تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-02-2015

خام خیالی

افغانستان میں جو کارنامہ امریکہ نے انجام دینا تھا، دے چکا۔ اب آگے جو کرنا چاہتاہے ، وہ اور بھی مضحکہ خیز ہے ۔ افغان سرزمین پر چین کو ایک بڑا کردار دینے کا اس کا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔ سینیٹر مشاہد حسین کے الفاظ میں ، افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں چین واحد ہے ، جس پر ماضی کا کوئی بوجھ (Baggage)نہیں ۔ عسکری نہیں ، افغانستان میں اس کا ایک مثبت معاشی کردار ہے ۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار گروہوں کو وہ قابلِ عمل معاہدے تک لے جانا چاہتاہے ۔ حکومت میں طالبان کی شمولیت چاہتاہے ۔ 
نہ صرف یہ کہ سرِ عام چینی حکومت نے یہ کہا کہ افغانستا ن میں وہ ایک بڑا کردار چاہتی ہے بلکہ صدر اشرف غنی نے پہلا دورہ بھی چین ہی کا کیا۔مزید پیش رفت کے لیے طالبان کا وفد چین گیا۔ 
یہ سب ہو چکا تو بھارت کے دورے پر آئے صدر اوباما کے ساتھ نریندرا مودی نے جن معاملات پر اتفاق کیا، ان میں امریکہ کے خالی کر دہ افغانستان میں ایک موثر بھارتی کردار بھی شامل تھا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ، اس کے خوشدلانہ تعاون کے بغیر افغانستان میں امن کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں ۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے ، پچھلے عشرے میں ایک موثر عسکری اور معاشی کردار تو پہلے ہی وہ پشتون سرزمین پہ حاصل کرچکا تھا.....اور معاف کیجیے ، صدر کرزئی کے سائے تلے بھارتی کردار اینٹی پاکستان تھا۔تمام زور آزمائی کے بعد، بھارت کے پلڑے میں آج ہے کیا؟
سرحدی معاملات پر کشیدگی سمیت، بھارت چین معاملات قطعاً خوشگوار نہیں ۔ اپنے اپنے تجارتی مفادات کے تحت دنیا کی دو سب سے بڑی منڈیاں ایک دوسرے سے روابط قائم رکھے ہوئے ہیں۔ مستقبل کے افغانستان میں چین اور پاکستان کا کردار ایک دوسرے کی تکمیل کرتاہے ۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، دونوں ممالک سے اس کے تعلقات خوشگوار تو ہرگز نہیں ۔ بالخصوص پاکستان اور بھارت کے مفادات متضاد ہیں۔ ایک کی شکست دوسرے کی فتح ۔
پاکستان او رچین ہی نہیں ، کم و بیش خطے کے تمام ممالک سے بھارتی تعلقات عجیب و غریب بنیادوں پہ قائم ہیں ۔ مرکزی نقطہ یہ ہے کہ پڑوس کے چھوٹے ممالک اس کی طفیلی ریاستیں بن کر جینا چاہیں تو خوش آمدید وگرنہ جنگ ! دنیا کی دوسری سپر پاورچین ، معاشی لحاظ سے جو امریکہ کا نصف ہے ، اسے وہ خطے میں اپنا حریف سمجھتاہے ۔بھارت ایک برا پڑوسی ہے ۔ اس سارے پسِ منظر میں غور کیجیے تو صاف نظر آتاہے کہ آج نہیں تو کل ، بالآخر افغانستان میں بھارت کا کردار سکڑ تا چلا جائے گا۔ 
پاکستان کے لیے کچھ اچھی خبریں ہیں ۔ جہاں تک چینی سرحد سے گوادر تک معاشی راہداری کے قیام، ریلوے اور سڑکوں کے نظام اور اقتصادی زون کا تعلق ہے ، آج نہیں تو کل وہ بن کے رہے گا۔ 230ارب ڈالر کی پاکستانی معیشت کو بالآخر9ہزار ارب ڈالر کی چینی معیشت سے منسلک ہو کے رہنا ہے ۔ جہاں تک سکیورٹی معاملا ت کا تعلق ہے ، برا وقت گزر گیا ہے ۔ پاکستان کی مسلّح افواج اس جنگ میں نہ صر ف ثابت قدم بلکہ دشمنوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی ہیں ۔ عراق کے برعکس، جہاں دہشت گردی کے خلاف ریاست کا عسکری تار پود بکھرکے رہ گیا، پاکستانی فوج نہ صرف یہ کہ قائم و دائم بلکہ پہلے سے زیادہ تربیت یافتہ ہے ۔ سوات ، جنوبی اور شمالی وزیرستان کے معرکوں میں جوانوں اور افسروں کو اپنے جوہر دکھانے اور صلاحیتیں نکھارنے کا موقع ملا ہے ۔
جہاں تک سلامتی کونسل کی مستقل نشست کا سوال ہے ، امریکہ ، فرانس، برطانیہ، روس اور چین ،پانچوں کی مشترکہ رضامندی ہی سے ایسا ممکن ہے ۔ کس خوشی میں چین بھارت پہ یہ عنایت کرے گا؟ 
جہاں تک نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کا تعلق ہے ، تمام ممبر ممالک کی رضامندی ہی سے بھارتی شمولیت ممکن ہے ۔ کس خوشی میں چین بھارت پہ یہ عنایت کرے گا؟ 
پاکستان ،بالخصوص اس کی مسلّح افواج کے لیے زیادہ خطرناک وقت گزر گیا ہے ۔ آپریشن ضربِ عضب سے قبل ، مغرب میں افغان سرحد پہ کم و بیش ڈیڑھ لاکھ جوان تعینات تھے ۔ دو کے سواپاک فوج کی سبھی کورز کسی نہ کسی سطح پہ مشرق میں بھارت کی طرف متوجہ ہیں ۔ کم و بیش آدھی فوج ! ملک بھر میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے نمٹنے کے علاوہ، کراچی میں وہ مصروف ِ عمل تھے ۔ برسبیلِ تذکرہ وزیرِ اعظم نے یہ درست کہا کہ کراچی کے حالات بہت بہتر ہیں ۔ یہ غلط فرمایا کہ اس کا سہرا وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ کے سر ہے ۔ ایسا ہوتا توصدر زرداری کی حکومت کے دوران، پچھلے پانچ برس کے دوران ہی وہ یہ سہرا اپنے سر باندھ لیتے ،جس دوران کم و بیش پانچ ہزار افراد قتل ہوئے۔ 
بھارت کوغلط فہمی دور کر لینی چاہیے ۔ وہ ایک سپر پاورہرگز نہیں ۔ ایک وسیع و عریض ریاست ضرور ہے ۔ یہ بات باعثِ شرم ہے کہ سات گنا فوجی بجٹ اور قریباً 9گنا بڑی معیشت کے باوجود ، پاکستان اس کے لیے لوہے کا چنا ہے ۔ اس کے باوجود کہ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان کی مسلّح افواج مشرق سے مغرب تک شدید دبائو کا شکار تھیں ، بلوچستان میں اپنی تمام تر توانائی ضائع کرنے کے باوجود وہ ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکا۔
جنرل مشرف کے دور سے شروع ہونے والی پسپائی سمیت، کشمیر پہ ہر قابلِ عمل حل پیش کرنے سمیت، مملکتِ پاکستان ہر ممکن لچک دکھا چکی ۔ حکومتِ پاکستان کو اب جارحانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان میں اگر بد امنی ہوگی تو اس کے شعلے لازماً بھارتی سرزمین کو اپنی لپیٹ میں لیں گے ۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے ، شمالی کوریا کے ہمسایہ جنوبی کوریا اور جاپان کی طرح ، چین کا ہمسایہ بھارت ہی اس کا اصل تزویراتی پارٹنر ہے ۔ وہ اس کا بڑا کاروباری شراکت دار ہے ۔ اس سب کے باوجود، یہ بات بہرحال امریکیوں کو سمجھ لینی چاہیے کہ بھارت کے ساتھ ایسا اتحاد، جس کی بنیاد پاکستان کو زک پہنچانے پہ استوار ہو ، کبھی برگ و بار نہیں لا سکتی ۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے ، یہ بات درست ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی اس کے تزویراتی اور تجارتی مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ کشمیر پہ امریکی وزن یقینا بھارت کے پلڑے میں ہے لیکن اس سے آزادی کی تحریک کو دبانا ممکن نہیں ۔حوالے کے طور پر افغانستان کو ملاحظہ کیجیے ، جہاں آتش کی بارش کے بعد بالآخر سیاسی حل ہی تلاش کرنا پڑا۔ سیاسی حل کشمیر میں بھی ڈھونڈنا ہوگا۔ آج نہیں تو کل ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved