تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-02-2015

قائداعظمؒ کے جانشین کا انتظار

فردوسِ بریں کی وسعتوں سے محمد علی جناحؒ کی روح پکارتی ہے۔
کون ہوتاہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق 
ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد 
وزیرِ اعظم نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کی خواہش اب یہ ضرور ہے کہ دہشت گردی تمام ہو ۔ ان کی سیاسی بقا کا انحصار اسی پر ہے۔ سانحۂ پشاور نے قوم کو یکسو کر دیا۔ ایک متحرک مکتبِ فکر اور ژولیدہ فکروں کا پھیلایا ہوا ابہام تحلیل ہوا۔ معصوم فرشتوں کا لہو اب ان کے تعاقب میں ہے ۔ تحریکِ پاکستان میں یہی ہوا تھا۔ ابوالکلام آزاد ، مولانا حسین احمد مدنی ، خان عبد الغفار خان اور عطاء اللہ شاہ بخاری ایسی جیّد شخصیات کے باوجود مرکز کی 99 اور صوبائی اسمبلیوں کی 80فیصد سیٹیں قائدِ اعظمؒ نے جیت لی تھیں۔ سرخ پوش سرحد میں پشتون کارڈ استعمال نہ کرتے تو صوبائی اسمبلیوں میں بھی تناسب یہی ہوتا۔ کوئی سیاسی پارٹی سرخرو نہ ہوگی ، اگر قومی اتفاقِ رائے سے وہ انحراف کرے۔ 
نون لیگ کی قیادت نے دہشت گردی میں شریک فرقہ پرستوں سے مراسم استوار رکھے ۔ مذاکرات کی وہ حمایت کرتی رہی ، جن کے نتیجہ خیز ہونے کا سوال ہی نہ تھا۔ اپنی پوزیشن اب اس نے تبدیل کر لی ہے ؛با ایں ہمہ اس کی یکسوئی اب بھی ادھوری ہے ۔ 
آج آیا‘ غمِ جاناں غمِ دوراں کی طرف
جانبِ شہر چلے دخترِ دہقاں جیسے
اب دہشت گردوں کے خلاف پنجاب کی کارکردگی دوسرے صوبوں سے بہتر ہے ۔ ایک وجہ وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کا غیر معمولی تحرک بھی ہے ۔ ان کی تجربہ کاری ، سول سروس کے 
علاوہ پولیس پہ گرفت اور وسائل کی فراوانی ۔ سندھ حکومت کو ایم کیو ایم درپیش ہے ۔ اس کے اکثر ممتاز لیڈر ہمہ وقت کرپشن میں اس طرح ملوّث ہیں کہ فرصت ہی نہیں پاتے ۔ سرکاری ملازموں کی بھرتی، سازوسامان کی خریداری اور ترقیاتی منصوبوں میں ان کی توجہ روپیہ بنانے پہ رہتی ہے ۔ ان میں سے کئی ایک کراچی کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں بھی مصروف رہتے ہیں ۔ یہ احساس ان میں سرایت کر چکا کہ آخری بار وہ اقتدار میں ہیں ۔ دیہی سندھ میں نون لیگ اگر اس کے مخالفین کو یکجا کر لے یا پیر صاحب پگاڑا سے سمجھوتہ کر پائے تو بیس پچیس صوبائی نشستیں آسانی سے جیت لے گی ۔ ایم کیو ایم بخوشی اس کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہوگی ۔ تحریکِ انصاف دیہی سندھ میں آگے بڑھتی نظر نہیں آتی ؛البتہ ایک موزوں حکمتِ عملی کے ساتھ کراچی کی ایک چوتھائی سیٹیں آسانی سے لے سکتی ہے، اگر خانہ جنگی سے وہ بچی رہے۔
پیپلز پارٹی اگر عددی اکثریت کی حامل نہ رہے تو تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم نون لیگ سے اتحاد کرنا پسند کریں گی۔ عمران خان ، نواز شریف کے درمیان آج خواہ کتنی ہی تلخی کارفرما ہو، زرداری صاحب مسترد ہوئے تو اتحاد ممکن ہو جائے گا۔ پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی قیادت انڈر 19ٹیم ایسی ہے ۔ اس کے ارکان کو تھام نہ لیا گیا تو سینیٹ الیکشن میں اکثر خود کو بیچ ڈالیں گے۔ جوڑ توڑ میں نون لیگ کا کوئی ثانی نہیں ۔ کئی ماہ سے فروختنی ارکان سے اس کا رابطہ ہے ۔ ان میں سے اکثر پہلی اور آخری بار منتخب ہوئے ہیں۔ ابھی ابھی یہ بات عمران خان کو میں نے بتائی ہے۔ اس نکتے کا ادراک وہ نہیں کرتے کہ بگڑنے والے اس وقت بگڑ تے ہیں ، جب موقع میسر آئے ۔ گمنام نوجوانوں کے بارے میں یہ فرض کرلینے کا کوئی جواز نہیں کہ لازماً وہ پارسا رہیں گے ۔ بدعنوان طاقت بناتی ہے ۔ ایرے غیرے کا کیا مول ۔ 
