظہار کیا اور اس کے بعد سفارتخانے سے روانہ ہو گئے۔
سفارتخانے سے نکلنے کے بعد ہم آبپارہ میں لال مسجد کے قریب واقع ہوٹل کی جانب روانہ ہو گئے، جہاں پر تحریک انصاف کا علماء کنونشن منعقد ہونے والا تھا۔ ہم نے ہوٹل کی مسجد میں نماز ظہر اور عصر ادا کی۔ ابھی پروگرام کے شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا اس لیے ہم ہوٹل کے عقب میں واقع مارکیٹ میں چلے گئے۔ مارکیٹ میں ایک جوس کارنر پر بیٹھ کر جوس پینے لگے اس دوران میری نظر مارکیٹ میں سے گزرتے ہوئے دیرینہ دوست تنویر اقبال پر پڑھی ، میں نے تنویر بھائی کو آواز دی تو وہ میری آواز سن کر ہمارے ٹیبل پر تشریف لے آئے۔ تنویر اقبال آج سے سات برس قبل ایک میڈیا گروپ کے سینئر رپورٹر ہوا کرتے تھے۔ چھ برس قبل وہ امریکہ چلے گئے اور وہاں سے گرین کارڈ حاصل کرنے کے بعد چار ماہ قبل وطن واپس آچکے تھے۔ قیام امریکہ کے حوالے انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کا ذکر کیا اور یہ بھی بتلایا کہ امریکہ میں بھی اسلام کی تبلیغ اپنے پورے عروج پر ہے اور معروف مبلغ بلال فلپس اور یوسف ایسٹس اس حوالے سے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ دونوں نو مسلم مبلغ لاکھوں امریکیوں کی زندگیاں تبدیل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اسی دوران برادر اعجاز چوہدری کا فون آگیاکہ پروگرام کچھ ہی دیر میں شروع ہونے والا ہے۔
ہم فوراً ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ برادر اعجاز چوہدری ہمیں بیسمنٹ میںکنونشن ہال میں لے گئے ، جہاں کثیر تعداد میں علماء موجود تھے۔ اعجاز صاحب نے کچھ دیر کے لیے ہمیں سٹیج کے عقب میں واقع ویٹنگ لائونج میں علماء کے ہمراہ بٹھا دیا۔ اسی دوران تحریک انصاف علماء ونگ کے رہنمامفتی عبدالقوی بھی ویٹنگ لائونج میں تشریف لے آئے۔ حال ہی میں ہمارے ما بین نظریاتی کونسل کی سفارشات کے حوالے سے کئی ٹی وی پروگرامز میں دھواں دھار بحثیں ہو چکی تھیں۔ ان بحثوں میں علمی دلائل کے ساتھ ساتھ جذبات بھی اپنے پورے عروج پر رہے تھے لیکن اس کے باوجود ہماری سماجی تعلقات میں کسی بھی قسم کی ناگواری اور تلخی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ہم دونوں نے گرمجوشی کے ساتھ ایک دوسرے سے ملاقات کی اور مسکراتے ہوئے حالیہ بحثوں پر لطیف انداز میں تبصرے بھی کیے۔
مفتی عبدالقوی صاحب نے مجھے اس موقع پر کہا کہ آپ کو ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے۔ میں نے مفتی عبدالقوی صاحب کو جواب دیا کہ میں ملک کی بہتری اور ملی مفاد میں ملک کی تمام نمایاں جماعتوں سے روابط رکھنے کا حامی ہوں لیکن چونکہ میری سیاست کا واحد مقصد نفاذ اسلام کے لیے آئینی جدو جہد کرنا ہے اس لیے میں صرف اور صرف دینی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر سکتا ہوں۔ تاہم اگر ملک کی کوئی نمایاں سیاسی جماعت واضح طور پر نفاذ اسلام کی سربلندی کی جدوجہد کرنے کا اعلان کرتی ہے تو ایسی صورت میں اس جماعت کے ساتھ بھی تعاون کیا جا سکتا ہے۔
اسی اثناء میں خان صاحب بھی تشریف لے آئے اور تمام علماء بھی اپنی اپنی مخصوص نشستوں پر تشریف فرما ہو گئے ۔ میر ی نشست عمران خان صاحب سے متصل تھی اس لیے وقفے وقفے سے سماجی اور سیاسی حوالے سے بات چیت ہوتی رہی۔ تلاوت اور نعت کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جناب اعجاز چوہدری، مولانا امین شہیدی، صاحبزادہ سلطان احمد علی، حبیب عرفانی صاحب اور مولانا زاہد الراشدی نے اپنے اپنے انداز میں معروضی حالات کے تناظر میں مثبت تجاویز دیں ۔ ان علماء کے بعد مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے جن تجاویز کو تحریک انصاف کے سربراہ اور علمائے کرام کے سامنے رکھاان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ہمارا ملک ایک عرصے سے دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے پوری قوم تشویش اور اضطراب کا شکار ہے۔ اس اہم مسئلے کے حل کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی مدرسہ دہشت گردی کے کاموں میں ملوث ہے تو اس کے ساتھ قانون کے تقاضوں کے مطابق سلوک کرنا چاہیے ۔ لیکن کسی بھی مدرسے یا چندافراد کی نا عاقبت اندیشی کی وجہ سے تمام اہل مذہب کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ قاتل کو قاتل اور دہشت گرد کو دہشت گرد سمجھنا چاہیے اور اس کا نعرہ خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو‘ اس کی وجہ سے نظام اسلام کی افادیت پر شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی قاتل مذہب کا نام استعمال کرتا ہے تو ملک کے ادارے اس کے خلاف کارروائی کا پورا حق رکھتے ہیں لیکن امریکہ سمیت کسی غیر ملک کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری سرزمین پر حملہ کرے اور دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ بے گناہوں کا قتل عام کرے۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو مذہب کے ساتھ مخصوص کرنا بھی درست نہیں۔ تمام دہشت گردوں کے خلاف یکساں کارروائی ہونی چاہیے، دہشت گردی سے نفرت اسلامی نظام سے نفرت کا جواز فراہم نہیں کر سکتی۔ 1973ء کے آئین اور قرار داد مقاصد میں کروائی گئی یقین دہانیوں کے مطابق اسلام کا عادلانہ نظام اس ملک میں نافذ ہونا چاہیے۔ قانون کی نظر میں امیر اور غریب ، حاکم اور محکوم کو برابر ہونا چاہیے ۔ پیغمبراسلام ﷺ نے بنومخزوم کی ایک عورت پر چوری کرنے پر جب سزا کا اعلان کیا تو بنومخزوم کے لوگوں نے اسامہ ابن زید ؓ کو سفارش کے لیے بھیجا۔ نبی کریمﷺ نے اس موقع پر کہا کہ اگرمیری بیٹی حضرت فاطمہؓ بھی چوری کرے تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں گا۔ جب تک یہ عادلانہ اور منصفانہ نظام ملک میں نہیں آئے گا اس وقت تک ملک کے حالات نہیں سنور سکتے۔
میرے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب نے تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے میرے بیان کردہ نکات کی تائید کی اور علماء کرام کویہ یقین دہانی بھی کرائی کہ تحریک انصاف مدارس اور علماء کے خلاف کسی بھی جانبدارانہ طرز عمل کی حمایت نہیں کرے گی۔ انہوں نے گستاخانہ خاکوں کو مسلمان حکمرانوں کی نااہلی سے تعبیر کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر عالم اسلام فرانس کا تجارتی بائیکاٹ کرے تو فرانس سمیت کوئی ملک بھی اس قسم کے اقدامات کو دہرانے کی جسارت نہیں کر سکتا۔خان صاحب کی تقریر کے تفصیلی نکات چونکہ میڈیا میں رپورٹ ہو چکے ہیں اس لیے میں تمام نکات کو دہرانا ضروری خیال نہیں کرتا۔ خان صاحب کی تقریر کے بعد کنونشن اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ ہم بھی ہوٹل سے نکل کر ایک دو قریبی دوستوں سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگئے۔ رات آٹھ بجے واپسی کا سفر شروع ہوا اور یوں اسلام آباد کا یہ مختصر مگر مصروف دورہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