سندھ کی طرح پختون خوا حکومت بھی داخلی معاملات میں الجھی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں وہ کوئی موثر کردار ادا نہیں کر سکتی۔ صوبے میں ایک مکتب فکر کے گہرے رسوخ کی بنا پر ، نظریاتی الجھائو اور بھی زیادہ ہے ۔ بعض جیّد علمائِ کرام جس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ جناب سراج الحق بھی‘ سانحۂ پشاور کے بعد جنہوں نے ارشاد کیا تھا کہ مغرب اسلام کو بدنام کرنے کے درپے ہے ۔ 
خوش قسمتی سے بلوچستان حکومت میں ہم آہنگی زیادہ ہے ۔ وزیرِ اعلیٰ ، چیف سیکرٹری ، آئی جی ایف سی ، انسپکٹر جنرل پولیس اور کور کمانڈر میں کوئی کشمکش نہیں ۔ ایک ٹیم کی طرح وہ کام کرتے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ سمیت دوسرے منصب دار بھی اس پر ستائش کے مستحق ہیں ۔ سب سے بڑھ کر جنرل ناصر جنجوعہ۔ خوش اخلاق ہیں اور حوصلہ افزائی کا ہنر جانتے ہیں مگر بلوچستان حکومت کی تگ و تاز میڈیا میں اجاگر نہیں ہوتی ۔ ٹی وی چینل اور اخبارات کے صدر دفاتر بہت دور واقع ہیں ۔صوبائی حکومت کا ان سے کوئی موثر رابطہ ہے اور نہ اس سلسلے میں کوئی نظام وضع کرنے کی فکر۔ 
پنجاب حکومت واقعی سرگرم ہے۔ پھر یہ کہ میڈیا اس کا ڈھول بھی خوب پیٹتا ہے۔ بڑے پیمانے پر وہ اشتہارات جاری کرتی ہے۔ اس کے پاس ماہرین کی ایک بڑی ٹیم ہے ۔ تجربہ بھی بہت ۔ 
اللہ کرے ، میرا اندازہ غلط ہو مگر اس کے باوجود کسی غیر معمولی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔ اس لیے کہ جرائم کے خلاف سب سے پہلی اور سب سے مضبوط دفاعی لائن پولیس ہوا کرتی ہے ۔ یہ تھانیدار کا کام ہے کہ علاقے میں مشکوک سرگرمیوں اور آمدرفت پہ نگاہ رکھے۔ ایک ایک محلہ، ایک ایک کانسٹیبل کے سپرد کر دیا جاتا۔ 1861ء سے یہی نظام موثر تھا مگر سیاسی مداخلت سے بتدریج تباہ کر دیا گیا ۔ اسے بحال کرنا ہوگا۔ سی آئی ڈی اور سپیشل برانچ کو متحرک اور جدید خطوط پہ استوار کر کے دہشت گردوں کو خوف زدہ کیا جا سکتاہے ۔ جرم تب تحلیل ہوتاہے ، جب زیادہ تر مجرم پکڑے جانے لگیں ۔ وہ بہادر لوگ نہیں ہوتے بلکہ حکومت کے پیدا کردہ خلا میں چمکتے ہیں۔ 1995ء کے کراچی میں دہشت گردی کا خاتمہ فوج اور رینجرز نے نہیں ، پولیس کے علاوہ آئی بی کے ان افسروں کی وجہ سے ہوا‘ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے جو حجازِ مقدّس گئے ۔ خانہ کعبہ اور مدینہ منوّرہ میں وہ آبدیدہ اور دست بدعا دیکھے گئے۔ دہشت گرد اسلام کا نام لیتے ہیں ؛حالانکہ قتل و غارت کے علاوہ وہ منشیات فروشی اور اغوا برائے تاوان میں ملوّث ہیں ۔ نہایت بے شرمی کے ساتھ غیر ملکیوں سے روپیہ اور ہتھیاروہ وصول کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض پاکستان کے نظریاتی مخالف ہیں۔ کنفیوژن پیدا کرنے میں وہ کامیاب رہے کہ مدارس اور مساجد میں ان کے ہمدرد موجود ہیں اور سیاست میں بھی ۔ وہ لوگ کہ تحریکِ پاکستان کے بارے میں جن کے تحفظات تھے ۔ وہ لوگ ، جن کاخیال یہ ہے کہ اقتدار مذہبی طبقات یعنی خود ان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ 
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے 
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں 
آج کا نہیں ، یہ چار سو برس کا قصہ ہے ۔ کچھ برسرِ زمین او رکچھ زیرِ زمین تحریکیں۔ تفصیل پھر کبھی۔ قیامِ پاکستان کی طرح ، یہ ایک نظریاتی جنگ ہے۔ کون یہ جنگ لڑے گا؟ وزیرِ اعظم اور ان کی پارٹی تو آمادہ نہیں ۔ 
اس جہاد کے لیے جو میدان میں اترے گا ، وہی قائدِ اعظم کا جانشین ہوگا ۔ وہی پاکستان کے مستقبل کا معمار ۔ فردوسِ بریں کی وسعتوں سے محمد علی جناحؒ کی روح پکارتی ہے ؎ 
کون ہوتاہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق 
ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved